87241 | طلاق کے احکام | طلاق کا وکیل بنانے کا بیان |
سوال
۔کیاشوہر اپنے سسر یا ساس کو حقِ طلاق تفویض کرسکتا ہے؟
۲۔’نکاح نامہ“ کی شق نمبر ) ۸۱ ( میں لكھا ہوا ہے: ”بیوی کو طلاق کا حق تفویض کرنا“، عقدِ نکاح سے پہلے اس کے مطابق نکاح فارم میں لکھ کر بیوی کو طلاق تفویض کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اگر کر سکتے ہیں تو شریعتِ مطہرہ میں اس کا کیا حکم ہے؟ اسی طرح عقدِنکاح میں ایجاب وقبول کے موقع پر اگر محض زبان سے کہلوا دیا جائے کہ ”طلاق کا اختیار تم اپنی بیوی یا سسر کو تفویض کرو“، کیا اس طرح بیوی کو طلاق کا اختیار دینا معتبر ہے یا نہیں؟ اگر معتبر ہے تو بیوی كن صورتوں میں اس حق کو استعمال کر سکتی ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
۔شوہر بیوی کوطلاق دینے کا اختیاردے سکتاہے،البتہ اگر اختیارایسے الفاظ سے دیا ہو جو دائمی طور پر اختیار دینے پر دلالت نہ کرتے ہوں یامجلس تک محدود اختیار دینے پر دلالت کرتے ہوں، مثلا تمہیں اپنے کو طلاق دینے کا اختیار ہے یا تم چاہو تو اپنے کو طلاق دے سکتی ہو وغیرہ وغیرہ تو ایسی صورت میں بیوی صرف اسی مجلس میں اپنے کو ایک طلاق دے سکتی ہے،اس کے بعد اسے اپنے کو طلاق دینے کا اختیار نہ رہےگااور اگر دائمی طور پر طلاق دینے کا اختیار دیا ہومثلا یوں کہدیاکہ" جب چاہویاکسی بھی وقت تم اپنے کو طلاق دے سکتی ہووغیرہ وغیرہ تو ایسی صورت میں مجلس کے بعدبھی،جب چاہےوہ اپنے کو طلاق دےسکتی ہے،البتہ ایسی صورت میں بھی بیوی کو صرف ایک دفعہ ایک طلاق دینے کا اختیار ہوگا،البتہ اگر واضح طور پر کہا ہو کہ"تم جتنی بار چاہو یا جتنی طلاق چاہو یا جب جب چاہواپنے آپ کوطلاق دے سکتی ہوتوایسی تمام صورتوں میں وہ ایک سے زائد طلاق بھی دےسکتی ہے۔ خواہ ایک مجلس میں ہویا متعدد مجالس میں،
واضح رہے کہ شوہر کی طرف سے بیوی کوطلاق کا اختیار دیئےجانے کے بعد شوہر اس اختیار کو ختم نہیں کرسکتا ہے،(لانہ تملیک )البتہ خود بھی طلاق واقع کرسکتا ہےاور بیو ی کے علاوہ کسی بھی دوسرے فرد (ساس یا سسسر وغیرہ )کو اپنی بیوی کوطلاق دینے کااختیار دینے کے بعد اسےکسی بھی وقت ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔(لانہ توکیل)
۲۔واضح رہے کہ بیوی سمیت کسی کو طلاق کااختیار دینے کے لیے نکاح کا ہونا ضروری ہے،البتہ تفویض (طلاق دینے کااختیارحوالہ کرنے)کی اضافت ونسبت نکاح کی طرف ہو تونکاح سے پہلے بھی اختیار دیا جاسکتا ہے۔مثلا یوں کہدیا کہ میرے اس نکاح کے بعد تمہیں طلاق دینے کا اختیار ہوگا،البتہ تفویض کےلیے زبانی ہونا ضروری نہیں ،بلکہ لکھ کر بھی تفویض کرسکتا ہے۔
حوالہ جات
الفتاوى الهندية - (ج 9 / ص 58):
إذا قال لها : طلقي نفسك سواء قال لها : إن شئت أو لا فلها أن تطلق نفسها في ذلك المجلس خاصة وليس له أن يعزلها .
البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (ج 9 / ص 467):
( قوله : ولا يملك الرجوع ) أي ولا يملك الزوج الرجوع عن التفويض سواء كان لفظ التخيير أو بالأمر باليد أو طلقي نفسك بناء على أن الوكيل من يعمل لغيره وهذه عاملة لنفسها حتى لو فوض إليها طلاق ضرتها أو فوض أجنبي لها طلاق زوجته كان توكيلا فملك الرجوع منه لكونها عاملة لغيرها ولا يقتصر على المجلس ،
الفتاوى الهندية - (ج 9 / ص 69):
وإن قال لها : طلقي نفسك متى شئت فلها أن تطلق في المجلس وبعده،ولها المشيئة مرة واحدة وكذا قوله : متى ما شئت وإذا ما شئت ولو قال : كلما شئت كان ذلك لها أبدا حتى يقع ثلاثا كذا في السراج الوهاج .
رد المحتار - (ج 9 / ص 252)
[ فروع ] قال زوجني ابنتك على أن أمرها بيدك لم يكن له الأمر لأنه تفويض قبل النكاح .
( قوله : لم يكن له الأمر إلخ ) ذكر الشارح في آخر باب الأمر باليد نكحها على أن أمرها بيدها صح .ا هـ .
لكن ذكر في البحر هناك أن هذا لو ابتدأت المرأة فقالت زوجت نفسي على أن أمري بيدي أطلق نفسي كلما أريد أو على أني طالق فقال : قبلت وقع الطلاق وصار الأمر بيدها ، أما لو بدأ هو لا تطلق ولا يصير الأمر بيدها .ا هـ .
رد المحتار - (ج 10 / ص 483)
وذكر في الخانية في مسألة قبلها ، وهي إذا تزوج امرأة على أنها طالق جاز النكاح وبطل الطلاق .
وقال أبو الليث : هذا إذا بدأ الزوج وقال : تزوجتك على أنك طالق ، وإن ابتدأت المرأة فقالت : زوجت نفسي منك على أني طالق أو على أن يكون الأمر بيدي أطلق نفسي كلما شئت فقال الزوج : قبلت جاز النكاح ويقع الطلاق ويكون الأمر بيدها لأن البداءة إذا كانت من الزوج كان الطلاق والتفويض قبل النكاح فلا يصح .
أما إذا كانت من المرأة يصير التفويض بعد النكاح لأن الزوج لما قال بعد كلام المرأة قبلت ، والجواب يتضمن إعادة ما في السؤال صار كأنه قال : قبلت على أنك طالق أو على أن يكون الأمر بيدك فيصير مفوضا بعد النكاح .ا هـ .
نواب الدین
دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی
۲۲شوال۱۴۴۶ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | نواب الدین | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |