03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
فوت شدہ اولاد کو گھر کی تقسیم میں شریک کرنے کی وصیت
86428میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہماری والدہ زینت بیگم 2022میں فوت ہوئیں اور ورثہ میں تین بیٹے(حنیف خان،اشرف خان،عارف خان )اور چھ بیٹیاں(سلمی،نجمہ ،نسیمہ ،نعیمہ ،اسماء ،ریشماں) تھیں، حنیف خان، اشرف خان،سلمی،نسیمہ کا انتقال والدہ زینت بیگم کی زندگی میں ہوچکاتھا،ہماری والدہ نے اپنی زندگی میں ہوش وحواس کے ساتھ اپنی پانچ اولاد(عارف خان،نجمہ ،نعیمہ ،اسماء ،ریشماں) کے سامنے یہ بول کر گئی ہیں کہ یہ مکان میرے سارے بچوں میں تقسیم ہوگا اور ان کی پانچ اولاد کی گواہی اس بات پر موجود ہے۔اب آپ بتائیں کہ ہماری والدة زینت بیگم کے مکان کی تقسیم کس  طرح ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والدہ کی زندگی میں جس وارث کا انتقال ہوگیا ہے،اس کے لیے وصیت درست نہیں ہے،البتہ اگر دیگر ورثہ والدہ کی اس بات پر راضی ہیں اور وہ فوت شدہ بھائیوں اور بہنوں کے لیے اپنی خوشی سے  اس گھر میں حصہ رکھنا چاہتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔اس کے لیے گھر کی تقسیم کا طریقہ کار نمبر 4 میں آرہاہے۔

 اگر والدہ نے اپنی اولاد کی اولاد یعنی  پوتوں/پوتیوں وغیرہ  کے لیے وصیت کی ہوتو یہ وصیت ان کے حق میں شرعاً معتبر ہوگی،اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ کفن، دفن اور قرضوں کی ادائیگی کے بعد اس گھر کے ایک تہائی کی حد تک اس وصیت پر  عمل  کرکے اس میں سےپوتوں کو ان کاحصہ دیاجائے۔

والدہ کی وفات کے وقت جو ورثہ زندہ تھے،اگر وہ فوت شدہ بہن ،بھائیوں کو گھر میں شریک نہیں کرنا چاہتے ہیں تو والدہ کی تمام جائیداد اور مال ان کے درمیان اس طریقہ کے مطابق تقسیم ہوگا۔

 "مرحومہ نے بوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا ،چاندی،نقدی اور ہر قسم کا سامان چھوڑا ہےاوراسی طرح مرحومہ کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب ہو، يہ  سب مرحومہ کا ترکہ ہے،اس میں سب سے پہلے کفن دفن کے معتدل اخراجات(اگر کسی نے اپنی طرف سے بطور احسان نہ کیے ہوں تو) نکالے

جائیں،پھر اگر میت پر قرضہ ہو تو وہ ادا کیا جائے،اگر انہوں نے وارث کے علاوہ کسی کے لیے وصیت کی ہوتو ایک تہائی سے وہ ادا کی جائے،اس کے بعد بقیہ مال  ورثہ میں تقسیم کیاجائے،تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے:۔

میراث کے 6حصے بنائے جائیں گے،جن میں سے2حصے بیٹے(عارف خان) کے ہوں گے،جبکہ 4 حصے چار

بیٹیوں  میں تقسیم ہوں گے، ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔"

نمبر

وارث

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیٹا(عارف خان)

2

33.3333

2

بیٹی(نجمہ)

1

16.6666

3

بیٹی(نعیمہ)

1

16.6666

4

بیٹی(ریشماں)

1

16.6666

5

بیٹی(اسماء)

1

16.6666

 

 

اگر ورثہ والدہ کی بات کے پیش نظر اپنے فوت شدہ بھائیوں اور بہنوں کو بھی خوشی سے گھر میں شریک کرکے ان کا حصہ رکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس گھر کی تقسیم اس طرح ہوگی، گھر کے 12حصے بنائے جائیں گے،جن میں سے 6حصے بیٹوں کو ملیں گے ،ہر بیٹے کے دو حصے ہوں گے،جبکہ 6 حصے چھ بیٹیوں  میں تقسیم ہوں گے، ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔فوت شدہ بیٹے ،بیٹیوں کا حصہ ان کے ورثہ کو ملے گا۔

نمبر

وارث

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیٹا(عارف خان)

2

16.6666

2

بیٹا(اشرف خان)

2

16.6666

3

بیٹا(حنیف خان)

2

16.6666

4

بیٹی(نجمہ)

1

8.3333

5

بیٹی(نعیمہ)

1

8.3333

6

بیٹی(ریشماں)

1

8.3333

7

بیٹی(اسماء)

1

8.3333

8

بیٹی(سلمی)

1

8.3333

9

بیٹی(نسیمہ)

1

8.3333

 

حوالہ جات

فی الدر المختار(6/648):

(هي تمليك مضاف إلى ما بعد الموت) عينا كان أو دينا . قلت : يعني بطريق التبرع ليخرج نحو الإقرار بالدين فإنه نافذ من كل المال(الیٰ قولہ) (و تجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (و إن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه الخ

و فی الشامیة (6/648):

احترز بقوله مضاف إلى ما بعد الموت عن نحو الهبة فإنها تمليك تبرع للحال اھ ۔

و فیہ أیضاً (6/769) :

أن شرط الإرث وجود الوارث حیا عند موت المورث اھ۔

و فی الھندیة(6/159) :

قال : و إذا شهد الشاهدان أن الميت أوصى إلى هذا (الیٰ قولہ) أجزت شهادتهما اھ ۔
و فی البزازیة(6/434) :

و لو قال فی صحتہ ثلث مالی لفلان و لو ذکرہ فی خلال الوصایا یکون وصیة او اضافہ الیٰ مابعد الموت و لو کان ذلک فی الصحة یکون وصیة و فی المرض علی ھذا اھ ۔

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

12/ رجب 1446ھ

 

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب