86718 | گری ہوئی چیزوں اورگمشدہ بچے کے ملنے کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
میرے والدصاحب کو آرمی کی طرف سے کچھ زمین ملی تھی، جو کہ 52 کنال پر مشتمل ہے، وہ میرے والد نے 2006ء میں ایک فاروق احمد نامی شخص کو بیچی تھی، جو کہ واپڈا میں ملازم تھا، 2002ءمیں میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ، وہ زمین اپنے نام نہیں کروا سکا۔ جس کو اب 17 سال ہو گئے ہیں اور زمین ہمارے نام ہی ہے ۔ ہم نے کچھ رقم لی ہوئی ہے، باقی رقم ہم نے وصول نہیں کی، کیونکہ زمین کا انتقال ہونے کے بعد پوری رقم وصول کرناتھی۔
جس بندے کو ہم نے زمین بیچی، اس کی ایک بیٹی اور بیوی بھی زندہ ہیں ۔ کل مورخہ 25-01-19 کو میں لاہور گیا، ان لوگوں کے گھر کا پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بندہ فاروق احمد فوت ہو گیا ہے، اس کی بیٹی اور بیوی کا پتہ نہیں چل سکا۔ اس کا بھتیجا ملا تو اس نے کہا کہ ہمیں ان لوگوں کا کوئی علم نہیں کہ یہ لوگ کہاں ہیں اور کہاں رہتے ہیں؟ فاروق کی زندگی میں ہی یہ لوگ اس کو چھوڑ کر چلے گئے تھے، میں نے یہاں مفتی حضرات سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ 13 سال کی مدت کے بعد آپ زمین واپس لے سکتے ہیں۔ کچھ اورلوگوں نے الگ الگ باتیں بتائیں، آپ مہربانی فرما کر فتوی لکھ کر بھیج دیں کہ اب اس زمین کا کیا جائے؟
وضاحت: سائل نے بتایا کہ ہم شخصِ مذکور کے بھتیجے کے گھر گئے اور اس سے زمین کی بات کی تو اس نے زمین لینے سے انکار کیا اور کہا کہ ہمارا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، میں ذمہ داری نہیں لیتا، پھر ہم نے معلومات کے لیے اخبار میں بھی ان کا نام وغیرہ دیا، مگر کوئی علم نہ ہو سکا۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں جس شخص کو آپ کے والد صاحب نے زمین بیچی تھی چونکہ آپ کی معلومات کے مطابق اس کی بیٹی اور اہلیہ زندہ ہیں، اس لیے اولاً آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ مختلف ذرائع سے ان کے بارے میں اطلاعات حاصل کرنے کی کوشش کریں، آج کل کسی بھی چیز کی معلومات حاصل کرنے کے لیے مختلف ذرائع جیسے اخبار، فیس بک، وٹس ایپ گروپس اور ٹی وی چینلز وغیرہ استعمال کیے جاتے ہیں، ان ذرائع مواصلات اور اس شخص کے رشتہ داروں اور دوست احباب وغیرہ کے ذریعہ سے آپ ان کا ایڈریس معلوم کرنے کی کوشش کریں، اگر اس کی بیٹی یا بیوی کا ایڈریس معلوم ہوتا جاتا ہے تو آپ یہ زمین ان کے حوالے کر دیں اور زمین کی باقی ماندہ رقم ان سے وصول کر لیں، کیونکہ مذکورہ زمین کی خریدوفروخت مکمل ہونے سے شرعاً یہ خریدار کی ملکیت میں داخل ہو چکی تھی اوراس کے عوض آپ کے والد صاحب کےلیےفریقین کے درمیان طے شدہ قیمت کی وصولی کا حق ثابت ہو چکا تھا، اس لیےاس شخص کے فوت ہونے کے بعداب یہ زمین اس کے ورثاء کی ملکیت ہے، لہذا اپنی کوشش کی حدتک یہ زمین اس کے ورثاء تک پہنچانا ضروری ہے، نیز ورثاء کی رضامندی سے ان کی رقم لوٹا کر زمین خود بھی رکھ سکتے ہیں۔
تاہم اگر کوشش کے باوجود اس کے ورثاء (اس کی بیٹی، بیوی یا کوئی اور وارث جو اس زمین کو لے کرآپ کی رقم ادا کرنے پر تیار ہو) کا کوئی پتہ اور ایڈریس معلوم نہ ہو تو پھراگر آپ مستحقِ زکوة ہیں، یعنی آپ کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت اور ضرورت سے زائد گھریلو سازوسامان (جو سال بھر استعمال میں نہ آیا ہو) نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس زمین کو آپ خود استعمال کر سکتے ہیں اور اگر آپ گزشتہ تفصیل کے مطابق مستحقِ زکوة نہیں ہیں تو آپ کسی مستحق زکوةِ شخص کو بطورِ عاریت استعمال کے لیے یہ زمین دے دیں اور پھر بہر دو صورت (آپ مستحقِ زکوة ہوں یا نہ ہوں) زندگی میں جب بھی اس شخص کا کوئی وارث مل جائے تو آپ زمین اس کے حوالے کر کے اپنی باقی ماندہ رقم اس سے وصول کرسکتے ہیں۔
حوالہ جات
المعتصر من المختصر من مشكل الآثار (2/ 51) عالم الكتب – بيروت:
حكم اللقطة بعد التعريف: روى أن سفيان بن عبد الله وجد عيبة فأتى بها عمر رضي الله عنه فقال: عرفها سنة فإن عرفت فذاك وإلا فهي لك فلم تعرف فلقيه من العام المقبل في الموسم فذكرها له فقال: هي لك إن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمرنا بذلك قال: لا حاجة لي بها فقبضها عمر فجعلها في بيت المال قوله: "فهي لك" ليس على جهة التمليك ولكن هي لك تصرفها فيها تحب صرفها فيه يؤيده ما روى عن علي رضي الله عنه أنه وجد دينارا فجاء به إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله وجدت هذا قال: "عرفه" فذهب ما شاء الله ثم قال: قد عرفته فلم أجد أحدا يعرفه قال: "فشأنك" فرهنه في ثلاثة دراهم في طعام وودك فبينما هو كذلك إذا جاء صاحبه عنده فعرفه فجاء علي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: هذا صاحب الدينار قال: "أده إليه" فأداه علي إليه.
العناية شرح الهداية (5/ 492) الناشر: دار الفكر،بيروت:
وقوله (وإن قسمت الغنيمة فالغني يتصدق بقيمته والفقير لا شيء عليه لقيام القيمة مقام الأصل،فأخذ حكمه) أي أخذت الغنيمة حكم الأصل، وإنما ذكر ضمير الغنيمة على تأويل ما يقوم أو على تأويل المذكور: يعني لو كان فاضل الغنيمة الذي كان معه قائما بعينه وهو فقير فقد حل له التناول منه فكذا يحل له التناول من قيمته لأن الغنيمة تقوم مقام الأصل.
الفتاوى الهندية (5/ 157) الناشر: دار الفكر،بيروت:
وسئل يوسف بن محمد عن غاصب ندم على ما فعل وأراد أن يرد المال إلى صاحبه وقع له اليأس عن وجود صاحبه فتصدق بهذا العين هل يجوز للفقير أن ينتفع بهذا العين؟ فقال: لا يجوز أن يقبله ولا يجوز له الانتفاع وإنما يجب عليه رده إلى من دفعه إليه قال - رضي الله عنه - إنما أجاب بهذا الجواب زجرا لهم كي لا يتساهلوا في أموال الناس أما لو سلك الطريق في معرفة المالك فلم يجده فحكمه حكم اللقطة قيل له إذا لم يجز الانتفاع به وأراد أن يرده إلى الغاصب فلم يجد الغاصب وهذا العين يهلك في الصيف ولا يبقى إلى أن يجد الغاصب أو يرجع إلى الغاصب كيف يفعل فقال يمسكه حتى يمكنه حتى إذا خاف هلاكه باعه وأمسك ثمنه حتى يرده إلى من دفع إليه العين كذا في التتارخانية.
محمد نعمان خالد
دادالافتاء جامعة الرشیدکراچی
29/رجب المرجب 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |