03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
لفظ طلاق تین مرتبہ کہنے کا حکم
87251طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

اقبال احمد ولد عاشق حسین، اپنے پورے ہوش و حواس، سالم دماغ اور مکمل اختیار کے ساتھ، بغیر کسی نشے، دباؤ یا زبردستی کے یہ تحریر لکھ کر دیتا ہے کہ:میری بیوی شبینہ بنت عبدالغفور چانڈیو، جو کہ میرے نکاحِ شرعی میں ہے، اُسے میں اپنے پورے ہوش و حواس کے ساتھ، سنجیدہ ارادے سے، طلاق، طلاق، طلاق دیتا ہوں۔دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا مذکورہ الفاظ سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ اور اگر واقع ہوئی ہے تو کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

صورتِ مسئولہ میں شوہر نے اپنی بیوی کو تین مرتبہ صریح الفاظ "طلاق، طلاق، طلاق" کے ساتھ طلاق دی ہے، لہٰذا شریعتِ مطہرہ کے مطابق مذکورہ عورت پر تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔ اس کے نتیجے میں نکاح ختم ہو گیا ہے اور بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ ہمیشہ کے لیے حرام ہو گئی ہے۔ اب نہ رجوع جائز ہے اور نہ ہی تجدیدِ نکاح کا کوئی راستہ باقی ہے۔عورت عدت (اگر حاملہ نہ ہو تو تین حیض، اور اگر حاملہ ہو تو وضعِ حمل تک) گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

حوالہ جات

الفتاوی الھندیۃ : 473/1)

وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتین في الأمة لم تحل له حتی تنکح زوجًا غیره نکاحًا صحیحًا ویدخل بها، ثم یطلقها أو یموت عنها.

محمد ادریس

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

17/شوال 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد ادریس بن محمدغیاث

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب