86451 | طلاق کے احکام | تحریری طلاق دینے کا بیان |
سوال
میں بنت حوا طلاق کے مسئلے میں رہنمائی چاہتی ہوں۔ دراصل میں شادی سے پہلے ایک شخص کے ساتھ تھی،لیکن صرف کچھ عرصےکے لیے ۔ میرا تعلق ایک عزت دار گھرانے سے ہے، ہم سب پانچ وقت کے نمازی ہیں، میں نے کبھی اس طرح کسی لڑکے سے دوستی نہیں کی نہ کبھی بات، لیکن جب مجھے احساس ہوا کہ یہ غلط ہے تو میں نے اس سے سارے تعلق ختم کر دیے اور اللہ کی بارگاہ میں سچے دل سے توبہ کی اور کبھی اس طرف نہ جانے کی اللہ سے دعا کی۔پھر ان سب کے 1 سال بعد میرا نکاح ہوگیا،بہت کوشش کی اپنے شوہر کو بتانے کی لیکن ہمت نہیں ہوتی تھی ۔ ہم دونوں اپنی ازدواجی زندگی میں بہت خوش تھے، مجھے ڈر تھا کہ کہیں میں انہیں یا رشتہ نہ کھو دوں،ہماری شادی کو ڈیڑھ مہینہ ہی ہوا تھا کہ اچانک پتہ نہیں کیسے انہیں اس لڑکے کے بارے میں پتہ چل گیا اور مجھ سے پوچھا تو میں نے ہاں کردیا،یہ سن کر انہیں صدمہ لگا اور اپنے دماغ پہ لے لیا ،جس کی وجہ سے ان کی طبیعت بہت خراب ہوگئی ،گھر والوں کے پوچھنے پر انہوں نے سب بتا دیا اور پھر مجھے میرے گھر بھیج دیا گیا ،میرے گھر والے جب بات کرنے گئے تو ان لوگوں نے مجھے رکھنے سے منع کردیا اور طلاق کا بولا،میری طرف سے بہت سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ طلاق میں جلدی نہ کریں ،وقت دے دیں،لیکن سسرال والوں نے نہیں سنی،دوسرے دن ہی پیپر بنادیے۔میرے شوہر مجھے طلاق دینا نہیں چاہتے تھے،وہ منع کر رہے تھے کہ میری طبیعت ابھی ٹھیک نہیں ہے،جب ٹھیک ہوجائے گی تب بات کروں گا،ابھی رہنے دو،لیکن شوہر کے بہن ،بہنوئی ،امی،ابو،ماموں ،ممانی،خالاؤں نے ان پر ذہنی دباؤ ڈالا کہ اسے طلاق دو۔امی اور ابو نے دباؤ ڈالا کہ اگر تم اسے طلاق نہیں دو گے تو ہمارا مرا ہوا منہ دیکھو گے،ہم سے کوئی تعلق نہیں ہوگا تمہارا وغیرہ وغیرہ۔پھر میرے سسر نے اپنے سر سے ٹوپی اتار کر میرے شوہر کے قدموں میں رکھ دی اور کہا کہ اگر تم ہمیں زندہ دیکھنا چاہتے ہو تو اسے طلاق دو،دباؤ میں آکر انہوں نے اسٹامپ پیپر پر دستخط کردیے ،لیکن زبان سے طلاق نہیں دی،پیپر میرے گھر ان کے ماموں لے کر آئے تھے ،جس میں تین طلاق ایک ساتھ تھی۔ان (شوہر)پر بہت زیادہ ذہنی دباؤ تھا کہ ان کی ناک سے بھی خون آنے لگا تھا۔ڈاکٹر کو دکھایا تو اس نے ذہنی دباؤ کا بولا اور دوائی دی انہیں۔میں اور میرے شوہر ایک دوسرے سے الگ ہونا نہیں چاہتے تھے ،ہم واپس رجوع کرنا چاہتے ہیں،اس مسئلے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال کے جواب سے پہلے چند اصولی باتیں سمجھنا ضروری ہیں:
اصطلاح شرع میں اکراہ اور جبراس کو کہتے ہیں کہ "انسان جس کام سے باز رہنا چاہتا ہو ،اس کو اس کام کے کرنے پر ایسی دھمکی کے ذریعے مجبورکردیا جائے ،جس کے واقع کرنےپر مجبور کرنے والا قادر ہو اور یہ اس کی دھمکی سے اس طرح خوف زدہ ہوکہ اس کو دھمکی دینے والے کی بات نہ ماننے کی صورت میں،اس کےدھمکی کو واقع کردینے کا غالب گمان ہو"۔
فقہاء حنفیہ اکراہ کی دو قسمیں بیان کرتے ہیں،اکراہ ملجی اور اکراہ غیر ملجی۔
اکراہ ملجی(تام):جس میں مجبور کیے جانے والے شخص کو قتل یا کسی عضو کے تلف کردینے کی دھمکی دی گئی ہو،خواہ نفس عضو تلف کرنے کی یا اس کی صلاحیت تلف کرنے کی۔
اکراہ غیر ملجی (ناقص):جس میں مجبور کیے جانے والے شخص کو قتل یا کسی عضو کے تلف کردینے کی دھمکی نہ دی گئی ہو بلکہ اس کے علاوہ کوئی غیر معمولی نقصان پہنچانے کی دھمکی دی گئی ہو ،جیسےلمبی قید یاشدید مار کٹائی کی دھمکی وغیرہ۔
-
فقہائے کرام رحمہم اللہ نے اکراہ غیر ملجی کے لیے دھمکی کے غیر معمولی ہونے کی صراحت تو کی ہے لیکن ساتھ یہ صراحت بھی کی ہے کہ اس کا مدار آدمی کی حالت پر موقوف ہے، چنانچہ کسی صاحبِ عزت وعظمت شخص کے لیے مجمع میں ڈانٹنا یا کان مروڑنا یا گالیاں دینا بھی غیر معمولی حرج کا سبب ہوسکتا ہے،چنانچہ ایسے شخص کے لیے یہ امور بھی اکراہ میں شمار کیے گئے ہیں،لہٰذا عبارات فقہاء کی روشنی میں غیر ملجی اکراہ کا مدار اس پر ہے کہ اس اکراہ کے نتیجے میں خاص اُس آدمی کو شدید نقصان یا غم لاحق ہو،کیوں کہ نقصان اور غم کی نوعیت مختلف اشخاص کے اعتبار سے مختلف ہو سکتی ہے،دیکھیےعبارت:
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 80) دار الكتاب الإسلامي:
وقد يكون فيه ما يكون في الحبس من الإكراه لما يجيء به من الاغتمام البين ومن الضرب ما يجد به الألم الشديد وليس في ذلك حد لا يزاد عليه ولا ينقص منه؛ لأنه يختلف باختلاف أحوال الناس فمنهم لا يتضرر إلا بضرب شديد وحبس مديد ومنهم من يتضرر بأدنى شيء كالشرفاء والرؤساء يتضررون بضرب سوط أو بفرك أذنه لا سيما في ملأ من الناس أو بحضرة السلطان. وفي الخانية، ولو أكره على بيع جارية ولم يعين فباع من إنسان كان فاسدا.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 128)
الإكراه. (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ.
الموسوعة الفقهية الكويتية (7/ 126، بترقيم الشاملة آليا)
ولخصّ ذلك كلّه فقهاؤنا إذ قالوا : الإكراه لغةً : حمل الإنسان على شيءٍ يكرهه ، يقال : أكرهت فلاناً إكراهاً : حملته على أمرٍ يكرهه . والكَرْه " بالفتح " اسم منه ( أي اسم مصدرٍ ) . أمّا الإكراه في اصطلاح الفقهاء فهو : فعل يفعله المرء بغيره ، فينتفي به رضاه ، أو يفسد به اختياره . وعرّفه البزدويّ بأنّه : حمل الغير على أمرٍ يمتنع عنه بتخويفٍ يقدر الحامل على إيقاعه ويصير الغير خائفاً به .
-
اگرچہ اصولی اعتبار سے اکراہ اس صورت میں متحقق ہوتا ہے، جب کسی فرد کی طرف سے آدمی کو کسی کام پر مجبور کیا جائے اور نہ کرنے کی صورت میں اس کی ذات کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی جائے، مگر فقہائے حنفیہ رحمہم اللہ نے اکراہ کی بعض ایسی صورتیں بھی ذکر کی ہیں، جس میں اس کی ذات کو بالفعل کوئی نقصان نہیں پہنچتا، البتہ اس کی وجہ سے شدید غم اور پریشانی لاحق ہوتی ہو، جیسے والدین یا اولاد میں سے کسی کو جان سے مارنے یا قیدکرنے کی دھمکی دینا وغیرہ۔جہاں تک کسی شخص کا اپنے آپ کو مارنے کی دھمکی دینے کا تعلق ہے تو اگرچہ کتبِ حنفیہ میں اس کی صراحت نہیں ملی، مگر فقہائے شافعیہ رحمہم اللہ نےصراحت کی ہے کہ اگر والد نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دو ،ورنہ میں اپنے آپ کو قتل کر دوں گا تو یہ بھی شرعاً اکراہ ہے۔
حاشية الجمل على شرح المنهج (4/ 325) سليمان بن عمر الأزهري، المعروف بالجمل (المتوفى: 1204هـ) دار الفكر،بيروت:
الضابط السابق ومنه قول الوالد لولده طلقها وإلا قتلت نفسي فهو إكراه وكذا عكسه على المعتمد فيهما اهـ.
حاشية البجيرمي على الخطيب( 3/ 490) سليمان بن محمد بن عمر الشافعي (المتوفى: 1221هـ) دار الفكر،بيروت:
"وليس من الإكراه قول من ذكر طلّق زوجتك وإلا قتلت نفسي ما لم يكن نحو فرع أو أصل" .
لہذا شوہر کے والد کی طرف سے اپنے بیٹے کویہ دھمکی کہ"اگر تم ہمیں زندہ دیکھنا چاہتے ہو تو اسے طلاق دو"اور شوہر کی دماغی کیفیت جو کہ سبب بنا ہے خون جاری ہونے کا وغیرہ،یہ صورت بھی اکراہ میں شامل ہو گی، کیونکہ اکراہ کی اصل علت، مکرہ بہ (جس کام پر مجبور کیا گیا ہو)نہ کرنے کی صورت میں آدمی کو شدیدنقصان یاغم کا لاحق ہونا ہے اور وہ یہاں بھی متحقق ہے۔
(یاد رہے کہ اگر کسی مسئلہ کی حنفیہ کے ہاں تصریح نہ ہو، جبکہ دوسرے مذہب میں اس کی صراحت ہو اور وہ مسئلہ حنفیہ کے اصولوں سے بھی متصادم نہ ہو تو ایسی صورت میں دوسرے مذہب پر عمل کرنا جائز ہے ،نیز یہاں نفسِ مسئلہ (اکراہ کی حالت میں تحریری طلاق کا بغیر نیت کے واقع نہ ہونا) میں حنفیہ کا ہی مذہب لیا گیا ہے، البتہ اکراہ کی کچھ تفصیل شافعیہ کے مسلک سے لی گئی ہے۔)
(2.1فقہائے کرام رحمہم اللہ نے کتابت کو بوقتِ ضرورت کلام کے قائم مقام قرار دیا ہے، لہذا جہاں ضرورت نہ ہو وہاں کتابت کو کلام کے قائم مقام ٹھہرانے کا کوئی معنی نہیں، اور کتابت میں ضرورت کا تحقق وہاں ہوتا ہے ،جہاں آدمی قصداً تحریرکے مضمون کو واقع کرنے کا ارادہ کرے،خواه دل میں اس کام کی نیت ہو یا اس کی حالت قصد پر دلالت کرے، جیسے بغیر جبرواکراہ کے مرسومہ (لوگوں کے عرف کے مطابق) طریقے پر طلاق نامہ لکھنا دلالتِ حال کی وجہ سے شرعا معتبر ہے، اگرچہ دل میں اس کی نیت نہ ہو، اس کے برخلاف فقہائے کرام رحمہم اللہ نے بغیر نیت کے کتابتِ غیرمرسومہ میں وقوعِ طلاق کا حکم نہیں لگایا ، کیونکہ یہاں دل میں بھی نیت نہیں اور ظاہری حالت بھی ارادہ وقصد پر دلالت نہیں کرتی، لہذایہاں کتابت کو کلام کے قائم مقام قرار نہیں دیا جائے گا، اسی لیے احناف کے نزدیک حالتِ اکراہ میں بغیر نیت کےتحریری طلاق واقع نہیں ہوتی:
فتاوى قاضي خان(1/ 416) مكتبة رشيدية، كوئٹة:
رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان بن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان بن فلان طالق لا تطلق امرأته لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة ههنا.
-
ہمارے اکابر کے بعض فتاوی سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کتابتِ طلاق بغیر آدمی کی رضامندی کے معتبر نہیں، چنانچہ فتاوی رحيمیہ میں حضرت مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ کا ایک فتوی نقل کیا گیا ہے، جس میں محض والد کی ناراضگی کو عدمِ رضامندی کی وجہ سے تحریراً طلاق کےوقوع سے مانع قرار دیا ہے:
"(سوال ۸۸۹/۱۶۳ ) مسماۃ بیگم جو کہ بندہ کےنکاح میں تھی ،والد صاحب کو چند آدمی نے کہا کہ اس کو (اپنے لڑکے کو) اس سے ( اس کی بیوی سے ) علیحدہ کرا دیجئے، بندہ نے با ادب والد صاحب کو یہ جواب دیا کہ میری حالت اس کوترک کرنے سے ابتر ہو جائے گی ، والد نے کہا تجھ سے کبھی نہ بولوں گا ،اس پر بندہ نے دو روپیہ کے کاغذ کا اسٹامپ خرید کر ایک پر طلاق نامہ لکھا گیا اور دوسرے پر مہر نامہ، اس وقت میری حالت ابتر اور خراب تھی مجھ کو خبر نہ تھی کہ کس حالت میں ہوں،مجھ پر صدمہ پڑا ہوا تھا،کبھی روتا تھا، کبھی خاموش ہو جاتا تھا، یہ بات قسمیہ عرض ہے ،جہاں تک مجھ کو خیال ہے اس حالت میں مجھ سے لفظ طلاق دو مربتہ نکل گیا تو یہ جائز ہے یا نہیں؟
(الجواب) کاغذ کی لکھی ہوئی طلاق تو اس حالتِ عدمِ رضا میں نہیں واقع ہوئی، مگر زبان سے دو مرتبہ طلاق کا لفظ نکلا اس سے دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ، عدت کے اندر رجوع کرنا درست ہے" ۔ فقط واللہ اعلم
(فتاوی رحیمیہ:ج:8ص:273بحوالہ فتاوی دارالعلوم دیوبندج3،4،ص242)
مذکورہ بالا امور کی روشنی میں سوال کا جواب
مذکورہ بالا امور کی روشنی میں سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر واقعتاًطلاق نامہ پر دستخط کرتے وقت شوہر کویقین یاظنِ غالب تھا کہ اگروہ طلاق نامہ پر دستخط نہ کرتے تو ان کے والد خود کو جان سے ماردیتے، جس کے نتیجے میں شوہر کو انتہائی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا تو اس صورت میں حالات کےجبر کے پیشِ نظر صرف لکھی ہوئی تحریر پر بغیر نیتِ طلاق اور رضامندی کے، مجبوراً دستخط کرنے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
البتہ اگر ایسی صورتِ حال نہیں تھی مثلا: شوہر کو والد کے خودکو جان سے ماردینے کا یقین یاظنِ غالب نہ ہو یا ان کے خود کو ماردینے کی صورت میں شوہر کو شدید پریشانی نہ ہو، جیسے بعض اوقات اختلاف کی صورت میں ایسی کیفیت پیش آجاتی ہےیاشوہر نےدستخط کرتے وقت بادلِ نخواستہ (دو آزمائشوں میں سے کم کو اختیار کرتے ہوئے) طلاق کی نیت کر لی ہو تو ان تمام صورتوں میں شوہر کے دستخط کرتے ہی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہو کر حرمتِ مغلظہ ثابت ہو چکی ہے اور اب اسی حالت میں رجوع یا دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا۔(تبویب بتغییر:82400)
حوالہ جات
صحيح البخاري (7/ 43، رقم الحدیث: 5261) دار طوق النجاة:
حدثني محمد بن بشار، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: حدثني القاسم بن محمد، عن عائشة، أن رجلا طلق امرأته ثلاثا، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله عليه وسلم: أتحل للأول؟قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»
البحر الرائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (8/ 81) دار الكتاب الإسلامي، بيروت:
والإكراه بحبس الوالدين والأولاد لا يعد إكراها؛ لأنه ليس بإكراه ولا يعدم الرضا بخلاف حبس نفسه وفي المحيط، ولو أكره بحبس ابنه أو عبده على أن يبيع عبده أو يهبه ففعل فهو إكراه استحسانا، وكذا في الإقرار ووجهه أن الإنسان يتضرر بحبس ابنه أو عبده ألا ترى أنه لا يؤثر حبس نفسه على حبس ولده فإن قلت بهذا نفي الأول قلنا لا فرق بين الوالدين والولد في وجه الاستحسان وهو المعتمد كما لا فرق بينهما في وجه القياس وقوله خير بين أن يمضي أو يفسخ تقديره، وإذا زال الإكراه إلى آخره دفعا للضرر عن نفسه.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7/ 175) دار الكتب العلمية:
وأما بيان أنواع الإكراه فنقول: إنه نوعان: نوع يوجب الإلجاء والاضطرار طبعا كالقتل والقطع والضرب الذي يخاف فيه تلف النفس أو العضو قل الضرب أو كثر، ومنهم من قدره بعدد ضربات الحد، وأنه غير سديد؛ لأن المعول عليه تحقق الضرورة فإذا تحققت فلا معنى لصورة العدد، وهذا النوع يسمى إكراها تاما، ونوع لا يوجب الإلجاء والاضطرار وهو الحبس والقيد والضرب الذي لا يخاف منه التلف، وليس فيه تقدير لازم سوى أن يلحقه منه الاغتمام البين من هذه الأشياء أعني الحبس والقيد والضرب، وهذا النوع من الإكراه يسمى إكراها ناقصا.
الدر المختار مع حاشية ابن عابدين (6/ 129) دار الفكر، بيروت:
(وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع) كشرب الخمر والزنا إلا على المذاكير والعين بزازية.
الدر المختار شرح تنوير الأبصار (ص: 603) دار الكتب العلمية، بيروت:
(خوفها الزوج بالضرب حتى وهبته مهرها لم تصح) الهبة (إن قدر الزوج على الضرب) وإن هددها بطلاق أو تزوج عليها أو تسر فليس بإكراه.
خانية. وفي مجمع الفتاوى: منع امرأته المريضة عن المسير إلى أبويها إلا أن تهبه مهرها فوهبته بعض المهر فالهبة باطلة، لانها كالمكره قلت: ويؤخذ منه جواب حادثة الفتوى: وهي زوج بنته البكر من رجل، فلما أرادت الزفاف منعها الاب، إلا أن يشهد عليها أنها استوفت منه ميراث أمها فأقرت ثم أذن لها بالزفاف فلا يصح إقرارها لكونها في معنى المكرهة، وبه أفتى أبو السعود مفتي الروم.
محمد حمزہ سلیمان
دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی
۱۹.رجب۱۴۴۶ہجری
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |