03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مصنوعات کی تشہیر (Marketing) میں خواتین اور تصاویر استعمال کرنا
86770جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

(1)۔۔۔ بیوٹی پراڈکٹس یا کاسمیٹکس کی اشیاء میں خواتین کو استعمال کر کے ان کی تشہیر کرنا جائز ہے یا نہیں؟ چونکہ یہ بیوٹی پراڈکٹس خواتین کے متعلق ہیں، اس لیے ان کی تشہیر میں خواتین کو استعمال کر کے ان پراڈکس کی کوالٹی اور خصوصیات بتائی جاتی ہیں۔ ہم یہ کام سوشل میڈیا پر کرنا چاہتے ہیں۔

(2)۔۔۔ کسی بھی پراڈکٹ کے ڈبے یا پیکنگ کے لیے اُس کے اوپر لڑکی کی تصویر لگانا جائز ہے یا نہیں؟ تصویر ہم خود نہیں بنائیں گے، بلکہ نیٹ سے اُٹھا کر لگائیں گے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

(1)۔۔۔ شریعت کی نظر میں عورت نمائش کی چیز نہیں، یہ اس کے وقار اور عزتِ نفس کے خلاف ہے۔ شریعت نے ایک طرف مردوں کو نگاہیں نیچی کرنے کا حکم دیا ہے تو دوسری طرف خود عورتوں کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو مردوں کی نظروں سے چھپانے کا اہتمام کریں، حتی الامکان گھر کی چار دیواری میں رہیں، اگر کسی حاجت کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑے تو اپنا جسم مکمل ڈھانپ کر جائیں، ایسے اسباب اختیار نہ کریں جو لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنے کا سبب بنتے ہوں، مثلا خوشبو لگانا یا آواز اور جھنکار والے زیورات پہننا، راستوں کے بیچ میں نہ جائیں، بلکہ کنارے پر جائیں۔ 

اس تفصیل کی روشنی میں مصنوعات (Products) کی تشہیر، کسی مصنوع کا خواتین سے تعلق دکھانے اور اس کے توسط سے گاہک کو راغب کرنے کے لیے عورت سے آن لائن مارکیٹنگ کرانا اور عورت کو اس کے لیے استعمال کرنا شریعت کے اس بنیادی فلسفے اور مزاج سے متصادم اور ناجائز ہے، جس سے بچنا لازم اور ضروری ہے۔ 

(2)۔۔۔ جاندار کی تصویر پرنٹ کرانا جائز نہیں، چاہے یہ تصاویر آپ خود بنائیں یا نیٹ سے اٹھا کر لگائیں، نیز چاہے یہ تصاویر مردوں کی ہوں یا عورتوں کی۔

البتہ اگر مرد کی ایسی تصویر ایسی بنائی جائے جس میں سر اور چہرہ واضح نہ ہو، بلکہ ان کی جگہ گول دائرہ بنایا جائے تو شرعاً تصویر کی تعریف میں داخل نہ ہونے کی وجہ سے اس کو پرنٹ کرانے کی گنجائش ہوگی، صرف آنکھیں، یا پلکیں یا ہونٹ مٹانے سے تصویر کا حکم ختم نہیں ہوگا۔ اسی طرح اگر خاتون کی ایسی شبیہ بنائی جائے جس میں سر اور چہرہ واضح نہ ہو اور اس کا باقی جسم بھی مکمل ڈھکا ہوا ہو، کوئی عضو نہ تو کھلا ہو، نہ ہی اس کی ساخت نمایاں ہو تو اس کو پرنٹ کرانا ناجائز نہیں ہوگا، اگرچہ اس سے بھی بچنا بہتر ہے، لیکن عورت کے جسم کے کسی بھی حصے (چہرہ، ہونٹ، رخسار اور ہاتھ وغیرہ) کو تشہیر اور مارکیٹنگ کے لیے بنانا اور استعمال کرنا جائز نہیں؛ تصویر سے قطع نظر یہ شریعت کی دیگر تعلیمات، ستر، حیاء اور عورت کی عزت و کرامت کے خلاف ہے۔

اگر مصنوعات کا معیار اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ان کی تشہیر کا طریقۂ کار (Marketing Strategy) اچھا ہو تو عورت اور تصویر کے بغیر بھی لوگ مصنوعات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور وہ مارکیٹ میں اپنی جگہ بنالیتی ہیں، اس کی کئی نمایاں مثالیں موجود ہیں۔

حوالہ جات

القرآن الکریم، [النور]:

{قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (30) وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(31) }

سنن النسائي (8/ 532):

أخبرنا إسمعيل بن مسعود قال حدثنا خالد قال حدثنا ثابت وهو ابن عمارة عن غنيم بن قيس عن الأشعري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة استعطرت فمرت على قوم ليجدوا من ريحها فهي زانية.

سنن أبى داود (4/ 543):

حدثنا عبد الله بن مسلمة حدثنا عبد العزيز - يعنى ابن محمد عن أبى اليمان عن شداد بن أبى عمرو بن حماس عن أبيه عن حمزة بن أبى أسيد الأنصارى عن أبيه أنه سمع رسول الله صلى الله

عليه وسلم يقول وهو خارج من المسجد فاختلط الرجال مع النساء فى الطريق، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم- للنساء: « استأخرن؛ فإنه ليس لكُن أن تحققن الطريق، عليكن بحافات الطريق». فكانت المرأة تلتصق بالجدار حتى إن ثوبها ليتعلق بالجدار من لصوقها به.

تكملة فتح الملهم(4/225):

 إن للحجاب الشرعي المأمور به في الكتاب والسنة ثلاث درجات، بعضها فوق بعض فی الاحتجاب والاستتار، وکلها مذکورة فی الکتاب والسنة، ولم يتسخ منها شيئ، و لكنها مأمورة بها في أحوال مختلفة، وهي :-

1-حجاب أشخاص النساءبالبيوت والجدر، والخدور والهوادج وأمثالها،بحيث لايري الرجال الأجانب شيئاًمن أشخاصهن ولا لباسهن وزينتهن الظاهرة أوالباطنة ،ولا شيئاً من جسدهن من الوجه والكفين وسائر البدن .

2-الحجاب بالبرقع والجلباب،بحيث لا يبدو شيئ من الوجه والكفين ،وسائر الجسد ولباس الزينة ،فلايري إلا أشخاصهن مستورة من فوق الرأس إلي القدم.

3-الحجاب بالجلابيب وأمثالهامع كشف الوجه والكفين والقدمين.

وفی صفحة:229 :

والدرجة الثالثة من الحجاب، هي أن تخرج النساء مستورة الأبدان من الرأس إلي القدم مع كشف الوجه والكفين عند الحاجة بشرط الأمن من الفتنة.

أحکام القرآن-للتهانوی-( ٣/٤٧١):

وبالجملة فاتفقت مذاهب الفقهاء وجمهور الأمة علی أنه لايجوز للنساء الشواب کشف الوجوه والأکف بين الأجانب،  ويستثنی منه العجائز لقوله تعالیٰ:"القواعد من النساء"، الآية، والضرورات مستثناة فی الجميع بالإجماع. فلم يبق للحجاب المشروع إلا الدرجتان الأوليتان: الأولیٰ القرار فی البيوت وحجاب الأشخاص، وهو الأصل المطلوب. والثانية خروجهن لحوائجهن مستترات بالبراقع والجلابيب، وهو الرخصة للحاجة. ولاشک أن کلتا الدرجتين منه مشروعتان، غير أن الغرض من الحجاب لما کان سد ذرائع الفتنة وفی خروجهن من البيوت ولو للحوائج والضرورات کان مظنة فتنة شرط عليهن الله ورسوله  صلی الله عليه وسلم شروطاً يجب عليهن التزامها عند الخروج:

1.أن یترکن الطیب ولباس الزینة عند الخروج، بل یخرجن وهن تفلات، کما مر فی کثیر من روایات الحدیث مما ذکرنا.

2.أن لايتحلين حلية فيها جرس يصوت بنفسه، کما فی حديث رقم .42

3.أن لايضربن بأرجلهن ليصوت الخلخال وأمثاله من حليهن، کما هو منصوص القرآن.

4.أن لا يتبخترن فی المشية کيلا تکون سبباً للفتنة، کما مر فی حديث رقم  .

5.أن لا تمشین فی وسط الطریق بل حواشیها، کما فی حدیث رقم 15.

6.أن يدنين عليهن من جلابیبهن بحیث لایظهر شئ منهن إلا عیناً واحدةً لرؤیة

الطریق، کما مر من تفسیر ابن عباس لهذه الآیة.

7.أن لایخرجن إلا بإذن أزواجهن، کما فی حدیث رقم 38 .

8.أن لایتکلمن أحداً إلا بإذن أزواجهن، کما فی حدیث رقم.

9.وإذا تکلمن أحداً من الأجانب عند الضرورة فلایخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبه مرض، کما هو منصوص الکتاب.

10.وأن يغضضن أبصارهن عن الأجانب عند الخروج.

11.أن لایلجن فی مزاحم الرجال، کمایستفاد من حدیث ابن عمر رضی الله عنه، لو ترکنا هذا الباب للنساء(رقم25).

فهذه أحد عشر شرطاً وأمثالها یجب علی المرأة التزامها عند خروجها من البیت للحوائج والضروریات، فحیث فقدت الشروط منعن من الخروج أصلاً.

شرح معاني الآثار - الطحاوي (4/ 287):

عن أبي هريرة رضي الله تعالیٰ عنه قال : الصورة الرأس، فكل شيء ليس له رأس، فليس بصورة.

     عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     2/شعبان المعظم 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب