86616 | زکوة کابیان | صدقات واجبہ و نافلہ کا بیان |
سوال
بعض لوگوں نے مل کر رفاہی کاموں کے لیے کچھ رقم جمع کرنے کا فیصلہ کیا ،یہ بھی طے کیا گیا کہ جمع شدہ رقم کا ایک مخصوص حصہ ماہانہ سیونگ کے طور پر رکھا جائے،اب سوال یہ ہے کہ جمع ہونے والی رقم میں ممکن ہے کہ بعض لوگوں نے زکوٰۃ کی رقم بھی جمع کروائی ہو،جبکہ سیونگ کی رقم کا محل استعمال فی الحال واضح نہیں ہے کہ بعد میں کہاں خرچ ہوگی؟کیا اس جمع شدہ رقم کا استعمال بھی صرف مستحق زکوٰۃ افراد پر کیا جاناضروری ہےیا یہ کسی بھی مصرف میں خرچ کی جاسکتی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
زکوٰۃ اور صدقات واجبہ،صرف مستحق زکوٰۃ افراد کو ہی دیے جاسکتے ہیں،البتہ نفلی صدقات کسی بھی خیر کے کام میں خرچ کیے جاسکتے ہیں،ان میں تملیک یعنی مالک بنانا بھی شرط نہیں ہے،جبکہ زکوٰۃ اور صدقات واجبہ میں تملیک یعنی مالک بنانابھی شرط ہے،لہٰذا فنڈ کے منتظمین کو یہ اہتمام کرنا چاہیے کہ زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کی رقوم کو صدقات نافلہ کی رقوم سے الگ کرکے رکھیں تاکہ ہر ایک شرعی احکام کے مطابق اس کے مصرف میں خرچ کی جاسکے۔
سوال میں مذکور صورت میں اصل حکم تو یہی ہے کہ زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کے بقدررقم،مصارف زکوٰۃ میں خرچ کی جائےاور بقیہ رقم کسی بھی خیر کےکام میں خرچ کی جاسکتی ہے،البتہ اگر متعین طور پر معلوم نہ ہو کہ کتنی رقم زکوٰۃ اور صدقات واجبہ کی مد میں ہے تو احتیاطاً مکمل رقم مصارف زکوٰۃ میں خرچ کی جائے تاکہ زکوٰۃ دینے والوں کی زکوٰۃ یقینی طور پر ادا ہوجائے۔
حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 368)
(وصدقة الفطر كالزكاة في المصارف) وفي كل حال.
(قوله: في المصارف) أي المذكورة في آية الصدقات إلا العامل الغني فيما يظهر و لاتصح إلى من بينهما أولاد أو زوجية ولا إلى غني أو هاشمي ونحوهم ممن مر في باب المصرف، وقدمنا بيان الأفضل في المتصدق عليه.‘‘
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 344)
ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا) لا إباحة كما مر.
(بدائع الصنائع، ۲/48، ط: سعید)
وأما صدقة التطوع فیجوز صرفها إلی الغنی لأنها تجري مجری الهبة.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 270)
ولا يخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 269)
ولو خلط زكاة موكليه ضمن وكان متبرعا إلا إذا وكله الفقراء…
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 269)
(قوله ضمن وكان متبرعا) لأنه ملكه بالخلط وصار مؤديا مال نفسه. قال في التتارخانية: إلا إذا وجد الإذن أو أجاز المالكان اهـ أي أجاز قبل الدفع إلى الفقير، لما في البحر: لو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز لأنها وجدت نفاذا على المتصدق لأنها ملكه ولم يصر تائبا عن غيره فنفذت عليه اهـ لكن قد يقال: تجزي عن الآمر مطلقا لبقاء الإذن بالدفع. قال في البحر: ولو تصدق عنه بأمره جاز ويرجع بما دفع عند أبي يوسف. وعند محمد لا يرجع إلا بشرط الرجوع اهـ تأمل، ثم قال في التتارخانية أو وجدت دلالة الإذن بالخلط كما جرت العادة بالإذن من أرباب الحنطة بخلط ثمن الغلات؛ وكذلك المتولي إذا كان في يده أوقيات مختلفة وخلط غلاتها ضمن وكذلك السمسار إذا خلط الأثمان أو البياع إذا خلط الأمتعة يضمن. اهـ. قال في التجنيس: ولا عرف في حق السماسرة والبياعين بخلط ثمن الغلات والأمتعة اهـ ويتصل بهذا العالم إذا سأل للفقراء شيئا وخلط يضمن.
قلت: ومقتضاه أنه لو وجد العرف فلا ضمان لوجود الإذن حينئذ دلالة. والظاهر أنه لا بد من علم المالك بهذا العرف ليكون إذنا منه دلالة (قوله إذا وكله الفقراء) لأنه كلما قبض شيئا ملكوه وصار خالطا مالهم بعضه ببعض ووقع زكاة عن الدافع…
محمد حمزہ سلیمان
دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی
۲۲.رجب۱۴۴۶ہجری
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |