87234 | جائز و ناجائزامور کا بیان | جائز و ناجائز کے متفرق مسائل |
سوال
گزشتہ دنوں وقت سے پہلے پیدا ہونے والے ایسے بچے جن کو اپنی ماں یاکسی رشتہ دار خاتون کا دودھ میسر نہ ہو، ان کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے ہیومن ملک بینک کے حوالے سے سوال کیا تھا، مختلف علماء کرام کی طرف سے تحفظات کی بنیاد پر اس ملک بینک کو اب تک قائم نہیں کیا گیا، حال میں ہی جامعہ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے بھی دیگر علماء کرام کی تائید میں عدم جواز کا فتوی موصول ہوا، اور ماضی قریب میں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی طرف سے بھی ملک بینک کے قیام سے منع کیا گیا ہے ۔
دوسری طرف ہمیں روزانہ کی بنیاد پر ایسے ضرورت مند بچوں کی جان بچانے کیلیے ممکنہ تدابیر اختیار کرنے کی فکر بھی لاحق ہے، اس لیے علماء کرام کی طرف سے منع کرنے کے بعد ملک بینک کے قیام معطل کر کے اس کی بجائے فتوی میں جو طریقہ بتایا گیا ہے ( دائی خواتین کا انتظام کیا جائے) اس کو اختیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سوال میں اس متبادل کے خدو خال علماء کرام کے سامنے پیش کرنا مقصود ہے کہ کہیں اس متبادل میں شرعی لحاظ سے کوئی تسامح اور کو تاہی نہ رہ جائے ۔
متبادل کے بیان سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تمام ہسپتالوں میں جو طریقہ بالعموم رائج ہے اس کو بیان کر دیا جائے۔ وقت سے پہلے جو بچے پیدا ہوتے ہیں یا جن کا وزن پیدائش کے وقت دو کلو سے کم ہوتا ہے اور ان میں دودھ چوسنے کی صلاحیت نہیں ہوتی ، ایسے تمام بچوں کو ٹیوب کے ذریعہ دودھ دیا جاتا ہے۔ ان بچوں کی مائیں اپنا دودھ فیڈر میں جمع کر کے اسٹاف کے حوالے کر دیتی ہیں، اور یہ اسٹاف اس دودھ پر بچہ کے نام و غیرہ کا اسٹیکر لگا کر اس کو فریج میں رکھ دیتا ہے اور فیڈ کروانے کے وقت اسٹاف ہر بچہ کو اس کیلیے رکھا ہوا مخصوص دودھ ٹیوب کے ذریعہ پلاتا ہے۔ خود خواتین کیلیے پلانا عام طور سے ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اول تو ٹیوب کے ذریعہ دودھ پلانا ان کیلیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے ( فیڈنگ ٹیوب بچہ کے معدہ میں ہی جانا ضروری ہے)۔ پھر بچہ کو فیڈ کی ضرورت ہر دو سے تین گھنٹے بعد پڑتی ہے اور کسی بھی خاتون کیلیے کئی دن مستقل ہسپتال میں چوبیس گھنٹے موجود رہنا آسان نہیں ہوتا۔ اس لیے وہ تقریبا ایک دن یا آدھے دن کی خوراک ایک ساتھ جمع کروادیتی ہیں۔ یہ طریقہ کار تقریباً تمام ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔
جن بچوں کو اپنی ماں یا کسی رشتہ دار خاتون کا دودھ میسر نہیں ہوتا ،اس کے گھر والے اس حوالے سے بھاگ دوڑ کرتے ہیں، اور کبھی پیسے دے کر اور کبھی منت سماجت کر کے دوسری خواتین کو راضی کرتے ہیں کہ وہ ان کے بچوں کو دودھ پلادیں، یہ کوشش کبھی کامیاب ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی۔ اور اسی وجہ سے ہیومن ملک بینک کے قیام کا سوچا گیا تھا۔ اب اگر اس ملک بینک کی بجائے یہ کام کیا جائے کہ کہ جس مخصوص جگہ ( فیڈنگ روم میں یہ خواتین اپنے بچوں کیلیے دودھ فیڈر میں دیتی ہیں، وہاں ایک مسلم اسٹاف کی ذمہ داری لگادی جائے، جو ان تمام خواتین کے دودھ پر ٹیگ لگانے اور علیحدہ رکھنے کی موجودہ پریکٹس کے ساتھ ساتھ ان خواتین کو اس بات کی بھی ترغیب دیں کہ وہ کسی ایک بچے کو دودھ پلانے کی ذمہ داری لے لیں۔ جو خواتین راضی ہو جائیں ان کی تفصیلات نوٹ کر لی جائیں، لیکن ان سے فی الحال کسی اور بچے کیلیے دودھ نہ لیا جائے۔ پھر جب ضرورت پیش آئے تو ایک بچہ کیلیے ایک خاتون سے رابطہ کیا جائے کہ جس طرح آپ اپنے بچے کیلیے دودھ جمع کروارہی ہیں ایسے ہی ایک اور بچہ کیلیے بھی جمع کروادیں۔
ایسے بچے جن کو دودھ کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کو دودھ میسر نہیں ہوتا، ان کی تعداد ہر روز ہمارے زیر انتظام ہسپتال میں اوسطاً6 سے 8 ہوتی ہے، جبکہ ان بچوں سمیت شیر خوار بچوں کی تعداد 50 سے زائد ہوتی ہے، اس لیے امید ہے کہ 6 سے 8 خواتین اس پر راضی ہو جائیں۔ البتہ جو احتیاطی تدابیر ہیومن ملک بینک کے قیام میں اختیار کی گئیں تھیں ان کی بھی پوری پابندی کی جائے:
- یہ کوشش صرف ان بچوں کیلئے کی جائے جو وقت سے پہلے یا بہت کم وزن کے پیدا ہوئے ہوں، اور ان کو اپنی ماں یا کسی دوسری رشتہ دار خاتون کا دودھ میسر نہ ہو
- آن ڈیوٹی ڈاکٹر مندرجہ بالا باتوں کی تحریری تصدیق کریں
- تمام کام کی نگرانی کسی عالم دین کے ذمہ ہو
- تمام ڈیٹا محفوظ رکھا جائے، اور دونوں خاندانوں کو تحریری ڈیٹ دینے کے ساتھ مسئلہ رضاعت بھی تحریری شکل میں دیا جائے اور زبانی مسئلہ بھی سمجھا دیا جائے
- اس سارے کام کی کوئی علیحدہ سے فیس نہ لی جائے، نہ ہی دودھ فراہم کرنے والی خاتون کو اجرت دی جائے
- حتی الامکان مسلم بچوں کو غیر مسلم خواتین کا دودھ نہ دیا جائے
- کوشش کی جائے کہ دودھ فراہم کرنے والی خاتون کا بچہ اگر لڑکا ہو تو ان کا دودھ کسی لڑکے کو ہی دیا جائے اور اگر لڑکی ہو تو جس بچہ کو ان کا دودھ دیا جائے وہ بھی لڑکی ہو
ان شرائط کے علاوہ اضافی شرط یہ بھی ہو گی کہ :
- ایک خاتون کا دودھ صرف ایک بچہ کو ہی دیا جائے، مختلف خواتین کا دودھ مکس نہ کیا جائے
- ضرورت پیش آنے کے بعد دودھ فراہم کرنے والی خاتون سے رابطہ کیا جائے، پہلے سے کسی بھی خاتون کا دودھ اس دوسرے بچے کیلیے اسٹور کر کے نہ رکھا جائے
کیا ان تمام شرائط کے ساتھ اس متبادل پر شرعا عمل کرنا درست ہے ؟ کیونکہ معاملہ انسانی زندگی بچانے کا ہے اس لیے ملک بینک کی اجازت نہ ملنے کی صورت میں کسی متبادل کی سخت ضرورت ہے۔ اس متبادل کو اختیار کرنے کی صورت میں کئی سارے اعتراضات جو ملک بینک کے حوالے سے تھے ختم ہو جاتے ہیں، مثلاً:
- . ضرورت پیش آنے سے پہلے انتظام کر لینا
- . مختلف خواتین کے دودھ کو یکجا کرنا
- . ملک بینک کیلیے دودھ فراہم کرنے والی خواتین کی عدم دستیابی
- . بوقت ضرورت بقدر ضرورت کی رعایت نہ ہوناو غیرہ
ان تمام خرابیوں کے دور ہو جانے کے بعد بھی جو خدشہ رہ جاتا ہے کہ ادارہ تو تمام ریکارڈ محفوظ کر سکتا ہے لیکن ممکن ہے لوگ اس کی رعایت نہ کریں ، کسی انسانی جان بچانے کے وقت اس موہومہ خدشہ کا تحمل کیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ یہ خدشہ فی نفسہ عرب میں جس رضاعت کا دستور تھا بہر حال اس میں بھی تھا، بلکہ صرف وہم کے درجے میں نہیں، بلکہ ایک بار ایسا قصہ پیش آیا بھی تھا کہ ایک خاتون نے دعویٰ کر دیا تھا کہ میں نے شوہر اور بیوی دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ لیکن اس واقعہ کے بعد بھی رضاعت سے منع نہیں کیا گیا، صرف اس بات پر زور دیا گیا کہ اس کو لکھ کر محفوظ کر لیا جائے، اگر چہ لکھنے کے بعد بھی فی نفسہ احتمال باقی رہتا ہے کہ میں سال بعد یہ لکھا ہوا موجود نہ ہو اور انجانے میں دور ضاعی بہن بھائی کی شادی ہو جائے لیکن اس وہم کا اعتبار نہیں کیا گیا۔
کیا ان تمام تر تفصیلات کو سامنے رکھتے ہوئے اور مذکورہ بالا شرائط پر عمل کرتے ہوئے ہیومن ملک بینک کی بجائے اس نظام کو بطور متبادل کے استعمال کر ناشر مادرست ہے ؟
نوٹ:
مذکورہ بالا سوال دار الافتاء جامعہ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں بھی جمع کر وایا گیا تھا، وہاں سے مذکورہ بالا شرائط پر عمل کی صورت میں اجازت دی گئی ہے (فتوی نمبر : 144606100020)۔
جواب(بنوری ٹاؤن)
"سابقہ استفتاء میں عورتوں کے دودھ جمع کرنے اور باقاعدہ ملک بینک قائم کرنے کے حوالہ سے استفسار کیا گیا تھا اس کا جواب یہ دیا گیا کہ مذکورہ طرز پر ملک بینک کا قیام ناجائز ہے؛ اس لیے کہ اس میں شرعی اصولوں کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، اس کی تفصیل سابقہ فتویٰ میں ذکر کی گئی۔
اب سوال ہذا کا حاصل یہ ہے کہ اگر باقاعدہ خواتین کے دودھ کو جمع نہ کیا جائے، بلکہ ضرورت کے متحقق ہونے کے بعد (یعنی: بچے کے قبل از وقت پیدا ہو جانے اور دودھ کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں) ہسپتال میں موجود کسی خاتون کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنے بچے کے علاوہ ایک اور بچے کے لیے دودھ فراہم کر دیں، تو کیا یہ صورت اختیار کرنا جائز ہے؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ:
سوال میں جو شرائط ذکر کی گئی ہیں اگر ان تمام شرائط کی رعایت رکھی جائے اور تحققِ ضرورت سے پیشتر دودھ جمع نہ کیا جائے، بلکہ کسی بھی بچے کی پیدائش کے بعد اور اس کے لیے دودھ مہیا نہ ہونے کی صورت میں کوئی خاتون اس بات پر آمادگی کا اظہار کرتی ہے کہ میں ایک بچے کے لیے دودھ مہیا کر دوں گی تو مذکورہ صورت اختیار کرنے کی اجازت ہو گی۔
خصوصی طور پر شرط نمبر4 اور9 کا خاص خیال رکھا جائے، یعنی ضرورت پیش آنے کے بعد دودھ فراہم کرنے والی خاتون سے رابطہ کیا جائے، پہلے سے کسی بھی خاتون کا دودھ اس دوسرے بچہ کے لیے اسٹور کرکے نہ رکھا جائے ،بچے کو جس خاتون کا دودھ پلایا جائے اس کا ڈیٹا محفوظ رکھا جائے اور دونوں خاندانوں کو اس کا ریکارڈ فراہم کیا جائے، مذکورہ طریقے پر اگر کام کیا جائے تو امید ہے کہ کسی شرعی ضابطہ کی خلاف ورزی لازم نہ آئے گی"۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
ہیومن ملک بینک یا اس کے متبادل کے حوالے سے جو معلومات سوال میں مذکور ہیں ،ان کے نتیجے میں یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ نومولود بچوں کے لیےخواتین کے دودھ کی ضرورت ہے،اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیےمروجہ ہیومن ملک بینک یا اس کے متبادل کی بھی ضرورت ہے،لہٰذا اس کی گنجائش دی جائے۔
اس ضمن میں سب سے پہلے اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ نومولود بچوں کو اپنی ماں کے علاوہ دیگر خواتین کا دودھ پلانے کے انتظام کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟اگر ہم حقیقی وجوہات پر غور کریں تو ان وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ بچوں کی ماؤوں کو مناسب مقدار میں صحت مند خوراک اور ماحول کا نہ ملنا ہے،لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ایسے اقدامات اٹھائے جن کے نتیجے میں ماؤں کو مناسب مقدار میں صحت مند خوراک اور ماحول میسر ہو تاکہ وہ خود بھی صحت مند ہوں اور صحت مند بچے جَن سکیں،اور ان کے بچوں کی انسانی دودھ کی ضرورت خود اپنی ماؤں سے پوری ہوسکے۔
متبادل کے طور پرخواتین کو دوسروں کے بچوں کے لیے دودھ جمع کروانے کی ترغیب دینے کی جوبات کی جارہی ہے،یہ ناقابل فہم ہے،اس لیے کہ ایک طرف برائے نام پڑھے لکھے مختلف لوگوں(خواتین وحضرات) کے ذریعےاور ڈراموں،فلموں کے ذریعے خواتین کا یہ ذہن بنادیا گیا ہے اورمسلسل بنایا جارہا ہے کہ مردوں کے ساتھ مساوات قائم کرنے کے لیے بجائے گھر داری اور بچوں کی پرورش وغیرہ کے، گھر سے باہر نکل کر مردوں کی طرح کام کاج کریں،جس کے نتیجے میں خواتین چونکہ ایک غیر فطری زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہیں تودیگر معاشرتی خرابیوں کی طرح اپنے بچوں کو دودھ پلانے یا اس کے لیے خود کو ذہنی اور طبی طور پر تیار رکھنے میں ناکام ثابت ہورہی ہیں اور دوسری طرف بجائے حقیقی وجوہات کو حل کرنےکے دیگر خواتین کو یہ ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ دوسروں کے بچوں کے لیے دودھ جمع کروائیں ۔
اگر حکومت شدید شبہات اور رضاعت کے معاملے میں سنگین خدشات پر مبنی ہیومن ملک بینک یا اس کے متباد ل انتظامات کے بجائے حقیقی وجوہات پر غور کرکے ان کے حل کے لیے اقدامات اٹھائے تو نومولود بچوں کو اپنی ماں کے علاوہ کسی اورکا دودھ پلانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی اور اگر آئی بھی تو بہت معمولی کیسز میں آئے گی،جس کا انتظام رائج طریقہ کار یعنی کسی رشتہ دار خاتون وغیرہ کے ذریعے سے بسہولت ممکن ہے۔
بہرحال چونکہ مختلف دورالافتاءسے بھی تفصیلی غورو خوض کے بعد عدم جوازکے فتاوی جاری ہوئےہیں اور تفصیلی وجوہات بھی ان میں لکھی گئ ہیں ،اسی طرح مجمع الفقہ الاسلامی کے تحت دنیا بھر کے فقہاء بھی اس کی ضرورت یا گنجائش کے قائل نہ ہوسکے ،لہٰذاان تمام باتوں کی روشنی میں اور بالخصوص نسل انسانی اور نسب کی حفاظت کے پیش نظر جوکہ مقاصد شریعہ میں سےایک اہم ترین مقصدہے،ہیومن ملک بینک یا اس کے متبادل کی گنجائش نہیں دی جاسکتی۔
حوالہ جات
محمد حمزہ سلیمان
دارالافتا ء،جامعۃالرشید ،کراچی
۱۴.شوال۱۴۴۶ہجری
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد حمزہ سلیمان بن محمد سلیمان | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |