03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مہر کی رقم صرف خاتون کا حق ہوتی ہے، اسے بھائیوں کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں۔
87205میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

بڑے بھائی نے والد صاحب کی اجازت سے اپنی دونوں شادیوں پر تقریباً دو لاکھ روپے خرچ کیے۔ پہلی شادی اس طرح ہوئی کہ انہوں نے اپنی بیوی کے بدلے (مہر سونے کی صورت میں مقرر ہوا تھا) ہماری بڑی بہن کا نکاح بہنوئی سے کرایا۔ دوسری شادی میں، ہماری دوسری بہن کے مہر کی رقم (ممکنہ طور پر کچھ اپنی ذاتی رقم بھی شامل کی ہوگی) خرچ کی۔ دونوں شادیاں والد صاحب کی رضامندی سے مشترکہ خاندانی نظام کے تحت ہوئیں۔میری ذاتی رقم ان شادیوں میں شامل نہیں تھی، اور اس وقت میں فیملی کے لیے کوئی خاص کاروبار یا ملازمت بھی نہیں کر رہا تھا۔ تاہم، میں نے اپنی شادی تقسیم کے بعد اپنے ذاتی پیسوں سے کی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنے بھائی سے ان کی شادی پر خرچ کیے گئے ان دو لاکھ روپے میں اپنی شادی کا خرچہ طلب کر سکتا ہوں، کیونکہ ان کی شادی میں میری دو بہنوں کے مہر کی رقم خرچ ہوئی تھی؟ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

مشترکہ زندگی گزارنے کے دوران، ایسے ذاتی اخراجات جو عمومی طور پر مشترکہ مال سے نہیں بلکہ ذاتی کمائی سے کیے جاتے ہیں، اگر ان میں مشترکہ مال خرچ کر دیا جائے تو باقی شرکاء کا حق ہوتا ہے کہ انہیں ان کا حصہ واپس دیا جائے۔

صورتِ مسئولہ میں، چونکہ بڑے بھائی کی دونوں شادیوں پر بہنوں کے مہر کی رقم خرچ ہوئی ہے، اس لیے ان پر لازم ہے کہ وہ ہر بہن کو اس کا مہر واپس کریں، بصورتِ دیگر وہ سخت گناہ گار ہوں گے۔

اگر بہنوں کے مہر کے علاوہ والد صاحب نے بھی کچھ رقم بڑے بھائی کی شادیوں پر خرچ کی ہو، تو یہ ان کا اپنے مال میں تصرف تھا، جس کا انہیں اختیار حاصل تھا۔ نیز، اس وقت آپ کی ذاتی کمائی بھی مشترکہ مال میں شامل نہیں تھی، لہٰذا محض بہنوں کا مال خرچ ہونے کی بنیاد پر آپ بڑے بھائی سے اپنی شادی کے اخراجات کا مطالبہ نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ بہنوں ہی کا حق ہے۔

حوالہ جات

قال اللہ تعالٰی: ﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ (ألنساء(29:

ترجمہ:اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق طریقے سے نہ کھاؤ۔(آسان ترجمہ قرآن:(261/1

( بدائع الصنائع: (4/3

المھر اسم لما تستحقه المرءة بعقد النکاح أو بالوطء اھ.

(الھندیة مع فتاوی قاضیحان:103/2)

ولیس لأب أن یھب مھر ابنته عند عامة العلماء اھ.

جمیل الرحمٰن بن محمد ہاشم 

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

20رمضان المبارک1446ھ  

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

جمیل الرحمٰن ولدِ محمد ہاشم

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب