03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جائیداد میں تنازع سے متعلق متفرق سوالات
87159دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

سوال 1:مفتیان کرام کیا فرماتے ہیں اس زمین کے بارے میں جو 42 مرلے پر مشتمل ہے؟ اس پر پہلے سے تین دیواریں بنی ہوئی تھیں، جبکہ چوتھی دیوار ایک بیٹے دلاور خان  نے اپنے والد کی اجازت سے تعمیر کی۔ بعد ازاں، اسی چار دیواری کے اندر اس بیٹے نے اپنے والد کی اجازت سے دو کمرے اور ایک برآمدہ بھی بنا لیا۔ چونکہ اس علاقے کے عرف کے مطابق والد کی اجازت ملکیت کے مترادف سمجھی جاتی ہے، اسی لیے تمام لوگ اس جگہ کو والد کے بجائے دلاورخان  سے منسوب کرتے تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا والد کے انتقال کے بعد اس 42 مرلے زمین میں میراث جاری ہوگی یا نہیں؟ مرحوم کے پانچ بیٹے ہیں، اور ہر ایک کا اپنا الگ گھر ہے، جو انہوں نے والد کی زندگی میں تعمیر کیا تھا۔ مزید یہ کہ مرحوم کی دیگر زمینیں بھی موجود ہیں۔

سوال2:کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام  اس مسئلے میں  کہ ایک 42 مرلے کی چار دیواری والی زمین میں میت کے پانچ بیٹوں میں سے چار کا دعویٰ ہے کہ 24 مرلے کا صحن ان کے والد کی ملکیت تھا، لہٰذا وہ اسے بطور میراث اپنا حق سمجھتے ہیں۔ جبکہ باقی 18 مرلے زمین، جس پر دو کمرے، ایک برآمدہ اور اس کے سامنے ایک صحن موجود ہے، صرف ایک بیٹے  دلاور خان کی ملکیت ہے، اور یہ چاروں بھائی بھی اس 18 مرلے کو بطور میراث دلاورخان  کو دینے پر متفق ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیافقط 24 مرلے کی اس زمین میں میت کے چار بیٹے بطور میراث اپنا دعویٰ کر سکتے ہیں، جبکہ 42 مرلے کی یہ چار دیواری والی زمین پر اس ایک  بیٹے دلاورخان  نے والد صاحب کی زندگی میں ان کی اجازت سے قبضہ کیا تھااور علاقے کے عرف کے مطابق والد کی اجازت کا مطلب ملکیت دینا سمجھا جاتا ہے۔

سوال 3:کیا فرماتے ہیں مفتیان  کرام اس زمین کے بارے میں جو خالی پلاٹ نہیں بلکہ چار دیواری میں بند ہے؟ ایک بیٹے  دلاور خان نے والد کی زندگی میں اس چاردیواری کے اندر کمرے تعمیر کیے۔ اب والد کی وفات کے سولہ سال بعد دیگر چار بیٹے اس زمین میں بطورِ میراث اپنا حصہ طلب کر رہے ہیں اور دلاور خان   سے، جس نے سولہ سال تک اس زمین سے فائدہ اٹھایا، کرایہ اور تاوان کی مد میں دو کروڑ چالیس لاکھ روپے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔کیا اس زمین میں چاروں بیٹوں کی ملکیت ثابت ہونے کے بعد مذکورہ رقم بطورِ تاوان یا کرایہ ادا کرنا لازم ہوگا یا نہیں؟ جبکہ یہ زمین والد کی اجازت سے آباد کی گئی تھی اور والد کے انتقال کے بعد بھی سولہ سال تک چاروں بھائیوں کی جانب سے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔ اب مخالفت پیدا ہونے کی صورت میں کیا تاوان یا کرایہ طلب کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟

سوال4: جب میت کے چار بیٹے یہ کہیں کہ چاردیواری کے اندر واقع 24 مرلے کا میدان ہمارے باپ کی ملکیت تھا اور اسی زمین میں سے 18 مرلے کا حصہ ایک بیٹےدلاور خان  کا ہے، تو کیا یہ چار بیٹے مدعی ہوں گے اور وہ ایک بیٹا دلاور خان  مدعیٰ علیہ ہوگا؟یہ چاردیواری کے اندر واقع زمین کل 42 مرلے پر مشتمل ہے اور دلاور خان  کے قبضے میں ہے۔اس بیٹےنے والد کی اجازت سے اس پر قبضہ کیا تھا، تو کیا یہ قبضہ غصب کہلائے گا یا نہیں؟کیا محض قبضہ کی بنیاد پر یہ بیٹا ذوالید کہلائے گا یا نہیں؟

سائل سے مزید وضاحت:

2003ء میں، میں نے مذکورہ بالا زمین پر والد صاحب کی حیات میں اپنے پیسوں سے مدرسہ تعمیر کرنا چاہا۔ زمین کو مدرسہ کے لیے وقف کی نیت بالکل نہیں تھی، نہ ہی والد صاحب نے وقف کی نیت سے دی تھی۔ اسی طرح دیگر بھائی بھی مان رہے ہیں کہ یہ زمین وقف نہیں ہے۔

بہرحال، مدرسے کی تعمیر شروع کرتے ہی بھائیوں نے منع کیا اور کام رکوا دیا۔ اس کے بعد ہم پانچ بھائی والد صاحب کی خدمت میں فیصلہ کرنے کی غرض سے بیٹھے۔ میری والدہ بھی موجود تھیں۔ والد صاحب نے ہم سب بھائیوں کے سامنے کہا: "دلاور خان مدرسہ بنائے گا، آپ دیگر بھائیوں کا اس میں کوئی کام نہیں، یہ جگہ میں نے ان کو دے دی۔"
اس فیصلے کے بعد دیگر بھائی خاموش ہوگئے اور میں نے دوبارہ تعمیر شروع کی۔ چاردیواری مکمل ہوئی، برآمدہ بنایا، اور 2004ء سے تاحال مدرسہ کامیابی سے چل رہا ہے۔ وفاق سے بھی ملحق ہے اور وفاق کے الحاق والے فارم (استفتاء کے ساتھ منسلک ہے)میں رقبے کی نوعیت بطور ذاتی ملکیت تصدیق شدہ ہے۔

العرض، سولہ سال تک میرے دیگر بھائی خاموش رہے، حالانکہ دعوے سے کوئی مانع بھی موجود نہیں تھا۔ اب سولہ سال بعد اس میں میراث کے طور پر حصہ مانگ رہے ہیں۔ والد صاحب سے زمین ملکیت کے طور پر لینا چاہتا تھا، اسی لیے تو تعمیرات کیں، ورنہ اگر عارضی طور پر لینا ہوتا تو تعمیرات نہ کرتا۔ اور والد صاحب نے بھی ملکیت کے طور پر دینے کی نیت کی تھی، نیز حسبِ عرف بھائی بھی جانتے تھے کہ دلاور خان ملکیت کے طور پر لینا چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ ہماری دیگر زمینیں بھی ہیں۔ میں نے بھائیوں کو یہ اختیار بھی دیا ہے کہ مذکورہ جگہ کے بدلے دوسری زمین میں اس کے برابر حصہ لے لیں، لیکن اصل میں یہ لوگ یہاں مدرسہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ کئی مرتبہ ان کی طرف سے یہ الفاظ سنے گئے ہیں کہ گھر کے لیے موزوں زمین پر مدرسہ بنانے کی ضرورت نہیں تھی، مدرسہ کسی اور جگہ تعمیر کرنا چاہیے تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جواب سے پہلے  بطور تمہید درج بالا چار سوالات کا خلاصہ پیش خدمت ہے:

کل متنازعہ زمین 42 مرلہ ہے، جس پر ایک بیٹے، دلاور خان، نے والد کی زندگی میں ان کی اجازت سے قبضہ کرکے تعمیرات کیں۔ والد صاحب نے یہ اجازت دلاور خان کو چاروں بھائیوں اور ان کی ماں کی موجودگی میں دی تھی۔ نہ دلاور خان اور نہ ہی ان کے والد کی نیت زمین کو وقف کرنے کی تھی۔ دیگر بھائی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مذکورہ زمین وقف نہیں ہے۔ والد صاحب کی اجازت کے بعد چاروں بھائی خاموش ہوگئے، اور دلاور خان نے تعمیراتی کام شروع کرکے مدرسہ مکمل کیا۔ تقریباً 16 سال تک دیگر چار بھائی خاموش رہے۔ اب وہ اس زمین کو بطور میراث اپنا حق سمجھتے ہیں اور دلاور خان سے زمین سے حاصل شدہ منافع کی مد میں دو کروڑ چالیس لاکھ روپے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، دلاور خان شرعاً و عرفاً اس زمین کو اپنی ملکیت سمجھتے ہوئے نہ تو زمین واپس کرنے پر آمادہ ہے اور نہ ہی اس سے حاصل شدہ منافع دینے کے لیے تیار ہے۔

اس خلاصے کی روشنی میں جواب طلب امور یہ ہیں:

  1. کیا مذکورہ 42 مرلہ زمین میں دلاور خان کے چار بھائی بطور میراث مستحق ہیں یا نہیں؟
  2. کیا چار بھائی صرف 24 مرلہ زمین پرمیراث کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟
  3. کیا چار بھائی   دلاور خان  سے مذکورہ زمین سے حاصل شدہ منافع کا مطالبہ کر سکتے ہیں؟
  4. مذکورہ صورت میں مدعی اور مدعی علیہ کی تعیین، اور محض قبضے کی بنیاد پر "ذوالید" کے متحقق ہونے کی وضاحت۔

اس تمہید کے بعد تفصیلی جواب ملاحظہ فرمائیں:

صورتِ مسئولہ میں، جب والد نے  تمام بیٹوں کی موجودگی میں مذکورہ پوری زمین دلاور خان کی ملکیت میں دے کر اسے ہر قسم کے تصرف کا اختیار دیا ،اور دیگربھائی بھی اس فیصلے کے بعد خاموش ہوگئے،اسی طرح علاقے کا عرف بھی ملکیت میں دینے کا ہے تویہ والد کی طرف سے ہبہ ہے اور دلاورخان  نےجب  اس زمین پر قبضہ کر کے اس کی چار دیواری مکمل کر لی ہے، اورتعمیرات کیے تو  ہبہ تام  ہوچکاہے۔ لہذا دلاور خان  مذکورہ 42مرلہ زمین کا مالک بن چکا ہے۔دیگر ورثاء نہ 42 مرلہ زمین میں میراث کا مطالبہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی فقط 24 مرلہ زمین میں ان کا کوئی حق ہے، کیونکہ یہ والد کی طرف سے ہبہ تھا، اور یہاں ہبہ قبضے کے ذریعے مکمل ہو چکا ہے۔نیز، متأخرین فقہاء کی عبارات میں تصریح موجود ہے کہ اگر کوئی شخص کسی زمین یا مکان وغیرہ میں کسی کو  تصرف کرتے ہوئے دیکھےاورباوجود قدرت کے  تصرف کرنے والے کو منع نہ کرے،تو15سال بعد  اس کا دعویٰ لغو اور ناقابلِ سماعت ہوگا۔مذکورہ صورت  میں بھی، چار بھائیوں کا دعویٰ چونکہ 16 سال بعد آیا ہے ،اور پڑوس میں ہونے کی وجہ سے  دعویٰ کرنے سے کوئی مانع بھی موجود نہیں تھا،لہذا   بھائیوں  کا دعویٰ  قابل سماعت نہیں اور اس کا کوئی اعتبار نہیں۔اسی لیے مذکورہ 42 مرلہ زمین  دلاور خان کی ملکیت ہے اور اس میں چار بھائیوں کا کرائے یا تاوان کی مد میں دو کروڑ چالیس لاکھ روپے کا مطالبہ بھی شرعاً درست نہیں۔

البتہ  اگر والد نے صرف  عاریت کے طور پریاعارضی طور پر  دلاورخان کو  مذکورہ زمین استعمال کرنے کی اجازت دی ہوں، اور اسے مالک بنا کر تصرف کا مکمل اختیار نہ دیا ہو، تو ایسی صورت میں دلاورخان  اس زمین کا مالک شمار نہیں ہوگا، اور یہ جائیداد تمام ورثہ  میں بقدرِحصص تقسیم ہوگی۔

اب اگر اس میں اختلاف ہےکہ والد نے یہ زمین دلاورخان کو ملکیت کے طور پر دی تھی یاعاریت اور عارضی استعمال  کے طور پر؟ توپہلے چار بھائیوں سے  مطالبہ کیاجائےگاکہ مذکورہ زمین والد کی طرف سے دلاورخان کو عارضی استعمال کےلیے ملنے پرشرعی گواہ  پیش کریں،گواہ کا عادل ہونا اور تہمت سے پاک ہونا ضروری ہے۔ اگر چار بھائی شرعی گواہ پیش کریں تو مذکورہ  42مرلہ زمین  تمام ورثہ  کے درمیان بقدرحصص تقسیم کی جائےگی۔لیکن اگر چاربھائی گواہ  پیش نہ کر سکیں تو دلاور خان   اس طرح  قسم اٹھائےگا"کہ مذکورہ زمین والدصاحب نے فقط عارضی استعمال کےلیے نہیں دی تھی (بلکہ ملکیت کے طورپر دی تھی )۔"قسم اٹھانے کی صورت میں  مذکورہ ساری زمین دلاورخان  کی ملکیت ثابت ہوجائےگی،البتہ  قسم سے انکار کی صورت   میں مذکورہ زمین بطور میراث تمام ورثہ  کے درمیان بقدرحصص تقسیم کی جائے گی۔

تاہم  اس صورت(جس میں زمین  تمام بھائیوں میں تقسیم ہوگی) میں  بھی چار بھائیوں  کا مذکورہ زمین سے حاصل شدہ منافع کی مدمیں   دلاورخان سے رقم کا مطالبہ درست نہیں ، اور سابقہ حاصل شدہ منافع  دلاور خان  ہی کاحق ہے، کیونکہ دیگربھائیوں   کا 16 سال تک خاموش رہنا دلالۃً زمین استعمال کرنے کی اجازت ہے، اور مشترکہ چیز سے شرکاء کی اجازت سے نفع اٹھانا جائز ہوتا ہے، جسے شرکاء کو واپس کرنا ضروری نہیں ہوتا۔

صورتِ مسئولہ میں چار بھائی  مدعی ہیں، جبکہ دلاور خان مدعی علیہ ہے؛کیونکہ دلاور خان  صاحبِ قبضہ  اور ذولید ہے ،نیز مذکورہ مسئلہ میں دلاور خان مقدمہ چھوڑنا بھی چاہے پھر بھی ان   کو خصومت(تنازع کے حل تک مقدمہ آگے لےجانا) پر مجبور کیاجائےگا،اسی طرح بھائیوں کی طرف سے  زمین  عارضی استعمال  کےلیے دینے کا دعویٰ ہے جس سے دلاور خان منکر ہوکر اس کو ملکیت قرار دےرہا ہے اور یہ چاروں چیزیں مدعی علیہ ہونے کی علامت ہے۔

 دلاور خان  کا قبضہ جب والد صاحب کی اجازت سے ان کے دیگر بھائیوں اور ماں کی موجودگی میں ہوا  ہے تودلاور خان "ذوالید"  کہلائےگا، اوریہ ہبہ ہے ،غصب نہیں کہلائےگا۔

حوالہ جات

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ:لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى. ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم.(الردعلی الدر:(696/5

وقال رحمہ اللہ أیضاً: لو قال ‌جعلته ‌باسمك لا يكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة :لو غرس لابنه كرما ،إن قال جعلته لابني تكون هبة وإن قال باسم ابني لا تكون هبة.(البحرالرائق:(285/7

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: (سئل) في رجل تصرف في دار معلومة زمانا تصرف الملاك في أملاكهم من غير معارض له في ذلك ولا في شيء منه ثم باعها من زيد وباعها زيد من عمرو ومضى للتصرف المذكور أكثر من عشرين سنة وللرجل قريب مطلع على التصرف المذكور هو وورثته من بعده ولم يدعوا بشيء من الدار والكل في بلدة واحدة ولم يمنعهم من الدعوى مانع شرعي ،قام الآن ورثته يريدون الدعوى بشيء من الدار فهل تكون دعواهم بذلك غير مسموعة؟

(الجواب) : نعم لا تسمع دعواهم في ذلك وتترك الدار في يد المتصرف قطعا للأطماع الفاسدة؛ لأن السكوت كالإفصاح قطعا للتزوير والحيل والمسألة في كثير من المعتبرات كالتنوير والكنز والملتقى في مسائل شتى آخر الكتاب والبزازية الولوالجية وعبارتها رجل تصرف زمانا في أرض ورجل آخر رأى الأرض والتصرف ولم يدع ومات على ذلك لم تسمع بعد ذلك دعوى ولده فتترك في يد المتصرف؛ لأن الحال شاهد اهـ لا سيما بعد صدور المنع السلطاني عن سماع الدعوى بعد خمس عشرة سنة والمسألة في فتاوى الأنقروي مفصلة وكذا في الخيرية في كتاب الدعوى في عدة أسئلة.(العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية:(15/2

قال العلامۃ محمد خالد الأتاسي:لا تسمع دعوى الدين والوديعة وملك العقار والميراث وما لا يعود من الدعاوي الى العامة ولا الى اصل الوقف كدعوى المقاطعة او التصرف بالاجارتين والتولية المشروطة والغلة في العقارات الموقوفة بعد ان تركت خمس عشرة سنة.

صريح هذه المادة ان دعوى الارث غير مستثناة فلا يلتفت الى ما في الحموي من انها مستثناة ؛فان صاحب البيت ادرى. والحاصل ان كل الدعوى تركت خمس عشرة سنة بلا عذر من الاعذار الآتية ما عدا الدعاوي العائدة الى اصل الوقف او الى العامة لا تسمع - فيشمل دعوى الارث والقصاص ودعوى ارش الجناية او الدية ودعوى الهبة او الغصب او قيمة المتاوف ودعوى الاستحقاق في غلة الوقف والاحقية في في النواية عليه ودعوى المقاطعة في الوقف كالفراس او البناء في الارض المحتكرة وما يسمونه جدكاً او خلواً في دكان الوقف وحانوته وكر داراً وقيمة في بستانه ومرصداً في داره. ومبدأ هذه المدة ، من حين صلاحية المدعي للادعاء كما ماتي . واعلم ان عدم سماع الدعوى بعد مرور خمس عشرة سنة انما هو لمنع السلطان قضاته عن سماعھا حيث كان الممنوع هو القاضي كان للمحكم ان يسمعها .(شرح المجلۃ:169/3،المادۃ:(1660

وقال رحمہ اللہ أیضاً: لا ينسب إلى ساكت قول، لكن السكوت في معرض الحاجة بيان، يعني أنه لا يقال لساكت أنه قال كذا، لكن السكوت في ما يلزم التكلم به، إقرار وبيان.(شرح المجلۃ:ص،24،المادۃ:(67

قال العلامۃ ابن عابدین رحمہ اللہ: (قوله: إلا في الوقف والإرث ووجود عذر شرعي) استثناء الإرث موافق لما مر عن الحموي ولما في الحامدية عن فتاوى أحمد أفندي المهمنداري مفتي دمشق أنه كتب على ثلاثة أسئلة أنه تسمع دعوى الإرث ولا يمنعها طول المدةويخالفه ما في الخيرية حيث ذكر أن المستثنى ثلاثة: مال اليتيم والوقف والغائب ومقتضاه أن الإرث غير مستثنى فلا تسمع دعواه بعد هذه المدة، وقد نقل في الحامدية عن المهمنداري أيضا أنه كتب على سؤال آخر فيمن تركت دعواها الإرث بعد بلوغها خمس عشرة سنة، بلا عذر أن الدعوى لا تسمع إلا بأمر سلطاني ونقل أيضا مثله فتوى تركية عن المولى أبي السعود، وتعريبها إذا تركت دعوى الإرث بلا عذر شرعي خمس عشرة سنة، فهل لا تسمع؟ الجواب: لا تسمع اهـ اعترف الخصم بالحق، ونقل مثله شيخ مشايخنا التركماني عن فتاوى علي أفندي مفتي الروم ونقل مثله أيضا شيخ مشايخنا السائحاني عن فتاوى عبد الله أفندي مفتي الروم، وهذا الذي رأينا عليه عمل من قبلنا، فالظاهر أنه ورد نهي جديد بعدم سماع دعوى الإرث، والله سبحانه أعلم.....وقد أجاب المصنف في فتاواه فيمن له بيت يسكنه مدة تزيد على ثلاث سنين، ويتصرف فيه هدما وعمارة مع اطلاع جاره على ذلك بأنه لا تسمع دعوى الجار عليه البيت أو بعضه على ما عليه الفتوى.(الردعلی الدر:(420-422/5

قال العلامۃ زین الدین رحمہ اللہ: (قوله: المدعي من إذا ترك ترك والمدعى عليه بخلافه) أي المدعي من لا يجبر على الخصومة إذا تركها والمدعى عليه من يجبر على الخصومة إذا تركها، ومعرفة الفرق بينهما من أهم ما يبتنى عليه مسائل الدعوى، وقد اختلفت عبارات المشايخ فيه فمنها ما في الكتاب، وهو حد عام صحيح، وقيل المدعي من لا يستحق إلا بحجة كالخارج والمدعى عليه من يكون مستحقا بقوله من غير حجة كذي اليد، وقيل المدعي من يلتمس غير الظاهر والمدعى عليه من يتمسك بالظاهر، وقال محمد فی الأصل المدعى عليه هو المنكر، وهذا صحيح.(البحرالرائق:(193/7

قال الشیخ سلیم رستم باز رحمہ اللہ:وتتم(الھبۃ)بالقبض الکامل لأنہامن التبرعات والتبرع لایتم الابالقبض الکامل .( شرح المجلۃ:1462/ (

قال أصحاب الفتاویٰ الھندیۃ رحمھم اللہ: والقبض الذي يتعلق به تمام الهبة وثبوت حكمها القبض بإذن المالك. (الھندیۃ:(377,378/4

قال العلامۃ الکاساني رحمہ اللہ:فكان ‌جعل ‌البينة حجة المدعي وجعل اليمين حجة المدعى عليه وضع الشيء في موضعه وهو حد الحكمة.( بدائع الصنائع:(225/6

قال العلامۃ الحصکفي رحمہ اللہ:(التحليف على فعل نفسه يكون على البتات) أي القطع بأنه ليس كذلك... (إلا إذا كان) فعل الغير (شيئا يتصل به) أي بالحالف وفرع عليه بقوله (فإن ادعى) مشتري العبد (سرقة العبد أو إباقه) وأثبت ذلك (يحلف) البائع (على البتات) مع أنه فعل الغير الخ.

وقال ابن عابدین في الحاشیۃ: (قوله على البتات) كل موضع وجب اليمين فيه على العلم فحلف على البتات كفى وسقطت عنه وعلى عكسه لا..... (قوله: ولذا تعتبر مطلقا) أي ولكون يمين البتات آكد من يمين العلم تعتبر في فعل نفسه وفي فعل غيره ..... (قوله عن الزيلعي) قال الزيلعي.....وفي كل موضع وجب اليمين فيه على العلم فحلف على البتات يعتبر اليمين حتى يسقط اليمين عنه ويقضى عليه إذا نكل لأن الحلف على البتات آكد فيعتبر مطلقا بخلاف العكس اهـ.(الدرمع الرد:(552-553/5

قال العلامۃ زین الدین رحمہ اللہ: (قوله: وعلى العلم لو ورث عبدا فادعاه آخر) ؛ لأنه لا علم له بما صنع المورث فلا يحلف على البتات أطلقه فشمل ما إذا ادعاه ملكا مطلقا أو بسبب من المورث (قوله وعلى البتات لو وهب له أو اشتراه) لوجود المطلق لليمين إذ الشراء سبب لثبوت الملك وضعا وكذا الهبة، ومراده وصوله إليه بسبب اختياري، ولو كان غير الشراء والهبة.( البحر الرائق شرح كنز الدقائق:(217/7

جمیل الرحمٰن  بن محمد ہاشم 

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

18 رمضان المبارک1446ھ                        

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

جمیل الرحمٰن ولدِ محمد ہاشم

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب