03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
زبانی طور پر دکان ہدیہ کرنا
86706ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

میں بیوہ عورت ہوں، میری 4 بیٹیاں ہیں،بیٹا نہیں ہے، میرے شوہر کے انتقال کو چار سال ہو گئے ہیں۔ انتقال کے وقت ان کے 2 بھائی اور 4 بہنیں بھی حیات تھیں۔میرے شوہر کے پاس 2 دکانیں تھیں : ایک چھوٹی اور ایک بڑی، میرے شوہر اپنی زندگی میں مجھے کہتے تھے کہ چھوٹی دوکان تمہاری ہے۔ خود وہ ڈپریشن کے مریض تھے اور گھر پر ہی رہتے تھے ، دوکان انہوں نے اپنے بھانجے کو کرائے پر دی ہوئی تھی ، دوکان کا proprietor انھوں نے مجھے بتایا ہوا تھا، وہاں کا بینک اکانٹ ، ٹیلی فون کا بل اور ٹیکس میرے نام پر ہی تھے ۔ وہاں پر بھانجے کو بھی انہوں نے بتایا تھا کہ یہ دوکان تمہاری مامی کی ہے۔ البتہ بیماری کی وجہ سے دوکان قانونی طور پر وہ میرے نام نہیں کر سکے تھے ۔ اب شرعی طور پر اس کا کیا فیصلہ ہونا چاہیئے؟ مہربانی کر کے اس بارے میں میری راہنمائی فرمائیں۔

 نوٹ:کرایہ نامہ اہلیہ کے نام پر تھا،جو کرایہ آتاتھا وہ بھی اہلیہ کو دیتے تھے،اختیار اہلیہ کے پاس تھا۔نیز ایک دفعہ نام کروانے کےلیے لے جانے کا کہابھی تھا،مگر بیوی کے عذر کی بناء پر نہ جاسکے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1۔ زندگی میں  اپنی دکان بیوی کو دینا ہبہ کے حکم میں  ہے،اور ہبہ میں قبضہ ضروری ہے،جس کی صورت یہ ہے کہ شوہر نے اس دکان سےاپنے تصرفات ختم کرکے ، اس کے تمام حقوق اور سارے متعلقہ امور سے دستبردار ہوکربیوی کے حوالے کردی ہو تو یہ دکان بیوی  کی ملکیت میں آگئی ہے۔صورت مسئولہ میں شوہر نے کرایہ نامہ،دیگر بلز اہلیہ کے نام کیے تھے،دکان اہلیہ کو دینے کے زبانی اظہار کے بعد ماہانہ کرایہ بھی ان کو دیتے تھے،ان باتوں سے معلوم ہوتاہے کہ یہ دکان بیوی کے قبضہ میں آگئی تھی،اس لیے یہ بیوی کی ملکیت ہے،دوسری دکان میراث کا حصہ ہے،لہذا وہ ترکہ کا حصہ بن کر تمام ورثہ میں اپنے اپنے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔

2۔ مرحوم نے بوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا ،چاندی،نقدی اور ہر قسم کا سامان چھوڑا ہےاوراسی طرح مرحوم کا  وہ قرض جو کسی کے ذمہ  واجب ہو، يہ  سب مرحوم کا ترکہ ہے،اس میں سب سے پہلے کفن دفن کے معتدل اخراجات(اگر کسی نے اپنی طرف سے بطور احسان نہ کیے ہوں تو) نکالے جائیں،پھر اگر میت پر قرضہ ہو تو وہ ادا کیا جائے،اگر انہوں نے وارث کے علاوہ کسی کے لیے وصیت کی ہوتو ایک تہائی سے وہ ادا کی جائے،اس کے بعد بقیہ مال  ورثہ میں تقسیم کیاجائے، تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے:۔

میراث کے 192حصے بنائے جائیں گے،جن میں سے24حصےاہلیہ کے ہوں گے،ہر بیٹی کو 32 حصے ،ہر بھائی کو10 حصے اور ہر بہن کو5 حصے ملیں گے۔

نمبر

وارث

عددی حصہ

فیصدی حصہ

1

بیوی

24

12.5

2

بیٹی

32

16.666

3

بیٹی

32

16.666

4

بیٹی

32

16.666

5

بیٹی

32

16.666

6

بھائی

10

5.208

7

بھائی

10

5.208

8

بہن

5

2.604

9

بہن

5

2.604

10

بہن

5

2.604

11

بہن

5

2.604

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

حوالہ جات

وفی الدر(5/ 690):

(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك  الواهب لا مشغولا به (في) متعلق بتتم (محوز) مفرغ (مقسوم ومشاع لا) يبقى منتفعا به بعد أن (يقسم) كبيت وحمام صغيرين لأنها (لا) تتم بالقبض (فيما يقسم ولو) وهبه (لشريكه) أو لأجنبي لعدم تصور القبض الكامل كما في عامة الكتب فكان هو المذهب وفي الصيرفية عن العتابي وقيل: يجوز لشريكه، وهو المختار (فإن قسمه وسلمه صح) لزوال المانع۔

وفی الھندیة (4/378):

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

وفی الشامیة (5/691):

"وفي الأشباه: هبة المشغول لا تجوز إلا إذا وهب الأب لطفله.قلت: وكذا الدار المعارة.

(قوله: المعارة) أي لو وهب طفله دارا يسكن فيها قوم بغير أجر جاز ويصير قابضا لابنه، لا لو كان بأجر كذا نقل عن الخانية."

سید نوید اللہ

دارالافتاء،جامعۃ الرشید

29/ رجب 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

سید نوید اللہ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب