87235 | طلاق کے احکام | تین طلاق اور اس کے احکام |
سوال
میں نے معاشی پریشانی کے باعث غصے کی حالت میں متعدد بار (تین سے زائد مرتبہ) اپنی بیوی سے کہا: میں تجھے طلاق دیتا ہوں، میں تجھے طلاق دیتا ہوں، میں تجھے طلاق دیتا ہوں ، اب میں اپنے اس فعل پر سخت نادم اور افسوس زدہ ہوں۔ شرعی طور پر اس طلاق کا کیا حکم ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
غصے میں طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اورطلاق عموماً غصہ میں ہی دی جاتی ہے۔لہذا جب سائل نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، اب رجوع یا تجدیدِ نکاح کی صورت باقی نہیں، عدت گزارنے کے بعد عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔
حوالہ جات
(رد المحتار: 3/244 )
قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان، قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام : أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لايتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه، الثاني : أن يبلغ النهاية فلايعلم ما يقول ولايريده، فهذا لا ريب أنه لاينفذ شيء من أقواله، الثالث : من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون، فهذا محل النظر والأدلة تدل على عدم نفوذ أقواله اهـ ملخصًا من شرح الغاية الحنبلية، لكن أشار في الغاية إلى مخالفته في الثالث حيث قال: ويقع طلاق من غضب خلافًا لابن القيم اهـ وهذا الموافق عندنا لما مر في المدهوش".
(الفتاوى الهندية 1/ 473 )
وَإِنْ كَانَ الطَّلَاقُ ثَلَاثًا فِي الْحُرَّةِ وَثِنْتَيْنِ فِي الْأَمَةِ لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ نِكَاحًا صَحِيحًا وَيَدْخُلَ بِهَا ثُمَّ يُطَلِّقَهَا أَوْ يَمُوتَ عَنْهَا، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ".
محمد ادریس
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
18 ٖشوال 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد ادریس بن محمدغیاث | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |