86676 | نماز کا بیان | امامت اور جماعت کے احکام |
سوال
میں نے ایک عالم صاحب سے سنا ہے کہ علمائے احناف کے درمیان فرض نماز کی جماعت سے متعلق اختلاف ہے۔ کچھ کے نزدیک واجب، کچھ کے نزدیک فرض کفایہ يا مستحب ہے۔ اگر تو یہ بات درست ہے تو میرا سوال ہے کہ کیا ہم ان علماء کے نزدیک اختلاف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرض کفایہ یا مستحب والے قول پر عمل کر سکتے ہیں؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ائمہ احناف کے ہاں نماز باجماعت ادا کرنا سنت مؤکدہ قریب بواجب ہےاور یہ حکم قرآن وسنت اور تعامل امت سے ثابت ہے۔ائمہ احناف میں سے کسی بھی امام نے اس کے فرض کفایہ ،یا مستحب ہونے کا قول نہیں کیا ہے،البتہ نماز باجماعت کی سنیت کے بارے میں ایک قول علامہ کرخی رحمہ اللہ سے نقل کیا جاتا ہے کہ نماز باجماعت ادا کرنا سنت ہے،لیکن یہ قول اپنے ظاہر پر نہیں ،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز باجماعت کے وجوب کا ثبوت سنت سے ثابت ہے اور خود علامہ کرخی رحمہ اللہ نے سنت کی تفسیر واجب سے کی ہے اور بغیر عذر شرعی کے اس کو ترک کرنا جائز قرار نہیں دیا۔
لہذا نماز باجماعت ادا کرنا سنت مؤکدہ قریب بواجب ہے اور بغیر عذر شرعی کے اس کو ترک کرنا جائز نہیں۔ بلاوجہ نماز باجماعت ترک کرنے پر سخت وعید آئی ہے،رسول اللہ صلی ﷺکا ارشاد ہے:میرا دل چاہتا ہے کہ کسی کو امامت کا حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے، پھر میں ایسے لوگوں کے گھروں کی طرف جاؤں جو نماز میں شریک نہیں ہوتے، اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔" صحيح البخاري (2/ 852)
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 155):
والثاني) : الجماعة، والكلام فيها في مواضع: في بيان وجوبها، وفي بيان من تجب عليه، وفي بيان من تنعقد به، وفي بيان ما يفعله فائت الجماعة، وفي بيان من يصلح للإمامة في الجملة، وفي بيان من يصلح لها على التفصيل، وفي بيان من هو أحق وأولى بالإمامة، وفي بيان مقام الإمام والمأموم، وفي بيان ما يستحب للإمام أن يفعله بعد الفراغ من الصلاة.
(أما) الأول: فقد قال عامة مشايخنا: إنها واجبة، وذكر الكرخي أنها سنة، (واحتج) بما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «صلاة الجماعة تفضل على صلاة الفرد بسبع وعشرين درجة، وفي رواية بخمس وعشرين درجة» ، جعل الجماعة لإحراز الفضيلة وذا آية السنن.
(وجه) قول العامة: الكتاب والسنة وتوارث الأمة، أما الكتاب: فقوله تعالى: {واركعوا مع الراكعين} [البقرة: 43] ، أمر الله - تعالى - بالركوع مع الراكعين وذلك يكون في حال المشاركة في الركوع، فكان أمرا بإقامة الصلاة بالجماعة، ومطلق الأمر لوجوب العمل.
(وأما) السنة فما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لقد هممت أن آمر رجلا يصلي بالناس فأنصرف إلى أقوام تخلفوا عن الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم» ، ومثل هذا الوعيد لا يلحق إلا بترك الواجب.
(وأما) توارث الأمة فلأن الأمة من لدن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومنا هذا واظبت عليها وعلى النكير على تاركها، والمواظبة على هذا الوجه دليل الوجوب، وليس هذا اختلافا في الحقيقة بل من حيث العبارة؛ لأن السنة المؤكدة، والواجب سواء، خصوصا ما كان من شعائر الإسلام ألا ترى أن الكرخي سماها سنة ثم فسرها بالواجب فقال: الجماعة سنة لا
يرخص لأحد التأخر عنها إلا لعذر؟ وهو تفسير الواجب عند العامة.
محمد اسامہ فاروق
دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی
27/ رجب/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسامہ فاروق بن محمد طاہر فاروق | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |