03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
“نہر کے پانی کا وضوء، غسل اور برتن دھونے کے لیے استعمال کا حکم”
87100پاکی کے مسائلپانی کے مسائل

سوال

مفتی صاحب :ہمارے گھر میں جو واٹرسپلائی کا پانی ہے وہ ایک نہر سے واٹرسپلائی کے سٹوریج تالابوں کے ذریعے صاف کر کے فراہم کیا جاتا ہے ،ظاہرا پانی کا رنگ بالکل صاف ہوتا ہے لیکن جس نہر سے پانی حاصل کیا جاتا ہے ،وہ آبادی کے درمیان میں سے گذرتی ہے اس نہر میں آس پاس رہنے والے لوگ کوڑا کرکٹ اور نکاس کا پانی نہر میں ڈال دیتے ہیں ۔میری والدہ کہتی ہے نہر کا پانی وضوءاور غسل کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ہم اس پانی کو پینے کے لیےاستعمال نہیں کرتے، لیکن کیااسے وضوء ،غسل اور برتن دھونےکےلیے استعمال کرسکتے ہیں ؟جزاک اللہ خیرا

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس پانی سے وضو ،غسل اور کپڑے برتن وغیرہ صاف کرنا جائز ہے کیونکہ یہ جاری پانی ہے ۔یہ نجس نہیں ہوتا جب تک اس کے رنگ ،بو،اور ذائقہ میں سے کوئی وصف تبدیل نہ ہوجائے ۔

حوالہ جات

 (وينجس)…….(وبتغير أحد أوصافه) من لون أو طعم أو ريح (بنجس) الكثير ولو جاريا إجماعا، أما القليل فينجس وإن لم يتغير خلافا لمالك. (الدر المختار : ص 31)

"ويجوز التوضؤ بالماء الجاري، ولا يحكم بتنجسه لوقوع النجاسة فيه ما لم يتغير طعمه أو لونه أو ريحه، وبعدما تغير أحد هذه الأوصاف وحكم بنجاسته لا يحكم بطهارته ما لم يزل ذلك التغير بأن يزاد عليه ماء طاهر حتى نزيل ذلك التغير، وهذا لأن إزالة عين النجاسة عن الماء غير ممكن فيقام زوال ذلك التغير الذي حكم بالنجاسة لأجله مقام زوال عين النجاسة.»" .  (المحیط البرھانی:1/90)

والفتوى في الماء الجاري أنه لا يتنجس ما لم يتغير طعمه أو لونه أو ريحه من النجاسة. كذا في المضمرات. (الفتاوى الهندية :1/ 17)

عبدالوحیدبن محمد طاہر           

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

06رمضان المبارک  1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالوحید بن محمد طاہر

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب