03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بیع عینہ کی ایک صورت(سودی قرضہ کے لئے بطورِ حیلہ کے گاڑی کا لین دین کرنا)
86619خرید و فروخت کے احکامبیع کی مختلف اقسام ، بیع وفا، بیع عینہ اور بیع استجرار کا بیان

سوال

میرے چچا کو نقد رقم کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے وہ قسطوں پر گاڑی خرید کر آگے نقد قیمت پر فروخت کرنا چاہتے ہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آگے فروخت کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ اس صورت میں میرے چچا نے کہا ہے کہ آپ اپنی گاڑی قسطوں والے فریق کو نقد قیمت پر بیچ دیں، اور میں اس سے قسطوں میں خرید لوں گا، اس کے بعد میں آپ کو وہی گاڑی نقد قیمت پر واپس بیچ دوں گا، جس پر آپ نے اسے فروخت کیا تھا۔کیا یہ معاملہ شرعاً جائز ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ آپ کے چچا  کا مقصد گاڑی خریدنا  نہیں،بلکہ انہیں نقد پیسوں کی ضرورت ہے، اور  سودی قرضہ کے لئے بطورِ حیلہ کے گاڑی  کا لین دین کررہا ہے۔اس کے لئے وہ آپ سے یہ طے کرتے ہیں کہ قسطوں والے فریق سے گاڑی  قسطوں پر خرید کر دوبارہ آپ پر اسی قیمت پر فروخت کریں گےجس پر آپ نے قسطوں والے فریق کو فروخت کی تھی۔ یہ "بیع عینہ "کی  ایک صورت ہے، جو کہ  شرعاً مکروہ تحریمی اور ناجائز ہے،کیونکہ یہ  سود خوری ہی کا ایک طریقہ ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے عقد کو رسوائی اور ذلت کا سبب قرار دیا ہے، جیسا کہ ’’سنن ابی داؤد‘‘  میں بہ روایت حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے :

"جب تک تم بیعِ عِینہ کرتے رہو گے، جانوروں کی دیکھ بھال میں لگے رہو گے، زراعت میں گم ہو جاؤ گے اور جہاد چھوڑ دو گے، تو اللہ تم پر ذلت و رسوائی مسلط کر دے گا، یہاں تک کہ تم دوبارہ دین کی طرف نہ لوٹ آؤ۔"

حوالہ جات

سنن أبي داود (3/ 291 ط مع عون المعبود):

حدثنا سليمان بن داود المهري ، أنا ابن وهب ، أخبرني حيوة بن شريح . (ح) ونا جعفر بن مسافر التنيسي ، نا عبد الله بن يحيى البرلسي ، أنا حيوة بن شريح ، عن إسحاق أبي عبد الرحمن قال سليمان: عن أبي عبد الرحمن الخراساني، أن عطاء الخراساني حدثه، أن نافعا حدثه عن ابن عمر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ‌إذا ‌تبايعتم ‌بالعينة، وأخذتم أذناب البقر ورضيتم بالزرع، وتركتم الجهاد سلط الله عليكم ذلا لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم.

فتح القدير للكمال بن الهمام - ط الحلبي (7/ 212):

ومنها أن يبيع متاعه بألفين من المستقرض إلى أجل ثم يبعث متوسطا يشتريه لنفسه بألف حالة ويقبضه ثم يبيعه من البائع الأول بألف ثم يحيل المتوسط بائعه على البائع الأول بالثمن الذي عليه وهو ألف حالة فيدفعها إلى المستقرض ويأخذ منه ألفين عند الحلول. قالوا: وهذا البيع مكروه لقوله صلى الله عليه وسلم «إذا تبايعتم بالعينة وتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم» والمراد باتباع أذناب البقر الحرث للزراعة لأنهم حينئذ يتركون الجهاد وتألف النفس الجبن.

وقال أبو يوسف: لا يكره هذا البيع لأنه فعله كثير من الصحابة وحمدوا على ذلك ولم يعدوه من الربا، حتى لو باع كاغدة بألف يجوز ولا يكره،

وقال محمد رحمه الله: هذا البيع في قلبي كأمثال الجبال ذميم اخترعه أكلة الربا، وقد ذمهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال «إذا تبايعتم بالعينة واتبعتم أذناب البقر ذللتم وظهر عليكم عدوكم» أي اشتغلتم بالحرث عن الجهاد وفي رواية «سلط عليكم شراركم فيدعو خياركم فلا يستجاب لكم» وقيل: إياك والعينة فإنها لعينة.

 فقه البيوع(1/552):

وان باعه المشتري الاول السلعةالى ثالث ،ثم باعه ذلك الثالث الى الاول، فقديسمى"العينة الثلاثية"۔وهو موضع خلاف بين الفقهاء۔ فمذهب الحنفية انه جائز.

المبسوط للسرخسي (14/ 36):

وإنما يحل ذلك عند عدم الشرط؛ إذا لم يكن فيه عرف ظاهر أما إذا كان يعرف أنه فعل ذلك لأجل القرض فالتحرز عنه أولى؛ لأن المعروف كالمشروط والذي يحكى أنه كان لأبي حنيفة على رجل مال فأتاه ليطالبه فلم يقف في ظل جداره ووقف في الشمس لا أصل له؛ لأن أبا حنيفة كان أفقه من ذلك فإن الوقوف في ظل جدار الغير لا يكون انتفاعا بملكه كيف؟ ولم يكن مشروطا، ولا مطلوبا، وذكر عن الشعبي أنه كان يكره أن يقول الرجل للرجل: أقرضني فيقول: لا حتى أبيعك وإنما أراد بهذا إثبات كراهة.

حضرت خُبیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

24/رجب/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

حضرت خبیب بن حضرت عیسیٰ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب