86755 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
میرے والد صاحب کا ایک مکان ہے اور والد صاحب کا انتقال ہوئے 23 سال بیت گئے ہیں اور والدہ حیات ہیں،ہم چھ بہن بھائی ہیں، جن میں 4 بیٹیاں اور 2 بیٹے ہیں اور سب شادی شدہ ہیں،اب میرے دونوں بھائی جو والد کے گھر میں اکٹھے رہتے ہیں، وہ دونوں اب مکان بیچنا چاہتے ہیں، کسی دوسری جگہ مکان لینا چاہتے ہیں، اب جب انہوں نے ہم چاروں بہنوں کے سامنے اس کا ذکر کیا کہ ہم مکاں بیچنا چاہتے ہیں اور ہمیں بتایا اس مکان کی قیمت 9000000 لگ رہی ہے، پہلے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں مکان ایک کروڑ سے اوپر کا ملے گا تو ہم اپنا گھر خرید لیتے ہیں، تم بہنوں کو ہم جب ہمت ہوئی تو دے دیں گے ،ہمارے حالات تم لوگوں کے سامنے ہیں، یہ سن کر ہم چاروں بہنوں میں سے صرف میں نے کہا کہ بھائی میرے پاس گھر نہیں ہے،تم مجھے میرا حصہ دے دینا بےشک ایک سال بعد دے دینا،باقی تینوں بہنیں کچھ نہیں بولی ،جبکہ انہیں بھی ضرورت ہے، میرے بولنے پر دونوں بھائیوں نے غصہ کا اظہار کیا اور کہا ہم نے اس مکان میں جو لگایا ہے وہ بھی سب کے حصوں سے کٹے گا اور ہماری والدہ جب اسٹیل مل سے ریٹائرڈہوئی تھی انھوں چاروں بیٹیوں کو تحفہ میں دو دو لاکھ دئیے تھے اور اب یہ بھائی کہہ رہےہیں تم لوگوں کو جو امی نے پیسے دئیے تھے وہ بھی سب کے حصوں سے منفی کریں گے، ہم دونوں بھائیوں کو امی نے کچھ نہیں دیا جبکہ ہماری والدہ نے بہت کچھ ان بھائیوں کو اپنی طرف سے دیاہےاور میں نے اپنا حصہ مانگا تو مجھ سے سب خفا ہیں،تینوں بہنوں کے پاس ان کے گھر ہیں، لیکن وہ ان بھائیوں کی باتوں پر ان کا غلط ساتھ دے رہی ہیں، میں اپنے بھائی بہنوں کی وجہ سے بہت رنجیدہ ہوں اور ایسا لگ رہا ہے جیسے میں نے بہت بڑا گنا ہ کر دیا ہے۔
برائے مہربانی بتائیےکیامیرامطالبہ غلط ہے؟کیامیراحصہ مرحوم والدکے ترکہ میں نہیں بنتا؟بھائیوں کااس طرح کرناجائزہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مرحوم والدکی میراث میں تمام بیٹیوں کا بھی حصہ ہے،بھائی کابہنوں کوحصہ نہ دیناان کے حق کوغصب کرنا ہے اوریہ بہت سخت گناہ ہے،اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء،آیت نمبر13،14 میں میراث کے احکام بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ’’تلک حدود اﷲ ‘‘یعنی یہ میراث کے احکام اللہ تعالی کی بیان کردہ حدود ہیں ،جو اللہ اور اس کے رسول کی اس(میراث ) کے حوالے سے اطاعت کرے گا، اللہ تعالیٰ اُسے ایسی جنت میں داخل فرمائیں گے جس کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں اوروہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اوریہ بہت بڑی کامیابی ہے اورجو اس میراث کے حوالے سے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کے بیان کردہ حدود سے تجاوز کرتاہے، اللہ اس کو آگ میں داخل کردیں گے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گااور اس کے لئے ذلت آمیز عذاب ہو گا، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: جو شخص اللہ تعالی اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مقرر کردہ حصہ میراث سے کسی وارث کو محروم کر ے، اللہ تعالیٰ اس کو جنت سے محروم کردیتے ہیں۔
بھائی اللہ کے عذاب کوسوچیں،اس حقیرسی دنیاکے لئے بہنوں کے حق کوغصب کرکے ظالم نہ بنیں،جس کاجتناحصہ بنتاہے فوری طورپراس کووہ حصہ دیں،واضح رہے ترکہ تقسیم سے پہلے کسی بہن کااپناحصہ معاف کرناشرعامعتبرنہیں ہوتا،اس لئے صورت مسؤلہ میں اگرکوئی بہن اپنے حصہ سے دستبردارہوتی ہے توترکہ سے اس کاحق ختم نہیں ہوگا،ترکہ تقسیم ہونے کے بعد کوئی بہن خوشی سے اپناحصہ بھائی کوہبہ کرناچاہے توکرسکتی ہے،ترکہ تقسیم سے پہلے نہیں کرسکتی۔
بھائیوں کایہ کہناکہ والدہ نے جورقم دی تھی تووہ مرحوم کے ترکہ میں شمارکرکےبہنوں کے حصہ سے منفی ہوگی،درست نہیں،بہنوں کاجتناحصہ بنتاہے پوراحصہ دینالازم ہے،البتہ بھائیوں نے اس مکان پرجو اخراجات کئے ہیں تووہ سب ورثہ میں ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم ہوں گے،یعنی جس کاحصہ زیادہ ہے تو خرچہ بھی اس کے حصہ میں زیادہ آئے گااورجس کاحصہ کم ہے توخرچہ کاتناسب بھی اس پرکم ہوگا۔
حوالہ جات
فی شعب الإيمان لأبو بكر البيهقي (ج 6 / ص 224):
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : من قطع ميراثا فرضه الله و رسوله قطع الله به ميراثا من الجنة۔
فی رد المحتار (ج 2 / ص 208):
ولو قال: تركت حقي من الميراث أو برئت منها ومن حصتي لا يصح وهو على حقه، لان الارث جبري لا يصح تركه۔
فی رد المحتار (ج 4 / ص 527):
سئل في عقار لا يقبل القسمة كالطاحون والحمام، إذا احتاج إلى مرمة وأنفق أحد الشريكين من ماله، أجاب: لا يكون متبرعا ويرجع بقيمة البناء بقدر حصته كما حققه في جامع الفصولين، وجعل الفتوى عليه في الولوالجية، قال في جامع الفصولين معزيا إلى فتاوى الفضلي: طاحونة لهما أنفق أحدهما في مرمتها بلا إذن الآخر لم يكن متبرعا، إذ لا يتوصل إلى الانتفاع بنصيبه إلا به۔
محمد اویس
دارالافتاء جامعة الرشید کراچی
۳/شعبان ۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اویس صاحب | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |