03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
سونے کو تولے بغیر ادا کردہ زکوۃ کا حکم
86829زکوة کابیانسونا،چاندی اور زیورات میں زکوة کے احکام

سوال

میری شادی کو چونتیس (34) سال ہوگئے ہیں، مجھے جو سونا دیاگیا تھا، اس کی زکوۃ میرے شوہر ادا کرتے رہے ہیں، لیکن سونے کو تولا نہیں تھا۔ اب مجھے پتا چلا کہ سونے کو تول کر اس کی زکوۃ دینی چاہیے۔ ہمارے ہاں بیوی کی زکوۃ عموما شوہر ہی ادا کرتا ہے۔ ابتداء ہی سے سونے کا وزن معلوم نہیں تھا کہ کتنا ہے؟ شوہر کو بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے کس سال کتنی زکوۃ دی ہے۔ اب میں کیا کروں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس سوال کے جواب سے پہلے بطورِ تمہید چند باتیں سمجھنا ضروری ہے:-

(1)۔۔۔ اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو، اس کے علاوہ کوئی قابلِ زکوۃ مال (چاندی، نقد رقم، کسی کے ذمہ قرض اور مالِ تجارت، یعنی وہ مال جس کو خریدتے وقت ہی آگے بیچنے کا پکا ارادہ ہو)  نہ ہو اور سونا ساڑھے سات تولہ یا اس سے زائد ہو تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی، لیکن اگر ساڑھے سات تولہ سے کم ہو تو پھر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔ اور اگر اس کے پاس سونے کے علاوہ مذکورہ بالا دیگر اموالِ زکوۃ میں سے بعض یا تمام اقسام کے اموال بھی موجود ہوں، اور ان سب کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر زکوۃ واجب ہوگی، اگرچہ سونا ساڑھے سات تولہ سے کم ہو۔ لیکن اگر سارے قابلِ زکوۃ اموال کی مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے کم ہو تو پھر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔   

(2)۔۔۔ زکوۃ کی مقدار کل قابلِ زکوۃ مال کا چالیسواں حصہ ہے، مثلا اگر کسی کے پاس پانچ لاکھ روپے ہوں تو اس کی زکوۃ  ساڑھے بارہ ہزار روپے ہوگی۔

(3)۔۔۔ بیوی کی زکوۃ خود اسی پر واجب ہوتی ہے، شوہر پر نہیں، البتہ اگر شوہر اس کی اجازت سے اس کی طرف سے زکوۃ ادا کرے تو اس کی زکوۃ ادا ہوجائے گی۔ بیوی کی اجازت اس لیے ضروری ہے کہ زکوۃ ادا ہونے کے لیے اس شخص کا زکوۃ کی ادائیگی کی نیت کرنا لازم ہے جس پر زکوۃ واجب ہو۔ البتہ بیوی کی طرف سے شوہر کو اپنی زکوۃ ادا کرنے کی ایک مرتبہ صراحتاً یا دلالتاً عمومی اجازت کا پایا جانا کافی ہے۔

اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق آپ صاحبِ نصاب تھیں اور آپ کی طرف سے شوہر کو زکوۃ ادا کرنے کی عمومی اجازت تھی تو:-

  • اگر آپ کے شوہر کو بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ میری بیوی کے پاس موجود اموالِ زکوۃ کتنے ہیں اور ان کی زکوۃ کتنی بنتی ہے، بس وہ اندازے سے زکوۃ ادا کرتے تھے تو ایسی صورت میں آپ غالب گمان پر عمل کریں گی، اگر آپ کے غالب گمان کے مطابق آپ کے شوہر نے ہر سال آپ کے پاس موجود نصاب کے چالیسویں حصے کے بقدر زکوۃ ادا کی ہے تو آپ کا ذمہ فارغ ہے، آپ کسی شک و شبہ میں نہ پڑیں، البتہ آئندہ کے لیے نصاب کا حساب لگا کر زکوۃ ادا کرنے کا اہتمام کریں۔
  • لیکن اگر آپ کے غالب گمان کے مطابق آپ کے شوہر نے آپ کے پاس موجود نصاب کے چالیسویں حصے سے کم زکوۃ ادا کی ہے تو پھر آپ کے گمان کے مطابق جس جس سال جتنی کم زکوۃ ادا کی  گئی ہے، اس کے بقدر زکوۃ اب ادا کرلیں۔  
حوالہ جات

الدر المختار (2/ 268):

(وشرط صحة أدائها نية مقارنة له) أي للأداء (ولو) كانت المقارنة (حكما) كما لو دفع بلا نية، ثم نوى والمال قائم في يد الفقير، أو نوى عند الدفع للوكيل ثم دفع الوكيل بلا نية، أو دفعها لذمي ليدفعها للفقراء جاز؛ لأن المعتبر نية الآمر، ولذا لو قال: هذا تطوع أو عن كفارتي، ثم نواه عن الزكاة قبل دفع الوكيل صح.

رد المحتار (2/ 268):

 قوله ( مقارنة ) هو الأصل كما في سائر العبادات، وإنما اكتفي بالنية عند العزل، كما سيأتي؛ لأن الدفع يتفرق، فيتحرج باستحضار النية عند كل دفع، فاكتفي بذلك للحرج، بحر. والمراد مقارنتها للدفع إلى الفقير، وأما المقارنة للدفع إلى الوكيل فهي من الحكمية، كما يأتي، ط.

بدائع الصنائع (2/ 53):

الزكاة عبادة عندنا، والعبادة لا تتأدى إلا باختيار من عليه، إما بمباشرته بنفسه أو بأمره أو إنابته غيره، فيقوم النائب مقامه، فيصير مؤديا بيد النائب.

البحر الرائق (2/ 226):

ولو أدى زكاة غيره بغير أمره فبلغه فأجاز لم يجز؛ لأنها وجدت نفاذا على المتصدق؛ لأنها ملكه ولم يصر نائبا عن غيره فنفذت عليه، ولو تصدق عنه بأمره جاز.

الأشباه والنظائر (ص: 93):

وغالب الظن عندهم ملحق باليقين، وهو الذي تبتنى عليه الأحكام، يعرف ذلك من تصفح كلامهم في الأبواب، صرحوا في نواقض الوضوء بأن الغالب كالمتحقق، وصرحوا في الطلاق بأنه إذا ظن الوقوع لم يقع وإذا غلب على ظنه وقع.

تكملة حاشية رد المحتار (12/ 264):

والحاصل أن الشك عندنا هو التردد بين الطرفين مطلقا، كان أحدهما راجحا أو مرجوحا، فيكون شاملا للظن، فالراجح هو الظن، والمرجوح هو الوهم عند أهل المعقول، وغالب الظن هو الطرف الراجح الذي يكون قريبا من الجزم وفوق الظن، وهو عندهم ملحق باليقين.

عبداللہ ولی غفر اللہ لہٗ

  دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

     2/شعبان المعظم/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبداللہ ولی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب