03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
اشیاء پر اصل قیمت اور ڈسکاؤنٹ لکھنے کا حکم
86772جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

پراڈکٹس کو بیچنے کے لیے عام طور پر ڈسکاؤنٹ دیا جاتا ہے، جس میں قیمت زیادہ لکھ کر پھر اس میں سے 30، 40 یا 50 فیصد کا ڈسکاؤنٹ لکھ دیا جاتا ہے۔ یہ گاہک کو خریداری پر آمادہ کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اس میں بعض اوقات نقصان بھی ہو سکتا ہے، مثلاً ایک چیز پر ہماری لاگت سو روپے آئی، ہم نے اس پر اصل قیمت ایک سو دس روپے لکھ کر بیس روپے ڈسکاؤنٹ لکھ دیا، گویا ہم دس روپے نقصان کے ساتھ یہ چیز بیچیں گے، اور بعض اوقات نقصان نہیں ہوتا، ویسے ہی لکھا جاتا ہے، مثلا کسی چیز کی لاگت سو روپے ہے، اس پر ایک سو دس روپے اصل قیمت لکھ کر پانچ روپے ڈسکاؤنٹ لکھ دیا۔

کیا اس طرح ڈسکاؤنٹ لکھنا جائز ہے؟ بعض دفعہ لوگ کہتے ہیں کہ تاجر زیادہ قیمت لگا کر ویسے ہی اوپر ڈسکاؤنٹ لکھ دیتے ہیں، اس میں کوئی ناجائز بات تو نہیں ہے؟   

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور ڈسکاؤنٹ کرنا جائز ہے، چاہے ڈسکاؤنٹ کے بعد چیز بنانے اور بیچنے والا نفع وصول کرتا ہو یا نہ کرتا ہو، البتہ شرط یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کی دھوکہ دہی اور غلط بیانی نہ ہو۔

یہ ڈسکاؤنٹ چیز بیچنے کے بعد بھی دیا جاسکتا ہے اور چیز بیچنے سے پہلے بھی، جیسا کہ آج کل رائج ہے کہ چیز بنانے یا بیچنے والا اپنی لاگت اور مطلوب نفع ملا کر اصل قیمت لکھتا ہے، پھر اس کے بعد ڈسکاؤنٹ لگا کر وہ قیمت لکھتا ہے جس پر گاہک کو بیچنا مقصود ہوتا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ چیز اصل میں تو زیادہ مالیت کی ہے، لیکن میں کم قیمت پر بیچتا ہوں، لہٰذا اگر اس میں دھوکہ دہی اور غلط بیانی نہ ہو تو اس کی اجازت ہے۔  

حوالہ جات

المجلة (ص: 52):

مادة 256: حط البائع مقدارا من الثمن المسمى بعد العقد صحيح ومعتبر، مثلا لو بيع مال بمائة قرش، ثم قال البائع بعد العقد: حططت من الثمن عشرين قرشا، كان للبائع أن يأخذ مقابل ذلك المال ثمانين قرشا فقط.

صحيح ابن حبان (12/ 369):

عن عبد الله قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من غشنا فليس منا، والمكر والخداع في النار.

فيض القدير (6/ 241):

(من غشنا فليس منا) أي ليس على منهاجنا؛ لأن وصف المصطفى صلى الله عليه وآله وسلم وطريقته الزهد في الدنيا والرغبة فيها وعدم الشره والطمع الباعثين علي الغش. (والمكر والخداع في النار) أي صاحبهما يستحق دخولها؛ لأن الداعي إلى ذلك الحرص في الدنیا والشح عليها والرغبة فيها، وذلك يجر إليها.  

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     2/شعبان المعظم 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب