86784 | ہبہ اور صدقہ کے مسائل | ہبہ کےمتفرق مسائل |
سوال
(1)۔۔۔ ایک شخص کے پاس ایک رہائشی مکان ہے، جس کی مالیت جنوری 2025ء میں ایک کروڑ روپے ہے، ایک دوسرا مکان بھی ہے جس کی مالیت50 لاکھ روپے ہے۔ اس شخص کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں جو سب بالغ اور شادی شدہ ہیں۔
(2)۔۔۔ دو سال پہلے اس شخص نے سب بیٹوں اور بیٹیوں کو جمع کیا، ایک بیٹی اس وقت موجود نہیں تھی تو اس کو کانفرنس کال پر شامل کیا۔ اس مجلس میں اس نے اپنی جائیداد کا اس طرح فیصلہ کیا کہ پچاس لاکھ والا مکان ایک بیٹے (ارشاد) کو دیا، جبکہ ایک کروڑ والا مکان دو بیٹوں میں آدھا آدھا تقسیم کیا، جن میں سے ایک کا نام علی شاہ اور دوسرے کا ایاز ہے، ایاز کو اس مکان میں آدھا حصہ دینے کے علاوہ بازار میں ایک دکان اور اس کے اوپر بنا ہوا ایک آفس/ کمرہ بھی دیا، یہ دکان اور آفس 2009ء یا 2010ء میں خریدا گیا تھا، اس کی خریداری میں کچھ رقم والد کی لگی تھی، جبکہ کچھ پیسے ایاز (جس کو یہ دکان اور آفس ملا ہے) نے اپنی بیوی کے مہر کا زیور بیچ کر دئیے تھے۔ یہ اب یاد نہیں کہ والد کے پیسے کتنے تھے اور اس کی بیوی کے زیور کے پیسے کتنے تھے؟ والد کے پاس جو رقم ہوتی تھی، اس میں ان کی اپنی کمائی بھی ہوتی تھی اور بیٹوں کی کمائی بھی ہوتی تھی جو وہ والد کو مالک بنا کر دیتے تھے۔
بیٹیوں کے لیے یہ طے کیا کہ ایک بیٹا ارشاد (جس کو پچاس لاکھ والا مکان ملا ہے) اپنی ایک بہن کو آٹھ لاکھ روپے دے گا، دوسرا بیٹا علی شاہ ( جس کو ایک کروڑ کے مکان میں آدھا حصہ ملا ہے) بھی ایک بہن کو آٹھ لاکھ روپے دے گا، جبکہ تیسرا بھائی ایاز دو بہنوں کو آٹھ، آٹھ لاکھ روپے دے گا؛ کیونکہ اس کو مکان میں حصے کے علاہ دکان اور آفس بھی دیا گیا۔
(3)۔۔۔ بڑے بیٹے ایاز کے علاوہ باقی بچوں نے والد کے فیصلے کو مان لیا، لیکن ایاز نے نہیں مانا اور کہا کہ رہائشی مکان میں بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس کے بعد بھی آپس میں مسائل آتے رہیں، یہاں تک کہ اس شخص کی بیٹیوں نے کہا ہمیں حصہ نہیں چاہیے، ہمارا حصہ بھائی لے لے، لیکن ان سے کہا گیا کہ صرف زبانی یہ کہنا کافی نہیں، سٹامپ پیپر پر لکھ کر دیدیں، تاکہ کل دوبارہ کوئی مسئلہ نہ ہو۔
(4)۔۔۔ پچاس لاکھ والا مکان جس بیٹے (ارشاد) کو دیا ہے، اس کو قبضہ بھی دیا ہے، اس مکان میں وہ اکیلا اپنے بچوں کے ساتھ رہتا ہے۔ جبکہ ایک کروڑ والا مکان ساڑھے تین یا پونے چار مرلہ پر بنا ہوا ہے، والد خود بھی اس فیصلے کے وقت سے اب تک اس میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ مکان دو منزلہ ہے، زمینی منزل پر تین کمرے ہیں، ایک کمرے میں ایک بیٹا رہتا ہے، دوسرے میں والدین، تیسرا کمرہ بیٹھک ہے جس کو دونوں بھائی مشترکہ استعمال کرتے ہیں۔ اوپر کی منزل پر ایک کمرہ ہے جس میں دوسرا بیٹا رہتا ہے، اس کے ساتھ کچن ہے، لیکن واش روم نہیں، واش روم صرف نیچے ہے، سب اسی کو استعمال کرتے ہیں۔ اس مکان کو موجودہ حالت میں دو برابر حصوں میں تقسیم کرنا مشکل ہے، جیسا کہ اوپر اس کی تعمیر کی تفصیل سے واضح ہے، البتہ اس تعمیر کو ختم کر کے دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا والد کا یہ فیصلہ شرعا درست ہے اور بچوں پر ماننا لازم ہے؟ والد ابھی زندہ اور صحت مند ہے۔ اور نمبر (3) میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق بہنوں کا حصہ چھوڑنے کا کیا حکم ہوگا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
والد اگر اپنی جائیداد زندگی میں اولاد کے درمیان تقسیم کرے تو یہ شرعًا ہبہ ہوتا ہے، میراث نہیں۔ اس میں بہتر تو یہ ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں سب کو برابر برابر حصہ دے، البتہ اگر میراث کے اصولوں کے مطابق لڑکے کو لڑکی کا دگنا حصہ دے تو یہ بھی جائز ہے، لیکن لڑکیوں کو بالکل محروم کرنا یا میراث کے حصے سے بھی کم حصہ دینا جائز نہیں، اگر والد ایسا کرے گا تو وہ گناہ گار ہوگا۔ تاہم اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو اس کی خدمت، دینداری یا غربت کی وجہ سے دوسروں سے کچھ زیادہ حصہ دے تو اس کی گنجائش ہے۔
اگر والد کسی معقول وجہ کے بغیر بعض اولاد کو حصہ دے اور باقیوں کو نہ دے یا بعض کو بلاوجہ زیادہ حصہ دے اور اس حصے کو خالی کر کے اور تقسیم کر کے باقاعدہ اس کا قبضہ بھی دے تو یہ ہبہ مکمل ہوجائے گا، اور وہ اس حصے کا مالک بن جائےگا،اگرچہ والد ایسا کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔
اس تمہید کی روشنی میں سوال میں ذکرکردہ تقسیم کا حکم حسبِ ذیل ہے:-
(1)۔۔۔ اس تقسیم میں والد نے بیٹیوں کو اپنی جائیداد میں کوئی حصہ نہیں دیا، بلکہ ان کے لیے بیٹوں کے ذمے آٹھ آٹھ لاکھ روپے مقرر کیے ہیں، پھر وہ رقم بھی جائیداد میں ان کے حصۂ میراث سے بہت کم ہے، والد کے لیے ایسا کرنا شرعا جائز نہیں تھا۔
(2)۔۔۔ بیٹے کا یہ کہنا کہ والد کے رہائشی مکان میں بیٹیوں کا حصہ نہیں ہوتا، غلط اور قرآن و حدیث کے صریح احکام کے خلاف ہے، اس کو چاہیے کہ اس بات پر توبہ و استغفار کرے، آئندہ ایسی بات کرنے سے مکمل اجتناب کرے اور بہنوں کو ان کا حصہ بغیر کسی کمی بیشی کے پورا پورا دینے کا پکا عزم کرے۔ نیز اس کا بہنوں سے حصہ معاف کرانا اور حصہ لینے کی وجہ سے ان سے قطع تعلق کرنا شرعا جائز نہیں، سخت حرام ہے۔ اگر بہنیں اس طرح زبانی طور پر یا سٹامپ پیپر پر لکھ کر اپنا حصہ معاف کردیں، تب بھی ان کا حصہ معاف نہیں ہوگا، اور بھائی ان کا حصہ دبانے کی وجہ سے سخت گناہ گار اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہوگا۔
(3)۔۔۔ والد نے جس بیٹے کو پچاس لاکھ روپے والا گھر دیا، اس کا ہبہ مکمل ہوا ہے اور وہ بیٹا اس گھر کا مالک بن گیا ہے؛ کیونکہ اس کو قبضہ دیا گیا ہے، چونکہ یہ ہبہ اس شرط کے ساتھ کیا گیا ہے کہ وہ آٹھ لاکھ روپے دے گا، اس لیے اس کے ذمے آٹھ لاکھ روپے لازم ہے۔
لیکن جن دو بیٹوں کو ایک کروڑ والا مکان دیا ہے، اس کا ہبہ مکمل نہیں ہوا اور وہ دونوں اس گھر کے مالک نہیں بنے؛ اس لیے کہ والد خود ہبہ کے وقت بھی اس مکان میں رہائش پذیر تھے اور اب بھی ہیں، جبکہ ہبہ درست ہونے کے لیے موہوبہ چیز (جو چیز بطورِ ہبہ دی جا رہی ہو) فارغ کر کے موہوب ( جس کو ہبہ کیا جا رہا ہو ) کو دینا ضروری ہے۔ لہٰذا یہ مکان بدستور والد ہی کی ملکیت میں ہے۔
(4)۔۔۔ دکان اور آفس کی خریداری میں والد کی جتنی رقم لگی تھی، اس قدر حصے کا مالک والد تھا، جبکہ اس بیٹے نے اپنی بیوی کا زیور بیچ کر جتنی رقم دی تھی، اس کے بقدر حصہ اس کا یا اس کی بیوی کی ملکیت تھا، یعنی اگر بیوی نے اپنا زیور شوہر کو مالک بنا کر دیا تھا یا بطورِ قرض دیا تھا تو پھر دکان اور آفس میں اس کے بقدر ملکیت شوہر کی ہے، اور اگر بیوی نے اپنے لیے دکان اور آفس میں حصہ لینے کے واسطے شوہر کو وکیل بنا کر زیور دیا تھا تو پھر اس کے بقدر حصہ اس کی بیوی کا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں والد نے اس دکان میں اپنا حصہ اس بیٹے (ایاز) کو اس شرط کے ساتھ ہبہ کیا تھا کہ وہ اپنی بہنوں کو رقم دے گا، جس کے جواب میں بیٹے نے اسی مجلس میں رقم دینے سے انکار کر کے اس عقد کو رد کیا، جس کی وجہ سے یہ عقد منعقد نہیں ہوا، لہٰذا وہ والد کے حصے کا مالک نہیں بنا، بلکہ والد اس دکان اور آفس میں اپنے حصے کا بدستور مالک ہے۔
(5)۔۔۔ اوپر ذکر کردہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ تقسیم درست طریقے پر نہیں ہوئی ہے، تاہم والد نے جس بیٹے کو پچاس لاکھ والا مکان قبضہ کے ساتھ دیا ہے وہ اس مکان کا مالک بن گیا ہے۔ لیکن جن دو بیٹوں کو وہ مکان دیا ہے جس میں والد خود بھی رہائش پذیر ہیں، وہ دونوں اس کے مالک نہیں بنے اور ان دونوں میں سے جس بیٹے کو دکان اور آفس میں اپنا حصہ دیا، وہ اس کا بھی مالک نہیں بنا، اسی طرح اس شخص نے اپنی بیٹیوں کو بھی کچھ نہیں دیا۔ اس غیر منصفانہ تقسیم کا ذمہ دار مذکورہ شخص (والد) ہے، لہٰذا اس پر لازم ہے کہ اب جلد از جلد اپنی زندگی میں ہی اس کی تلافی کرے۔
(6)۔۔۔ تلافی کا طریقہ یہ ہے کہ اب یہ شخص ان دو بیٹوں کو بھی اتنا حصہ دے جتنا اس بیٹے کو ملا ہے جسے الگ گھر دیا گیا ہے، اس کو پچاس لاکھ کا گھر آٹھ لاکھ روپے دینے کی شرط پر دیا ہے، لہٰذا اگر وہ آٹھ لاکھ روپے والد کو دیتا ہے تو گویا والد کی طرف سے اس کو بیالیس (42) لاکھ روپے دئیے گئے، لہٰذا یہ باقی دونوں بیٹوں کو بھی بیالیس، بیالیس (42، 42) لاکھ روپے یا اتنی مالیت کی جائیداد دیدے، اور چاروں بیٹیوں کو بھی اتنا ہی یا اس کا آدھا آدھا یعنی اکیس اکیس (21، 21) لاکھ روپے دیدے۔
اس تلافی میں یہ شخص اپنا ایک کروڑ والا مکان ، دکان اور آفس میں اپنا حصہ، اپنی دیگر جائیداد اور پیسے وغیرہ استعمال کرسکتا ہے۔ البتہ اگر کوئی چیز بچوں کو مشترکہ طور پر دینا چاہے تو اس میں دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوگا، ایک یہ کہ وہ خود اس شخص کے استعمال میں نہ ہو، دوسرا یہ کہ اگر وہ چیز قابلِ تقسیم ہو تو اس کو تقسیم کر کے ہر ایک کو اس کا حصہ قبضہ کے ساتھ دے۔ قابلِ تقسیم ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس چیز کو اس کی موجودہ حالت میں ان افراد پر اس طرح تقسیم کرنا ممکن ہو کہ ان میں سے ہر ایک تقسیم کے بعد اپنے حصے سے وہی فائدہ اٹھاسکے جو تقسیم سے پہلے اس چیز سے اٹھایا جا رہا ہو۔
لہٰذا اگر یہ شخص اپنے ایک کروڑ والے مکان میں ان دو بیٹوں اور چار بیٹیوں کو حصے دینا چاہے تو پہلی بات (موہوبہ چیز اپنے استعمال سے فارغ کرنے) کا لحاظ کرتے ہوئے پہلے خود اپنے ساز و سامان کے ساتھ وہاں سے منتقل ہوجائے، اس کے بعد وہ مکان ان بچوں کے حوالے کردے جن کو دینا مقصود ہو، یا پھر اگر اپنے لیے فوری دوسرا انتظام کرنا مشکل ہو تو ان بچوں سے کہہ دے کہ اس مکان میں موجود میرا ساز و سامان میں آپ کے پاس بطورِ امانت رکھوا رہا ہوں، پھر ان کو مکان ہبہ کرے، اس کے بعد ان کی اجازت سے اس مکان میں بطورِ عاریت رہ سکتا ہے۔ جہاں تک دوسری بات (قابلِ تقسیم موہوبہ چیز کو تقسیم کرنے) کا تعلق ہے تو چونکہ یہ مکان موجودہ حالت میں تقسیم کے قابل نہیں، اس لیے تقسیم کے بغیر بھی بچوں کو مشترکہ طور پر ہبہ کرنا اور اس کا قبضہ دینا کافی ہوگا۔
حوالہ جات
القرآن الکریم:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ }[النساء: 11].
مشكاة المصابيح (2 / 183):
عن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني نحلت ابني هذا غلاما فقال : " أكل ولدك نحلت مثله ؟ " قال لا قال : "فأرجعه". وفي رواية : أنه قال : "أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء ؟ " قال : بلى قال : " فلا إذن " . وفي رواية : أنه قال : أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة : لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال : إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله قال : " أعطيت سائر ولدك مثل هذا ؟ " قال : لا قال : " فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم " . قال : فرجع فرد عطيته . وفي رواية : أنه قال : " لا أشهد على جور ".
رد المحتار (4/ 444):
وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: "اتقوا الله واعدلوا في أولادكم"، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية، فيسوي بين الذكر والأنثى؛ لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية: ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض، روى عن أبي حنيفة: لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين، وإن كانوا سواء يكره. وروى المعلى عن أبي يوسف: أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار، وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى. وقال محمد: يعطى للذكر ضعف الأنثى.
وفي التتارخانية معزياً إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف: وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا، والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف، وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم، وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل.
الدر المختار (5/ 691):
وفي الأشباه: هبة المشغول لا تجوز، إلا إذا وهب الأب لطفله.
رد المحتار (5/ 691):
قوله (إلا إذا وهب) كأن وهبه دارا والأب ساكنها أو له فيها متاع؛ لأنها مشغولة بمتاع القابض. وهو مخالف لما في الخانية فقد جزم أولا بأنه لا تجوز، ثم قال: وعن أبي حنيفة في المجرد تجوز ويصير قابضا لابنه. تأمل.
الدر المختار (5/ 705):
( وإذا وقعت الهبة بشرط العوض المعين فهي هبة ابتداء، فيشترط التقابض في العوضين، ويبطل ) العوض ( بالشيوع ) فيما يقسم ( بيع انتهاء فترد بالعيب وخيار الرؤية وتؤخذ بالشفعة )، هذا إذا قال: وهبتك على أن تعوضني كذا، أما لو قال: وهبتك بكذا فهو بيع ابتداء وانتهاء. وقيد العوض بكونه معينا؛ لأنه لو كان مجهولا بطل اشتراطه، فيكون هبة ابتداء وانتهاء.
رد المحتار (5/ 705):
قوله ( التقابض ) أي في المجلس وبعده بالإذن، سائحاني. قوله ( في العوضين ) فإن لم يوجد التقابض فلكل واحد منهما أن يرجع، وكذا لو قبض أحدهما فقط فلكل الرجوع، القابض وغيره سواء، غاية البيان. قوله ( بيع انتهاء ) أي إذا اتصل القبض بالعوضين، غاية البيان.
درر الحكام شرح مجلة الأحكام (2/ 395):
أما هبة المشغول فلا تجوز أي لا تجوز هبة المال المشغول بمتاع الواهب وملكه ( البهجة )؛ لأن الموهوب إذا كان مشغولا بمتاع الواهب كان كالمشاع وفي حكمه. مثلا لو وهب أحد داره المشغولة بأمتعته وسلمه إياها فلا تجوز، إلا إذا سلمها بعد تخليتها من الأمتعة المذكورة، فحینئذ تصح الهبة، کما تصح لو وهبه الأمتعة أیضا وسلمه الکل معا.
فقه البیوع (1/399):
174- القبض فی الدار التی یسکنها البائع:
ثم اشترط الفقهاء لصحة تسلیم الدار أن تکون خالیة من أمتعة البائع. فإن کانت مشغولةً بها لایتحقق القبض حتی یفرغها. ولکن جاء فی الفتاوی الهندیة عن فتاوی أبی اللیث: "فإن أذن البائع للمشتری بقبض الدار والمتاع، صح التسلیم؛ لأن المتاع صار ودیعةً عند المشتری". وکذلك ذکروا حیلةً فی نفاذ هبة ما هو مشغول بمتاع الواهب فقالوا: وحیلة هبة المشغول أن یودع الشاغل أولاً عند الموهوب له، ثم یسلمه الدار مثلاً، فتصح لشغلها بمتاع فی یده.
ویمکن أن یخرج علی ذلك ما یقع کثیراً من أن الأب یهب داراً لابنه، وهو ساکن معه فیها بمتاعه. فلو أذن الأب ابنه بقبض متاعه ودیعةً، وسجل الدار باسم ابنه بعد الهبة، وصرح بأن کونه یسکن الدار بعد ذلك موقوف علی إذن الإبن علی سبیل العاریة، وقبل ذلك الإبن، ینبغی أن یعتبر قبضاً کافیاً لتمام الهبة، والله سبحانه أعلم.
عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
2/شعبان المعظم 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | عبداللہ ولی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |