87299 | حدیث سے متعلق مسائل کا بیان | متفرّق مسائل |
سوال
سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ چل رہی ہے، جس میں تقریباً ایک سو چھے احادیث مذکور ہیں، جس کا عنوان"حديث كے نام پر بولے جانے والے106جھوٹ" لگایا گیا ہے، حوالہ کے طور پر مولانا طارق امیر خان صاحب کی کتاب کا حوالہ دیا گياہے، سوال یہ ہے کہ کیا یہ تمام روایات واقعتاً موضوع اور من گھڑت ہیں؟
نوٹ: پوسٹ میں مذکور تمام احادیث حکم سمیت ساتھ منسلک ہیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
سوال میں ذکر کی گئی پوسٹ کے بارے میں چار باتیں سمجھنا ضروری ہیں:
1) اس پوسٹ میں ذکر کی گئی تمام روایات موضوع اور من گھڑت نہیں ، بلکہ ان میں سے بعض موضوع اور اکثر ایسی ہیں کہ کتبِ احادیث میں ان کی سند نہیں ملتی، ایسی روایات پر موضوع کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، کیونکہ اس میں یہ امکان موجود ہے کہ کسی کتاب یامخطوطہ میں ان کی سند موجود ہو، لہذا سوال میں ذکرکردہ پوسٹ کے عنوان میں ان سب روایات پر جھوٹ کا حکم لگانا درست نہیں، خصوصا جبکہ روایت کے معنی میں نکارت بھی نہ ہو۔
2) اس پوسٹ میں بعض روایات ایسی بھی ہیں جن پر موضوع اور من گھڑت ہونے کا حکم لگایا گیا، حالانکہ اس پوسٹ میں جس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے اس میں ان روایات پر موضوع ہونے کا حکم نہیں لگایا گیا، جیسے ایک بڑھیا کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنے سے متعلق روایت کو کسی نے موضوع قرار نہیں دیا،اسی لیے "غیرمعتبر روایات کا فنی جائزہ "نامی کتاب(400/2) میں اس روایت کے بارے میں درج ذیل حکم مذکور ہے:
"تلاش بسیار کے باوجودیہ واقعہ سندا تا حال کہیں نہیں مل سکا اور جب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ ملے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتساب سے بیان کرنا موقوف رکھا جائے"
جبکہ اس پوسٹ میں اس کو من گھڑت کہا گیا ہے، جوکہ محدثین کے اصولوں کی روشنی میں درست نہیں، نیزاس میں صاحبِ کتاب کی طرف غلط نسبت کرنا بھی لازم آتاہے جو کہ دیانت کے خلاف ہے۔
3) اس پوسٹ ميں بعض ايسي روايات بھی ہیں جو "غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ" نامی کتاب میں موجود نہیں ہیں، چنانچہ اس کتاب کے مصنف نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے، جبکہ یہ علمی خیانت ہے۔
4) اس میں بعض روایات ایسی بھی ہیں کہ جن کے الفاظ اگرچہ کسی معتبر سند سے ثابت نہیں، مگر ان کا معنی قرآن وحدیث کی روشنی میں صحیح اور ثابت ہے، جیسے "من عرف نفسہ عرف ربہ" یعنی جس نے اپنی ذات کی حقیقت کو پہچان لیا تو اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ اب یہ الفاظ اگرچہ ثابت نہیں، مگر ان کا معنی فی نفسہ درست ہے، اس لیے کہ قرآن کریم میں جگہ جگہ اپنی ذات کی تخلیق میں غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے اور ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا"سنريهم آياتنا في الآفاق وفي أنفسهم[فصلت: 53]" یعنی ہم عنقریب ان کو اپنے وجود میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے انسان اللہ تعالیٰ کو پہچانتا ہے، اسی طرح "اطلبوا العلم ولو بالصین" والی روایت سے علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے فرائض کا علم مراد لے کر اس کے معنی کو صحیح قرار دیا ہے۔ اسی طرح روایت "اتقوا مواضع التھم" کے الفاظ اگرچہ کسی معتبر سند سے ثابت نہیں، مگر اس کے معنی کی تائید مرفوع اور موقوف دونوں قسم کی روایات سے ہوتی ہے، لہذا ایسی روایات کے موضوع، بے اصل یا بے سند ہونے کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی صراحت کرنا چاہیے کہ اس روایت کا مضمون قرآن وسنت کی روشنی میں صحیح اور درست ہے، کیونکہ کتب موضوعات میں عام طور پر محدثین کرام نے موضوع روایت کا معنی صحیح ہونے کی صورت میں اس کی وضاحت کی ہے، امثلہ کے لیے حافظ سخاوی کی المقاصد الحسنہ، حافظ سیوطی کی اللالئ المصنوعہ فی الاخبار الموضوعہ اور ملا علی قاری رحمہم اللہ کی الأسرار المرفوعہ في الأخبار الموضوعہ ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ذیل میں ان تمام روایات کا مختصر حکم پیش کیا جاتا ہے، جس میں پہلے موضوع اور پھر بے سند روایات کا ذکر کیا جائے گا۔
موضوع اور من گھڑت روایات
روايت نمبر1: "حضرت بلالؓ شین کو سین پڑھا کرتے تھے اور ایک دن ان کو اذان دینے سے روکا گیا تو اس صبح سورج طلوع نہیں ہوا۔"
اس روایت کے بارے میں حافظ سخاوی اور علامہ طاہر پٹنی رحمہما اللہ نے امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں اور علامہ عجلونی رحمہ اللہ نے لا اصل لہ نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ فصیح اللسان تھے۔ لہذا یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے، اسی طرح ایک دن اذان دینےسے روکنے پر سورج طلوع نہ ہونے سے متعلق واقعہ بھی کتبِ احادیث میں کہیں نہیں ملا، اس لیے کسی معتبر سند سے ثبوت کے بغیر اس کو بھی حدیثِ کے طور پر بیان نہ کیا جائے۔
المقاصد الحسنة (ص: 397، الرقم: 582) دار الكتاب العربي – بيروت:
- حديث: سين بلال عند الله شين، قال ابن كثير: إنه ليس له أصل، ولا يصح، وكذا سلف عن المزي في: إن بلالا، من الهمزة، ولكن قد أورده الموفق ابن قدامة في المغني بقوله: روي أن بلالا كان يقول أسهد، يجعل الشين سينا، والمعتمد الأول.
كشف الخفاء للعجلوني (1/ 464، الرقم: 1520) الناشر: مكتبة القدسي، القاهرة:
(سين بلال عند الله تعالى شين) قال ابن كثير ليس له أصل ولا يصح وتقدم في: " أن بلالا لكن قال ابن قدامة في مغنيه: روي أن بلالا كان يقول " أسهد " يجعل الشين سينا والمعتمد الأول فقد ترجمه غير واحد بأنه كان أندى الصوت حسنه، فصيح الكلام، وقال النبي صلى الله عليه وسلم لصاحب رؤيا الآذان عبد الله بن زيد ألق عليه - أي على بلال - الأذان فإنه أندى صوتا منك، ولو كانت فيه لثغة لتوفرت الدواعي على نقلها ولَعَابَها أهل النفاق عليه المبالغون في التنقيص لأهل الإسلام. انتهى، وقال العلامة إبراهيم الناجي في مولده: وأشهد بالله ولله أن سيدي بلالا ما قال أسهد بالسين المهملة قط كما وقع لموفق الدين بن قدامة في مغنيه وقلده ابن أخيه الشيخ ابن عمر شمس الدين في شرح كتابه المقنع، ورد عليه الحفاظ كما بسطته في ذكر مؤذنيه، بل كان بلال من أفصح الناس وأنداهم صوتا.
تذكرة الموضوعات للفتني (ص: 101) الناشر: إدارة الطباعة المنيرية:
في المقاصد «إن بلالا يبدل الشين سينا» قيل اشتهر على ألسنة العوام ولم نره في شيء من الكتاب «سين بلال عند الله شين» قال ابن كثير لا أصل له وقد ترجم غير واحد بأنه كان ندى الصوت حسنه وفصيحه ولو كان فيه لثغة لتوفرت الدواعي على نقلها وعابها أهل النفاق.
روايت نمبر2:"حضرت اویس قرنی ؒ کا اپنے دانت مبارک توڑنے والی روایت"
اس روایت كو سب سے پہلے ’’تذكرة الأولياء(44)‘‘ میں فخر الدین العطار (المتوفی:607ھ) اور پھر علامہ عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے، ان دونوں نے بغیر سند کے اسے نقل کیا ہے، اس کے علاوہ کتبِ احادیث میں اس واقعہ کا ذکر کہیں نہیں ملا۔ اسی لیے ملا علی قاری نے اپنی کتاب ’’المعدن العدني في فضل أويس القرني‘‘ میں نقل کر کے اس کو بے اصل اور شریعت کے خلاف قرار دیتے ہوئے بے وقوف لوگوں کا فعل کہا ہے، کیونکہ اس میں بلاوجہ اپنے اعضاء کو ضائع کرنا ہے، جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی، اسی لیے کبار اور صغار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک صحابی سے یہ فعل ثابت نہیں۔
تذكرة الأولياءلفخر الدين العطار (ص 44):
"ثم قال لهما: أنتما محبّي محمد، فهل كسرتم شياَ من أسنانكم كما كسر سنه عليه السلام؟ قالا: لا. فقال: إني قد كسرت بعض أسناني موافقةً له".
الطبقات الكبرى = لوافح الأنوار في طبقات الأخيارللعلامة عبد الوهاب بن أحمد الشعراني (1/ 24) الناشر: مكتبة محمد مصر:
قال بشر الحافي رضي الله عنه وبلغ من ورع أويس رضي الله عنه أنه جلس في قوصرة من العرى فهذا هو الزهد، وكان رضي الله عنه يقول: لا ينال الناس هذا الأمر حتى يكون الرجل كأنه قتل الناس أجمعين، وقال له رجل أوصني فقال فر إلى ربك قال فمن أين المعاشر؟ فقال إن القلوب يخالطها الشك أتفر إلى الله لدينك وتتهمه في رزقك، وكان رضي الله عنه مشغولا بخدمة والدته فلذلك لم يجتمع برسول الله صلى الله عليه وسلم. وقد روى أنه اجتمع به مرات وحضر معه وقعة أحد وقال: والله ما كسرت رباعيته صلى الله عليه وسلم حتى كسرت رباعيتي، ولا شج وجهه حتى شج وجهي ولا وطئ ظهره حتى وطئ ظهري هكذا رأيت هذا الكلام في بعض المؤلفات.
المعدن العدني في فضل أويس القرني لملا علي القاري (ص: 403):
’’اعلم أن ما اشتهر على ألسنة العامة من أن أويساً قلع جميع أسنانه لشدة أحزانه حين سمع أن سنّ النبي صلى الله عليه وسلم أصيب يوم أحد ولم يعرف خصوص أي سن كان بوجه معتمد، فلا أصلَ له عند العلماء مع أنه مخالف للشريعة الغراء، ولذا لم يفعله أحد من الصحابة الكبراء على أن فعله هذا عبث لايصدر إلا عن السفهاء‘‘.
روايت نمبر3: "حضرت عمر ؓ کے بیٹے کا زنا کرنے سے متعلق واقعہ"
يہ روايت بھی کسی مستند کتاب سے ثابت نہیں ہے، چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی، علامہ طاہر پٹنی اور علامہ شوکانی رحمہم اللہ نے اس پر وضع کا حکم لگاتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کو قصے بیان کرنے والوں نے گھڑا ہے۔
اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة لأبي بكر جلال الدين السيوطي (2/ 165) دار الكتب العلمية – بيروت:
(حدثت) عن أبي محمد هارون بن ظاهر أنبأنا أبو الفضل صالح بن أحمد بن محمد بن صالح في كتابه أنبأنا أبو عبد الله الحسن بن علي حدثنا محمد بن عبيد الأسدي حدثنا محمد بن الصلت حدثنا أبو الأحوص عن سعيد بن مسروق قال: كانت امرأة تدخل على آل عمر ومعها صبي فقال عمر: ما الصبي معك؟ قالت: هو ابنك وقع علي أبو شحمة فهو ابنه فأرسل إليه عمر فأقر فقال عمر لعلي أجلده فضربه عمر خمسين وضربه علي خمسين فأتى به فقال لعمر يا أبت قتلتني فقال إذا لقيت ربك فأخبره أن أباك يقيم الحدود.
موضوع. وضعه القصاص وفي الإسناد من هو مجهول وسعيد بن مسروق من أصحاب الأعمش فأين هو وحمزة.
تذكرة الموضوعات للعلامة طاهرالفتني (ص: 180) الناشر: إدارة الطباعة المنيرية:
حديث «أبي شحمة ولد عمر رضي الله عنه وزناه وإقامة عمر عليه الحد وموته» بطوله لا يصح بل وضعه القصاص.
الفوائد المجموعة للعلامة محمد بن علي الشوكاني (ص: 203) دار الكتب العلمية، بيروت:
حديث: "إن عمر أقام الحد على ولد له يكنى أبا شحمة بعد موته في قصة طويلة. موضوع.
روايت نمبر4: "وطن سےمحبت ایمان کا حصہ ہے۔"
یہ روایت کتب حدیث میں کہیں نہیں ملی، اسی لیے علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ میں اس حدیث کی اصل پر واقف نہیں ہوا، حافظ سخاوی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کے معنی کو صحیح قرار دیا ہے، جب کہ دیگر محدثین نے حافظ سخاوی رحمہ اللہ کے اس قول کو قبول نہیں کیا،بلكہ ایمان اور وطن کی محبت کے تلازم کا انکار کیا ہے اور ایمان کے جز ہونے کی نفی کی ہے، چنانچہ ملا علی قاری رحمہ اللہ "الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة"میں اس کے معنی کے صحیح ہونے کا رد کیا ہے:
الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ( ص:180، رقم:164، ط: دار الأمانة-بيروت):
"حديث: حُبُّ الوطن مِن الإيمان ... قال السخاويُّ: لم أقِفْ عليه، ومعناه صحيحٌ. وقال المناويُّ: ما ادعاه مِن صحّة معناه عجيبٌ؛ إذ لا مُلازمة بين حُبّ الوطن وبين الإيمان".
المقاصد الحسنة، الباب الأول، حرف الحاء المهملة، ص:297، رقم:386، ط: دار الكتاب العربي-بيروت:
"حديث: حُبُّ الوطن مِن الإيمان، لم أقفْ عليه، ومعناه صحيحٌ".
روايت نمبر5: "جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اللہ کو پہچان لیا۔"
اس روایت کو امام رازی رحمہ اللہ نے "التفسيرُ الكبير"میں بغیر کسی سند کے یوں ذکر کیاہے:"(قال عليه الصَّلاة والسَّلام: مَن عرف نفسَه فقد عرف ربَّه) تاہم اِ ن الفاظ کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ثابت نہیں ہے،بلکہ یہ یحی بن معاذ رازی رحمہ اللہ کا قول ہے،چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"إنّه ليس بثابتٍ".(یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے)،حافظ صغانی رحمہ اللہ نے اِسے موضوعات میں شمار کیا ہے،حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے اِ سے باطل اور بے اصل کہاہے،علامہ ابو المظفر سمعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"أنه لا يُعرف مرفوعاً، وإنّما يُحكى عن يحيى بن معاذ الرازي، يعني ِمن قوله".(اِسے مرفوعاً نہیں پہچاناگیا،البتہ اِسے یحی بن معاذ رازی رحمہ اللہ کے قول کی حیثیت سے نقل کیاجاتا ہے)۔ لہذا ثبوت کے بغیر ان الفاظ کی نسبت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں۔
البتہ اس روایت کا بھی معنی صحیح ہے، کیونکہ قرآن کریم میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی تخلیق کے مراحل، بڑھاپا اور موت کے بعد کے حالات ذکر کے نصیحت حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے اور ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:"سنريهم آياتنا في الآفاق وفي أنفسهم[فصلت: 53]" یعنی عنقریب ہم ان کو آفاق میں اور ان کے وجود میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے۔
لہذا اگر کوئی شخص اپنے وجود کے ماضی، حال اور استقبال کی حقیقت کو جان لے تو وہ اپنے پروردگار کو پہچان سکتا ہے۔اس لیے یہ قول معنی کے اعتبار سے درست ہے اور حضور اکرم صلی اللہ کی طرف نسبت کیے بغیر اس کو بیان کرنا جائز ہے۔
المقاصد الحسنة، البابُ الأول، حرف الميم، ص:657، رقم:1149، ط:دار الكتاب العربي-بيروت:
حديث: مَن عرف نفسَه فقد عرف ربَّه، قال أبو المُظفّر ابنُ السَّمعانيُّ: في الكلام على التحسين والتقبيح العقليِّ من القواطع أنّه لا يُعرف مرفوعاً، وإنّما يُحكى عن يحيى بن معاذ الرازي، يعني مِن قوله، وكذا قال النوويَُ: إنّه ليس بثابتٍ".
الموضوعات للصغاني) ص:35، رقم:28) ط:دار المامون للتراث-بيروت:
وَمن الأحاديثِ الموضوعةِ ... قولُهم : (مَن عرف نفسَه فقد عرف ربَّه.
التذكرة في الأحاديث المشتهرة لبدر الدين الزركشي (المتوفى: 794هـ) (ص: 129):
الحديث العاشر من عرف نفسه فقد عرف ربه: قال النووي ليس بثابت وقال الامام ابو المظفر بن السمعاني في القواطع في الكلام على التحسن والتقبيح العقلي هذا لا يثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم وانما هو لفظ محكي عن يحيى بن معاز الرازي.
روايت نمبر6: "عالم کے پیچھے ایک نماز چار ہزار چار سو چالیس نمازوں کے برابر ہے۔"
یہ روایت کتبِ حدیث میں نہیں ملی،اسی لیے حافظ سخاوی اور علامہ شوکانی رحمہم اللہ نے اس روایت کو باطل قرار دیا ہے۔
المقاصد الحسنة للحافظ محمد بن عبدالرحمن السخاوی (ص: 426) الناشر: دار الكتاب العربي – بيروت:
629 - حديث: الصلاة خلف العالم بأربعة آلاف وأربعمائة وأربعين صلاة، هو باطل كما قال شيخنا، وللديلمي من حديث البراء رفعه: الصلاة خلف رجل ورع مقبولة.
الفوائد المجموعة للشوكاني (ص: 286) الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت:
48 - حديث: "الصلاة خلف العالم بأربعة آلاف وأربعمائة وأربعين صلاة۔ هو باطل.
روايت نمبر7: "علم حاصل کرو ، چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔"
یہ روایت بھی کسی معتبر سند سے ثابت نہیں، كيونكہ یہ روایت مختلف طرق سے مروی ہے اوراس کے ہر طریق میں کذاب یا شدید الضعف راوی موجود ہے، اسی لیے امام ابوبکر بزار اورحافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اس روایت کو باطل اور لا اصل لہ کہا ہے، ان کے بعد حافظ ذہبی، حافظ سخاوی اور علامہ محمد بن طاہر پٹنی وغیرہ نے امام ابن حبان رحمہ اللہ کا کلام نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے۔ لہذا جب تک یہ روایت کسی معتبر سند سے ثابت نہ ہو اس کی رسول اللہ ﷺ کی طرف نسبت کرنا درست نہیں۔ البتہ اس روايت کا معنی صحیح ہے، جیسا کہ علامہ سخاویؒ نے امام اسحاق بن راہویہؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کا معنی صحیح ہے اور اس سے فرائض و واجبات یعنی نماز، روزہ زکوۃ اور حج وغیرہ کا علم مراد ہے، چنانچہ عبارات ملاحظہ فرمائیں:
(المقاصد الحسنة،ص: 121، رقم الحديث: 125، دار الكتاب العربي)
حديث (اطلبوا العلم ولو بالصين فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم» البيهقي في الشعب والخطيب في الرحلة وغيرها وابن عبد البر في جامع العلم والديلمي كلهم من حديث أبي عاتكة طريف بن سلمان وابن عبد البر وحده من حديث عبيد بن محمد عن ابن عيينة عن الزهري كلاهما عن أنس مرفوعا به وهو ضعيف من الوجهين بل قال: ابن حبان إنه باطل، لا أصل له، وذكره ابن الجوزي في الموضوعات.
(تلخيص كتاب الموضوعات لشمس الدين الذهبي، رقم الحديث: 110):
حديث «اطلبوا العلم ولو بالصين»رواه جماعة عن الحسن بن عطية عن أبي عاتكة عن أنس قال ابن حبان: هذا باطل وأبو عاتكة طريف واهٍ.
ذخيرة الحفاظ (1/ 416) الناشر: دار السلف – الرياض:
حديث: اطلبوا العلم ولو بالصين؛ فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم. رواه طريف بن سلمان أبو عاتكة: عن أنس. وطريف منكر الحديث، قاله البخاري. ورواه أحمد بن عبد الله الجويباري: عن الفضل بن موسى، عن - محمد بن عمرو، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة. وهذا باطل، والجويباري كذاب.
(المقاصد الحسنة، ص: 442، دار الكتاب العربي):
قال إسحاق بن راهويه: إنه لم يصح أما معناه فصحيح في الوضوء والصلاة والزكاة إن كان له مال وكذا الحج وغيره.
التيسير بشرح الجامع الصغيرلعدالرؤوف المناوي (1/ 329):
(اطلبوا العلم) أي الشرعي علي وجهه المشروع ( ولو بالصين ) مبالغة في البعد ( فإنّ طلب العلم فريضة على كل مسلم» وهو العلم الذي لا يعذر المكلف في الجهل به والعلم ستة أقسام فرض كفاية إذا قام به البعض سقط الحرج عن الكل وإلا أثم الكل وفرض عين وهو ما يحتاجه المكلف في الفرض كوضوء وصلاة وصوم.
روايت نمبر8: "آسمان سے اتارے جانے والے دو فرشتے ہاروت و ماروت اور زہرہ نامی خاتون کا قصہ"
یہ قصہ بھی کسی معتبر سند سے ثابت نہیں، اس کے ایک طریق کو علامہ بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں ذکر کیا ہے اور اس طریق میں محمد بن یونس نامی راوی متہم بالوضع ہے، اس لیے اس طریق کا بھی اعتبار نہیں، اس لیے مفسرین نے اس قصہ کا رد کیا ہے۔
"شعب الإيمان" للبيهقي (1 /440-411،الرقم:161) :
من طريق محمد بن يونس بن موسى، حدثنا عبد الله بن رجاء، حدثنا سعيد بن سلمة، عن موسى بن جبير، عن موسى بن عقبة، عن سالم، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - … ، فذكره وبطوله ... قلت: الراوي عن عبد الله بن رجاء هو محمد بن يونس بن موسى الكديمي، وهو متهم بوضع الحديث."
روايت نمبر9: "ماہ صفر یا ماہ رمضان کی بشارت دینے پر جنت کی بشارت دینا"
ایسی کوئی حدیث کسی معتبر سند سے ثابت نہیں، چنانچہ علامہ قزوینی اور ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو بے اصل قرار دیا ہے۔
مشيخة القزويني لعمر بن علي القزويني، أبو حفص، سراج الدين (ت:٧٥٠هـ) (ص:106):
"وقد يكون الحديث قد اشتهر أمره في الدنيا ولا أصل له، وشهرته لكثرة إيراد القصاص له، كقولهم ... «من بشرني ... بخروج صفرٍ - بشرته بالجنة».
الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة لعلي بن (سلطان) محمد نور الدين الملا الهروي القاري (ت:١٠١٤هـ) (ص:337):
"حديث: «من بشّرني بخروج صفر بشرته بالجنة» لا أصل له."
روايت نمبر10: "حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر جھک جانے میں عزت کم ہو تو قیامت کے دن مجھ سے لے لینا۔"
ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت کسی کتاب میں نہیں ملی، البتہ صحیح مسلم میں ایک اور حدیث موجود ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو بندہ تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا مرتبہ بلند فرماتے ہیں۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تواضع اختیار کرنے اور جھک جانے سے عزت کم نہیں ہوتی۔
( الصحیح لمسلم، کتاب البر والصلة، باب استحباب العفووالتواضع، رقم الحدیث: ۲۵۸۸، ط: دارالفکر بیروت، لبنان)
« عن ابی هریرة عن رسول الله صلی الله علیه وسلم قال: مانقصت صدقة من مال ومازاد الله عبدا بعفو الاعزا وماتواضع احد لله إلارفعه الله».
روايت نمبر11:"حديث قدسی ہے کہ میں ایک چھپا ہواخزانہ تھا،میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، سو میں نے کائنات کو پیدا کیا۔"
یہ روایت بھی کتب حدیث سے ثابت نہیں، چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہے، پھر اسی بات کو امام زرکشی، حافظ ابن حجر عسقلانی، حافظ سخاوی اور علامہ عجلونی رحمہم اللہ وغیرہ نے نقل کر کے اس کے حدیث ہونے کی نفی کی ہے۔لہذا بغیر کسی معتبر سند کے اس کی نسبت حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں۔
الفتاوى الكبرى لابن تيمية (5/ 88) أضواء السلف، الرياض، المملكة العربية السعودية:
وما يروونه: «كنت كنزا لا أعرف فأحببت أن أعرف فخلقت خلقا فعرفتهم بي فبي عرفوني» . هذا ليس من كلام النبي - صلى الله عليه وسلم - ولا أعرف له إسنادا صحيحا ولا ضعيفا.
المقاصد الحسنة (الباب الأول، حرف الكاف، ص:521، الرقم: 838، ط: دار الكتاب العربي – بيروت):
"حديث: كنت كنزا لا أعرف، فأحببْت أن أعرف فخلقت خلقا، فَعرّفْتهم بِي فعرفونِي ، قال ابن تيمية: إنه ليس من كلام النبي صلى الله عليه وسلم، ولا يعرف له سند صحيح ولا ضعيف، وتبعه الزركشي وشيخنا".
كشف الخفاء للعجلوني (2/ 155، الرقم: 2016) الناشر: المكتبة العصرية:
كنت كنزا لا أعرف فأحببت أن أعرف فخلقت خلقًا، فعرفتهم بي؛ فعرفوني. وفي لفظ: "فتعرفت إليهم فبي عرفوني"؛ قال ابن تيمية: ليس من كلام النبي صلى الله عليه وسلم، ولا يعرف له سند صحيح ولا ضعيف.
روايت نمبر12: "زنا قرض ہے ، اگر تو نے اسے لیا تو ادا تیرے گھر والوں سے ہوگا۔ "
یہ روایت بھی کتبِ حدیث سے ثابت نہیں، نیز یہ اصولِ شریعت کے بھی خلاف ہے، کیونکہ شرعا کسی ایک انسان کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالا جاتا، اسی لیے علامہ ابن جوزی، علامہ سیوطی، علامہ طاہر پٹنی اور علامہ شوکانی رحمہم اللہ نے اس کو موضوع اور باطل قرار دیا ہے۔
الموضوعات لابن الجوزي (3 / 85) المكتبة السلفية بالمدينة المنورة:
عن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بروا آباؤكم تبركم أبناؤكم، وعفوا تعف نساؤكم، ومن تنصل إليه فلم يقبل فلن يرد على الحوض ".هذا حديث لا يصح."
تذكرة الموضوعات للعلامة طاہر لفتني (ص: 179) إدارة الطباعة المنيرية:
وفي اللآلئ المصنوعة (للسيوطي )لا يصح «المرأة لعبة زوجها فإن استطاع أن يحسن لعبته فليفعل» وقال لا تزنوا [ص:180] فتذهب لذة نسائكم وعفوا تعف نساؤكم إن بني فلان زنوا فزنت نساؤهم «لا يصح قلت له شاهد للحاكم» ما زنى عبد قط فأدمن على الزنا إلا ابتلي في أهله" فيه كذاب.
«بروا آباءكم تبركم أبناؤكم وعفوا تعفّ نساؤكم ومن تنصل إليه فلم يقبل فلن يرد على الحوض» فيه كذاب: قلت له طرق «من زنى بيهودية أو نصرانية أحرقه في قبره» قال أبو زرعة باطل موضوع.
الفوائد المجموعة للشوكاني (ص: 202) دار الكتب العلمية، بيروت:
حديث: "لا تزنوا فيذهب لذة نسائكم وعفوا تعف نساؤكم إن بني فلان زنوا فزنت نساؤهم. قال في اللآلىء المصنوعة : لا يصح وله شاهد عند الحاكم: ما زنى عبد قط فأدمن على الزنا إلا ابتلي في أهله. وفي إسناده: كذاب.
روايت نمبر13: "حضرت بلال ؓ کا نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھ کر دمشق سے مدینہ آنا ، پھر اذان دینا اور مدینہ والوں کی آہ و بکا کرنا"
اس واقعہ کو امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے تاریخِ دمش میں ابراہیم بن محمد بن سلمان کے ترجمہ میں نقل کیا ہے، ان کے بعد علامہ سیوطى رحمہ اللہ نے اپنى کتاب "الزیادات على الموضوعات" میں ابن عساکر کے حوالے سے نقل کیاہے،حافظ ذہبى رحمہ اللہ نے "میزان الاعتدال" میں اس رایت کے راوى ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال بن ابی الدرداء کو مجہول قرار دیا ہے، نیز حافظ ابن حجر عسقلانى رحمہ اللہ نے "لسان المیزان" میں اسى راوى کے تذکرے میں فرمایا ہے کہ ابن عساکر نے اس راوى (ابراہیم بن محمد بن سلیمان بن بلال بن أبی الدرداء) کا تذکرہ کر کے انہى کى سند سے روایت میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا شام سے مدینہ جانا اور وہاں اذان دینے پر مدینہ کا لوگوں کى آہ وبکا سے گونجنے کا قصہ نقل کیا ہے، جبکہ یہ قصہ واضح طور پر "موضوع" (من گھڑت) ہے۔
نیز علامہ ابن عراق الکنانى رحمہ اللہ (م 963) نے "تنزیہ الشریعۃ" میں مذکورہ بالا تفصیلات کو امام سیوطى رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کر کے اس قصہ کےموضوع ہونے میں ان کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔
تاريخ دمشق لابن عساكر: 7/ 136، ط: دار الفكر-بيروت:
أنبأنا أبو محمد بن الأكفاني نا عبد العزيز بن أحمد انا تمام بن محمد نا محمد بن سليمان نا محمد بن الفيض نا أبو إسحاق إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء حدثني أبي محمد بن سليمان عن أبيه سليمان بن بلال عن أم الدرداء عن أبي الدرداء قال لما دخل عمر بن الخطاب
الجابية سأل بلال أن يقدم الشام ففعل ذلك قال وأخي أبو رويحة الذي أخى بينه وبيني رسول الله صلى الله عليه وسلم فنزل داريا في خولان فأقبل هو وأخوه إلى قوم من خولان فقال لهم قد جئناكم خاطبين وقد كنا كافرين فهدانا الله ومملوكين فأعتقنا الله وفقيرين فأغنانا الله فأن تزوجونا فالحمد لله وأن تردونا فلا حول ولا قوة إلا بالله فزوجوهما ثم إن بلالا رأى في منامه النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول له (ما هذه الجفوة يا بلال أما ان لك أن تزورني يا بلال فانتبه حزينا وجلا خائفا فركب راحلته وقصد المدينة فأتى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فجعل يبكي عنده ويمرغ وجهه عليه وأقبل الحسن والحسين فجعل يضمهما ويقبلهما فقالا له يا بلال نشتهي نسمع اذانك الذي كنت تؤذنه لرسول الله صلى الله عليه وسلم في السحر ففعل فعلا سطح المسجد فوقف موقفه الذي كان يقف فيه فلما أن قال (الله أكبر الله أكبر ارتجت المدينة فلما أن قال (أشهد أن لا إله إلا الله) زاد تعاجيجها فلما أن قال (أشهد أن محمدا رسول الله) خرج العواتق من خدورهن فقالوا أبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم فما رئي يوم أكثر باكيا ولا باكية بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك اليوم.
الزيادات على الموضوعات لجلال الدين عبد الرحمن بن أبي بكر السيوطي (407/1):
"قال في (الميزان): إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء فيه جهالة. قال في (اللسان): ترجم له ابن عساكر ثم ساق مِن روايته عن أبيه عن جده عن أمِّ الدرداء عن أبي الدرداء في قصة رحيل بلال إلى الشام وفي قصة مجيئه إلى المدينة وأذانه بها وارتجاج المدينة بالبكاء لأجل ذلك، وهي قصة بيِنة الوضع."
تنزيه الشريعة لابن عراق الكناني (كتاب الصلاة/ الفصل الثالث،2/ 118، رقم الحديث (113)، ط: دار الكتب العلمية):
ذكر السيوطي هذا الأثر في "الزيادات على الموضوعات"
(كتاب الصلاة،1/ 406، رقم الحديث (481)، ط: مكتبة المعارف) عزوا لابن عساكر، وقال: قال في (الميزان) : إبراهيم بن محمد بن سليمان بن بلال بن أبي الدرداء، فيه جهالة. قال في (اللسان) : ترجم له ابن عساكر ثم ساق مِن روايته عن أبيه عن جده عن أمِّ الدرداء عن أبي الدرداء في قصة رحيل بلال إلى الشام وفي قصة مجيئه إلى المدينة وأذانه بها وارتجاج المدينة بالبكاء لأجل ذلك، وهي قصة بيِّنة الوضع، انتهى".
التاريخ الأوسط للبخاري: (رقم الحدیث: 165، 139/1، ط: دار الصميعي):
حدثنا عبد الله قال حدثنا محمد قال حدثنا يحيى بن بشر قال ثنا قراد أنا هشام بن سعد عن زيد بن أسلم عن أبيه قال قدمنا الشام مع عمر فأذن بلال فذكر الناس النبي صلى الله عليه وسلم فلم أر يوما أكثر باكيا منه.
الصارم المنكي في الرد على السبكي (ص: 237) مؤسسة الريان، بيروت:
ولا يخفى عنهم هذه القصة، ومنام بلال ورؤياه للنبي الذي لا يتمثل به الشيطان، وليس فيه ما يخالف ما ثبت في اليقظة فيتأكد به فعل الصحابي، انتهى ما ذكره المعترض.
والجواب أن يقال: هذا الأثر المذكور عن بلال ليس بصحيح عنه ولو كان صحيحاً عنه لم يكن فيه دليل على محل النزاع.
روايت نمبر14: حضوراکرمﷺ کا دعا فرمانا کہ میری امت کا حساب میرے حوالے فرما دیجیے، تاکہ میری امت کو دوسری امت کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔
اس روایت کو علامہ سیوطی اور علامہ طاہر پٹنی رحمہما اللہ موضوع روایات میں ذکر کیا ہے، کیونکہ اس میں محمد بن ایوب نامی راوی ہے، جس پر کذاب ہونے کا حکم لگایا گیا ہے اور ایسے راوی کی روایت موضوع شمار ہوتی ہے۔
ذيل اللآلي المصنوعة، ، تحقيق: رامز خالد حاج حسن، الطبعة الأولى، 1431ھ-2010م( 708/2، الرقم: 872) مكتبة المعارف، الرياض:
قال ابن النجار: كتب إلي يوسف بن هبة الله الدمشقي، أخبرنا أبو القاسم محمود بن الفرج بن أبي القاسم المقرئ الكرخي، أخبرنا أبو حفص عمر بن أبي بكر المقرئ، أخبرنا أبو الصفا تامر بن علي، أخبرنا أبو منصور محمد بن علي بن محمد الأصبهاني المذكر، أخبرنا محمد بن أحمد بن إبراهيم القاضي، حدثنا محمد بن أيوب الرازي، حدثنا القعنبي عن سلمة بن وردان عن ثابت البناني عن أنس مرفوعا: ليلة أسري بي إلى السماء سألت الله عز وجل فقلت: إلهي وسيدي،
اجعل حساب أمتي على يدي؛ لئلا يطلع على عيوبهم أحد غيري. فإذا النداء من العلي : يا أحمد إنهم عبادي لا أحب أن أطلعك على عيوبهم. فقلت: إلهي وسيدي ومولاي، المذنبون من أمتي. فإذا النداء من العلي: يا أحمد إذا كنت أنا الرحيم، وكنت أنت الشفيع، فأين تبين المذنبون بيننا؟. فقلت: حسبي حسبي. محمد بن أيوب الرازي كذاب".
تذكرة الموضوعات للفتني (ص: 227) الناشر: إدارة الطباعة المنيرية:
وفي الذيل «ليلة أسري بي سألت الله عز وجل فقلت إلهي وسيدي اجعل حساب أمتي على يدي لئلا يطلع على عيوبهم أحد غيري فإذا النداء من العلي يا أحمد إنهم عبادي لا أحب أن أطلعك على عيوبهم فقلت إلهي وسيدي ومولاي المذنبون من أمتي فإذا النداء من العلي يا أحمد إذا كنت أنا الرحيم وكنت أنت الشفيع فأين تبين المذنبون فقلت حسبي حسبي» فيه محمد بن أيوب كذاب.
روايت نمبر15: "اللہ تعالیٰ کا نبی کریم ﷺ کو معراج کے موقع پر فرمانا کہ آپ ﷺ جوتوں سمیت عرش پر آجائیں۔"
یہ روایت بھی کتب حدیث میں کہیں نہیں ملی، چنانچہ علامہ عبدالحي لکھنوی رحمہ اللہ نے اس کو موضوع قرار دیا ہے۔
الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة للشیخ عبد الحي بن محمد الأنصاري اللكنوي الهندي، أبو الحسنات (ت:١٣٠٤هـ) (ص:37):
"ولنذكر ههنا بعض القصص التي أكثر وعاظ زماننا ذكرها في مجالسهم الوعظية، وظنوها أمورا ثابتة مع كونها مختلقة موضوعة. فمنها، ما يذكرون من أن النبي لما أسري به ليلة المعراج إلى السموات العلى ووصل إلى العرش المعلى، أراد خلع نعليه أخذا من قوله تعالى لسيدنا موسى حين كلمه: {فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (12)} [طه: 12]. فنودي من العلي الأعلى: يا محمد! لا تخلع نعليك؛ فإن العرش يتشرف بقدومك متنعلا، ويفتخر على غيره متبركا، فصعد النبي إلى العرش وفي قدميه النعلان، وحصل له بذلك عز وشأن. وقد ذكر هذه القصة جمع من أصحاب المدائح الشعرية وأدرجها بعضهم في تأليف السنية وأكثر وعاظ زماننا يذكرونها مطولة ومختصرة في مجالسهم الوعظية. وقد نص أحمد المقري المالكي في كتابه: فتح المتعال في مدح خير النعال، والعلامة رضي الدين القزويني، ومحمد بن عبد الباقي الزرقاني في شرح المواهب اللدنية على أن هذه القصة موضوع بتمامها."
روايت نمبر16: "آپ ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے رب تعالیٰ میری نماز ِجنازہ پڑھیں گے"
اس روایت کو امام طبرانی اور امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، البتہ اس کی سند میں عبدالمنعم بن ادریس نامی راوی پر محدثین کرام نے شدید جرح کی ہے،چنانچہ امام ابن معین رحمہ اللہ نے اس کو کذاب کہا، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ وہب بن منبہ رحمہ اللہ پر حدیثیں گھڑتا تھا، امام ابن حبان رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ احادیث گھڑا کرتا تھا، ، اسی لیے علامہ ابن جوزی اور علامہ سیوطی رحمہما اللہ وغیرہ نے اس روایت کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔
اس کے ایک اور طریق کو امام بزار رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے، اس میں أشعث بن طابق نامی راوی کی وجہ سے امام بزار رحمہ اللہ نے اپنی کتاب العلل میں اس پر موضوع کا حکم لگایا ہے۔ جس کو امام ابن ملقن رحمہ اللہ نے اپنی کتاب البدر المنیر میں بھی نقل کیا ہے، نیز علامہ نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ نے امام ازدی رحمہ اللہ کے حوالے سے نقل کیا کہ اس راوی کی حدیث صحیح نہیں ہے۔خلاصہ یہ کہ یہ روایت فنی اعتبار سے موضوع ہے اور بغیر کسی معتبر سند کے اس کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا درست نہیں۔
المعجم الكبير للطبراني (3/ 58، الرقم: 2676) مكتبة ابن تيمية – القاهرة:
حدثنا محمد بن أحمد بن البراء، ثنا عبد المنعم بن [ص:59] إدريس بن سنان، عن أبيه، عن وهب بن منبه، عن جابر بن عبد الله، وعبد الله بن عباس في قول الله عز وجل: {إذا جاء نصر الله والفتح، ورأيت الناس يدخلون في دين الله أفواجا، فسبح بحمد ربك واستغفره إنه كان توابا}..................فقال النبي ﷺ: یا علي! أما الغسل فاغسلني أنت، والفضل بن عباس یصب علیك الماء وجبریل عليه السلام ثالثکما، فإذا أنتم فرغتم من غسلي فکفنوني في ثلاثة أثواب جدد، وجبریل عليه السلام یأتني بحنوط من الجنة، فإذا أنتم وضعتموني علی السریر فضعوني في المسجد واخرجوا عني،فإن أوّل من یصلی علي الرب عز وجلّ من فوق عرشه ثم جبریل عليه السلام ثم کائیل ثم إسرافیل عليهما السلام ثم الملائكة زمرًا زمرًا، ثم ادخلوا فقوموا صفوفًا لا یتقدم علي أحد»
کتاب الموضوعات لابن الجوزي(1/295)المكتبة السلفية بالمدينة المنورة:
"هذا حدیث موضوع محال، کافأ الله من وضعه وقبح من یشین الشریعة بمثل هذا التخلیط البارد والکلام الذی لایلیق بالرسول صلی الله علیه وسلم ولا بالصحابة، والمتهم به عبد المنعم بن إدریس، قال أحمد بن حنبل: کا ن یکذب علی وهب، وقال: یحیی: کذاب خبیث، وقال ابن المدیني وأبوداود: لیس بثقة، وقال ابن حبان: لایحل الاحتجاج به، وقال الدارقطني: هو وأبوه متروکان".
اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة (1/ 257) دار الكتب العلمية – بيروت:
وإن أول من يصلي علي الرب عز وجل من فوق عرشه ثم جبريل ثم ميكائيل ثم إسرافيل ثم الملائكة زمرا زمرا ثم ادخلوا فقوموا صفوفا لا يتقدم علي واحد فقالت فاطمة اليوم الفراق فمتى ألقاك فقال لها يا بنية تلقيني يوم القيامة عند الحوض وأنا أسقي من يرد علي الحوض من أمتي .............لآن انقطع عنا جبريل وكان جبريل يأتينا بالوحي من السماء، موضوع: آفته عبد المنعم.
البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير لابن الملقن سراج الدين أبو حفص عمر بن علي بن أحمد الشافعي المصري (ت:٨٠٤ھ) (276/5):
"هو حديث طويل في (ثلاث) أوراق، فيه قصة عكاشة، لكنه ضعيف، ثم عبد المنعم متروك، قال أحمد: يكذب على وهب وعلى غيره، متروك. ووالده ضعفه ابن عدي، قال ابن دحية في «تنويره»: حكى البزار والطبري أنه - عليه السلام - قال: «أول (من) يصلي (علي) رب العزة … » في حديث طويل، كرهت أن أذكره؛ لأن البزار قال في «علله» : إنه موضوع."
مجمع الزوائد ومنبع الفوائد (9/ 25) نور الدين علي بن أبي بكر بن سليمان الهيثمي (المتوفى: 807هـ) مكتبة القدسي، القاهرة:
فاخرجوا عني ساعة ; فإن أول من يصلي علي خليلي وجليسي جبريل - صلى الله عليه وسلم - ثم ميكائيل، ثم إسرافيل، ثم ملك الموت مع جنوده، ثم الملائكة صلى الله عليهم بأجمعها، ثم ادخلوا علي فوجا فوجا، فصلوا علي وسلموا تسليما، ولا تؤذوني بباكية - أحسبه قال: - ولا صارخة، ولا رانة، وليبدأ بالصلاة علي رجال أهل بيتي، ثم أنتم بعد، وأقرءوا أنفسكم مني السلام، ومن غاب من إخواني فأقرئوه مني السلام، ومن دخل معكم في دينكم بعدي فإني أشهدكم أني أقرأ السلام - أحسبه قال: - عليه، وعلى كل من تابعني على ديني، من يومي هذا إلى يوم القيامة ". قلنا: يا رسول الله، فمن يدخلك قبرك منا؟ قال: " رجال أهل بيتي، مع ملائكة كثيرة يرونكم من حيث لا ترونهم».
رواه البزار، وقال: روي هذا عن مرة، عن عبد الله، من غير وجه، والأسانيد عن مرة متقاربة. وعبد الرحمن لم يسمع هذا من مرة، إنما أخبره عن مرة، ولا نعلم رواه عن عبد الله غير مرة، قلت: رجاله رجال الصحيح غير محمد بن إسماعيل بن سمرة الأحمسي، وهو ثقة. ورواه الطبراني في الأوسط بنحوه، إلا أنه قال: قبل موته بشهر. وذكر في إسناده ضعفاء منهم: أشعث بن طابق. قال الأزدي: لا يصح حديثه. والله أعلم.
روايت نمبر17: "مومن کے جھوٹے میں شفاء ہے ۔"
یہ روایت بھی کسی صحیح سند سے ثابت نہیں، اسی لیے حافظ سخاوی اور ملا علی قاری رحمہما اللہ اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے، البتہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اس کے معنی کو ایک اور روایت کی وجہ سے صحیح قرار دیا ہے اور وہ روایت یہ ہے کہ آدمی کا اپنے بھائی کا جھوٹا پیناتواضع کی علامت ہے۔ اس روایت کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔
المقاصد الحسنة لشمس الدين أبي الخير محمد بن عبد الرحمن بن محمد السخاوي (ت:92ھ) (ص:373):
"أما ما على الألسنة من أن: «سؤر المؤمن شفاء»، ففي الأفراد للدارقطني من حديث نوح ابن أبي مريم، عن ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس رفعه من التواضع أن يشرب الرجل من سؤر أخيه."
الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة لعلي بن (سلطان) محمد، أبو الحسن نور الدين الملا الهروي القاري (ت:١٠١٤ھ) (ص:209):
"وأما ما يدور على الألسنة من قولهم: «سؤر المؤمن شفاء»، فصحيح من جهة المعنى لرواية الدارقطني في الأفراد من حديث ابن عباس مرفوعا: «من التواضع أن يشرب الرجل من سؤر أخيه أي المؤمن».
روايت نمبر18: "ابو بکرصدیق ؓ کا ٹاٹ کا لباس پہننا اور باری تعالیٰ کی جانب سے ان پر سلام بھیجنا"
یہ روایت مختلف طرق سے مروی ہے اور ہر طریق پر ائمہ کرام رحمہم اللہ نے شدید کلام کیا ہے، چنانچہ حافظ ذہبی اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ نے اس قصے کو جھوٹ قرار دیا، نیز حافظ عراقی رحمہ اللہ نے بھی احیاء علوم الدین کی تخریج میں اس واقعہ کو جھوٹ قرار دیا ہے۔
ميزان الاعتدال (3/ 103) الناشر: دار المعرفة للطباعة والنشر، بيروت:
عن أبي إسحاق الفزاري، عن سفيان، عن آدم بن علي، عن ابن عمر، قال: بينما النبي صلى الله عليه وسلم جالس وعنده أبو بكر عليه عباء قد خللها على صدره بخلال إذ نزل جبرائيل فأقرأه من الله السلام، وقال: ما لي أرى أبا بكر عليه عباء قد خللها. قال: يا جبرائيل أنفق ماله على. قال: فأقرأه من الله السلام، وقل له: يقول لك ربك: أراض أنت عنى في فقرك أم ساخط؟ وذكر الحديث. وهو كذب.
لسان الميزان (4/ 185)مؤسسة الأعلمي للمطبوعات بيروت:
عن أبي إسحاق الفزاري عن سفيان عن آدم بن علي عن ابن عمرو رضي الله عنهما قال بينما النبي صلى الله عليه وآله وسلم جالس وعنده أبو بكر عليه عباء قد خللها على صدره بخلال إذ نزل جبرائيل فاقرأه من الله السلام فقال ما لي أرى أبا بكر عليه عباء قد خللها قال يا جبرائيل: "أنفق ماله علي" قال فاقرأه من الله السلام وقل له يقول لك ربك أراض عني أنت في فقرك أم ساخط وذكر الحديث وهو كذب انتهى وبقية الحديث فبكى أبو بكر.
تخريج أحاديث الإحياء = المغني عن حمل الأسفار (ص: 621) دار ابن حزم، بيروت:
حديث ابن عمر "بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس وعنده أبو بكر وعليه عباءة قد خللها على صدره بخلال إذ نزل جبريل عليه السلام فأقرأه عن الله السلام وقال له: يا رسول الله ما لي أرى أبا بكر عليه عباءة قد خللها على صدره بخلال؟ فقال: أنفق ماله علي قبل الفتح، قال: فأقرئه من الله السلام وقل له يقول لك ربك أراض أنت عني في فقرك هذا أم ساخط؟ قال: فالتفت النبي صلى الله عليه وسلم إلى أبي بكر وقال: يا أبا بكر هذا جبريل يقرئك السلام من الله ويقول أراض أنت عني في فقرك هذا أم ساخط؟ قال: فبكى أبو بكر رضي الله عنه وقال: أعلى ربي أسخط أنا عن ربي راض"أخرجه ابن حبان والعقيلي في الضعفاء، قال الذهبي في الميزان: هو كذب.
روايت نمبر19: "ایک بڑھیا جس کی خدمت ابو بکر صدیق ؓ کئی سال کرتے رہے"
یہ روایت بھی کسی معتبر سند سے ثابت نہیں، اس کو امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے تاریخ دمشق میں نقل کیا ہے، اس کی سند میں رشدین بن سعد نامی شخص پر شدید جرح کی گئی ہے اور امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے خود اس کو متروک الحدیث قرار دیا ہے، اس لیے یہ روایت اصولِ حدیث کی روشنی میں انتہائی ضعیف اور اس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا جائز نہیں۔
تاريخ دمشق لابن عساكر (30/ 322) دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع:
أنا أبو بكر الخطيب حدثني الحسن بن علي بن محمد الواعظ نا أبو نصر إسحاق بن أحمد بن شبيب البخاري نا أبو الحسن نصر بن أحمد بن إسماعيل بن سائح بن قوامة ببخارا أنا جبريل بن مجاع الكمشاني بها نا قتيبة نا رشدين عن الحجاج بن شداد المرادي عن أبي صالح الغفاري أن عمر بن الخطاب كان يتعاهد عجوزا كبيرة عمياء في بعض حواشي المدينة من الليل فيستقي لها ويقوم بأمرها فكان إذا جاءها وجد غيره قد سبقه إليها فأصلح ما أرادت فجاءها غير مرة كيلا يسبق إليها فرصده عمر فإذا هو بأبي بكر الصديق الذي يأتيها وهو يومئذ خليفة فقال عمر أنت هو لعمري. رشدین بن سعد: متروک.
أسد الغابة (3/ 325) الناشر: دار الكتب العلمية:
قال: وأخبرنا أبي، أخبرنا أبو القاسم الواسطي، أخبرنا أبو بكر الخطيب، حدثني الحسن بن علي بن محمد الواعظ، حدثنا أبو نصر إسحاق بن أحمد بن شبيب البخاري، حدثنا أبو الحسن نصر بن أحمد بن إسماعيل بن سايح بن قوامة، ببخارى، أخبرنا جبريل بن منجاع الكشاني بها، حدثنا قتيبة، حدثنا رشدين، عن الحجاج بن شداد المرادي، عن أبي صالح الغفاري، أن عمر بن الخطاب كان يتعاهد عجوزا كبيرة عمياء، في بعض
حواشي المدينة من الليل، فيستقي لها ويقوم بأمرها، فكان إذا جاء وجد غيره قد سبقه إليها، فأصلح ما أرادت، فجاءها غير مرة كيلا يسبق إليها، فرصده عمر، فإذا هو بأبي بكر الصديق الذي يأتيها، وهو يومئذ خليفة، فقال عمر: أنت هو لعمري.
روايت نمبر20: "ایک عورت اپنے ساتھ چار مردوں باپ ، شوہر ، بھائی اور بیٹے کوجہنم لے کر جائے گی۔"
یہ روایت کتبِ حدیث میں کہیں نہیں ملی، لہذا اس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا درست نہیں۔
روايت نمبر21: "جس شخص کے یہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کا نام برکت حاصل کرنے کے لئے محمد رکھے تو وہ بچہ اور اس کا والد دونوں جنت میں جائیں گے۔"
یہ روایت بھی یہ روایت کتبِ حدیث میں کہیں نہیں ملی، چنانچہ ملا علی قاری اور محمد بن خلیل طرابلسی رحمہما اللہ نے اس کو موضوع قرار دیا ہے، لہذا اس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا درست نہیں۔
الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة : (۱ /۴۳۵،ط:مؤسسۃ الرسالۃ بیروت):
"وحديث: "من ولد له مولود فسماه محمدًا تبركًا كان هو و والده في الجنة"، وحديث: "ما من مسلم دنا من زوجته وهو ينوي إن حبلت منه أن يسميه محمدًا إلا رزقه الله ولدًا ذكرًا"، وفي ذلك جزء كله كذب".
اللؤلؤ المرصوع فيما لا أصل له أو بأصله موضوع لمحمد بن خليل بن إبراهيم، أبو المحاسن القاوقجي الطرابلسي الحنفي (المتوفى: 1305هـ) (ص: 202) الناشر: دار البشائر الإسلامية – بيروت:
حديث: من ولد له مولود فسماه محمدا تبركا كان هو وولده في الجنة. موضوع.
روايت نمبر22: "اپنی اولاد کو رونے پر مت مارو ،کیوں کہ بچہ کا رونا چار مہینہ لا الہ الا اللہ ہے، اور چار مہینہ تک محمد رسول اللہ(ﷺ) ہے، اور چار مہینہ والدین کے لئے دعا ہے۔"
یہ روایت کتبِ حدیث میں کہیں نہیں ملی، چنانچہ اس کو حافظ ابن حجر اور امام ابن عراق کنانی رحمہما اللہ نے اس کو موضوع قرار دیا ہے، لہذا اس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا درست نہیں۔
لسان الميزان (4/ 191) مؤسسة الأعلمي للمطبوعات بيروت:
عن ابن عمر رضي الله عنهما مرفوعا: "لا تضربوا أولادكم على بكائهم فإن بكاء الصبي أربعة أشهر لا إله إلا الله وأربعة أشهر محمد رسول الله وأربعة أشهر دعاء لوالديه" قال الخطيب منكر جدا ورجاله مشهورون بالثقة إلا على بن إبراهيم البلدي قلت هو موضوع بلا ريب.
تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة لابن عرا ق الكناني (1/ 171) الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت:
[حديث] " لا تضربوا أولادكم على بكائهم فبكاء الصبي أربعة أشهر، شهادة أن لا إله إلا الله، وأربعة أشهر الصلاة على محمد رسول الله، وأربعة أشهر دعاء لوالديه " (خط) من حديث ابن عمر، وقال: منكر جدا ورجاله ثقات سوى أبي الحسن علي بن إبراهيم البلدي، وقال السيوطي: قال الحافظ ابن حجر موضوع بلا ريب وأخرجه ابن النجار والديلمي من طريق أبي مقاتل السمرقندي، وهو واه (قلت) بلى منسوب إلى الكذب والوضع كما مر فلا يصلح تابعا والله أعلم، وأخرج ابن عساكر من طريق محمد بن خزيمة عن هشام بن عمار عن معروف الخياط عن واثلة بن الأسقع " مرفوعا بكاء الصبي إلى سنتين يقول لا إله إلا الله محمد رسول الله، وما كان بعد ذلك فاستغفار لأبويه وما عمل من حسنة فلا بويه، وما عمل من سيئة لم تكتب عليه ولا على أبويه حتى يجري عليه القلم، " قال ابن عساكر غريب جدا.
روايت نمبر23: "بخیل جنت میں نہیں جائے گا اگرچہ وہ عابد ہو، اور سخی جہنم میں نہیں جائے گا اگر چہ وہ فاسق ہو۔"
یہ روایت بھی کتبِ حدیث میں کہیں نہیں ملی،چنانچہ اس کو ملا علی قاری اور محمد بن خلیل طرابلسی رحمہما اللہ نے موضوعات میں شمار کیا ہے، لہذا اس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا درست نہیں۔
الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة (ص: 147)مؤسسة الرسالة – بيروت:
حديث: البخيل عدو الله ولو كان راهبا لا أصل له وكذا لفظالبخيل لا يدخل الجنة ولو كان عابدا والسخي لا يدخل النار ولو كان فاسقا.
اللؤلؤ المرصوع فيما لا أصل له أو بأصله موضوع (ص: 62) لمحمد بن خليل بن إبراهيم، أبو المحاسن القاوقجي (المتوفى: 1305هـ) الناشر: دار البشائر الإسلامية – بيروت:
حديث: البخيل عدو الله ولو كان راهبا. لا أصل له. وكذا: البخيل لا يدخل الجنة ولو عابدا، والسخي لا يدخل النار ولو كان فاسقا.
روايت نمبر24: "ایک گھڑی غور و فکر کرنا ایک سال کی عبادت سے زیادہ بہتر ہے۔ "
اس روایت کو شیخ اصبہانی رحمہ اللہ اور بعض اہل تفسیر نے ذکر کیا ہے، لیکن اس کی سند میں اسحاق بن نجیح نامی راوی پر محدثین کرام نے شدید جرح کی ہے، چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے "أکذب الناس"، امام یحی بن معین رحمہ اللہ نے "معروف بالکذب ووضع الحدیث" اور امام فلاس رحمہ اللہ نے "یضع الحدیث صراحا" کے الفاظ سے جرح کی ہے، اسی لیے اس روایت کو امام ابن جوزی، علامہ سیوطی اور علامہ شوکانی رحمہم اللہ نے اس کو موضوعات میں شمار کیا ہے، لہذان الفاظ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا درست نہیں۔البتہ یہ بعض صوفیاء کا قول ہے،چنانچہ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس کو اپنے مکتوبات کی جلد نمبر چارمیں نقل کیا ہے۔
کتاب العظمة للشيخ الأصبهاني(المتوفى:369ھ) ، ماذکر من الفضل فی التفکر فی ذلک ، رقم الحدیث: ۲۰۴۳، ۱/۲۹۹، ط: دار العاصمۃ ریاض:
"قال: عبد الله بن محمد بن زکریا حدثنا عثمان بن عبد الله القرشی حدثنا اسحاق بن نجیح الملطی حدثنا عطاء الخراسانی عن أبی هریرة رضی الله عنه قال: قال رسول الله ﷺ: "فکرة ساعة خیر من عبادة ستین سنة."
تفسیر روح البیان۸ /۵۹۳، سورة الجاثیة، الآیة: ۱۳، ط: دار احیاء التراث العربی:
"عن المقداد بن الأسود، دخلت علی أبی بکر رضی الله عنه، فسمعته یقول: قال رسول الله ﷺ تفکر ساعة خیر من عبادة سبعین سنة."
ميزان الاعتدال، رقم: 755، 1/205، ط: الرسالة العلمية،بيروت:
إسحاق بن نجيح الملطي عن عطاء الخراساني وابن جريج وغيرهماكنيته أبو صالح. ................. "قال أحمد: هو من أكذب الناس.وقال يحيى: معروف بالكذب ووضع الحديث. وقال النسائي والدار قطني: متروك. وقال الفلاس: كان يضع الحديث صراحا."
اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة (2/ 276) دار الكتب العلمية – بيروت:
قال الديلمي أنبأنا أحمد بن نصر أنبأنا طاهر بن ملة حدثنا صالح بن أحمد حدثنا علي بن إبراهيم القزويني حدثنا إبراهيم بن إسحاق النيسابوري حدثنا محمد بن جعفر الودكاني حدثنا سعيد بن ميسرة سمعت أنس بن مالك يقول: تفكر ساعة في اختلاف الليل والنهار خير من عبادة ألف سنة.
لسان الميزان، رقم: 173، 3/45، ط: دار البشائر الإسلامية:
"سعيد" بن ميسرة البكري البصري أبو عمران عن أنس قال البخاري عنده مناكير وقال أيضا منكر الحديث وقال ابن حبان يروى الموضوعات وقال الحاكم روى عن أنس موضوعات وكذبه يحيى القطان.
الفوائد المجموعة (ص: 251) دار الكتب العلمية، بيروت:
حديث: "تفكر ساعة خير من عبادة سنة. ذكره ابن الجوزي في الموضوعات. وفي رواية لابن حبان: ستين سنة. وفي رواية للديلمي: ثمانين سنة، وفي لفظ: ألف سنة.
روايت نمبر25: "تہمت کی جگہوں سے بچ کے رہو"
یہ روایت کتب حدیث میں مرفوعاً کسی معتبر سند سے نہیں ملی، اسی لیے ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اس کو موضوعات میں شمار کیا اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں لم یوجد کے الفاظ ذکر فرمائے، البتہ اس کا معنی صحیح ہے، چنانچہ اس طرح کی روایت حضرت عمررضی اللہ عنہ سے موقوفاً ثابت ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے آپ کو کسی تہمت کی جگہ میں مبتلا کیا تو وہ اس شخص کو ملامت نہ کرے جو اس کے بارے میں برا گمان کرے۔
نیزمرفوع سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ آپ علیہ السلام اعتکاف میں ایک رات اپنی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو رخصت کرنے کے لیے مسجد کے دروازے تک تشریف لائے تو سامنے سے دو شخص گزرے اور انہوں نے آپ علیہ السلام اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو کھڑے ہوئے دیکھا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو آواز دے کر فرمایا کہ یہ صفیہ بنت حی ہیں۔ اس پر انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم آپ کے بارے میں بدگمانی کریں گے تو آپ صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شیطان انسان کے خون کی رگوں میں چلتا ہے تو مجھے خوف ہوا کہ یہ کہیں آپ دونوں کے دلوں میں کوئی برا خیال نہ ڈال دے۔
اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کو چاہے کہ لوگوں کو تہمت کا موقع نہ دے، بلکہ اس سے دور رہے اور اگر کبھی ایسا موقع آجائے تو اس کی وضاحت کرے۔
الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة (ص: 80) مؤسسة الرسالة – بيروت:
اتقوا مواضع التهم هو معنى قول عمر من سلك مسالك التهم اتهم، رواه الخرائطي في مكارم الأخلاق عن عمر موقوفا بلفظ من أقام نفسه مقام التهم فلا تلومن من أساء الظن به.
الفوائد المجموعة (ص: 251) دار الكتب العلمية، بيروت:
حديث: "اتقوا مواضع التهم. قال في المختصر: لم يوجد.
مكارم الأخلاق للخرائطي (ص: 161) دار الآفاق العربية، القاهرة:
حدثنا أبو بدر عباد بن الوليد الغبري، حدثنا حماد بن منهال السراج، عن سليمان العجلي، عن بديل بن ورقاء، قال: قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: «من أقام نفسه مقام التهمة؛ فلا يلومن من أساء به الظن»
صحيح البخاري (1/ 20) الناشر: دار طوق النجاة:
عن عامر، قال: سمعت النعمان بن بشير، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الحلال بين، والحرام بين، وبينهما مشبهات لا يعلمها كثير من الناس، فمن اتقى المشبهات استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الشبهات: كراع يرعى حول الحمى، يوشك أن يواقعه، ألا وإن لكل ملك حمى، ألا إن حمى الله في أرضه محارمه، ألا وإن في الجسد مضغة: إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب "
صحيح البخاري (3/ 49) الناشر: دار طوق النجاة:
عن الزهري، قال: أخبرني علي بن الحسين رضي الله عنهما: أن صفية - زوج النبي صلى
الله عليه وسلم - أخبرته أنها جاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم تزوره في
اعتكافه في المسجد في العشر الأواخر من رمضان، فتحدثت عنده ساعة، ثم قامت تنقلب، فقام النبي صلى الله عليه وسلم معها يقلبها، حتى إذا بلغت باب المسجد عند باب أم سلمة، مر رجلان من الأنصار، فسلما على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لهما النبي صلى الله عليه وسلم: «على رسلكما، إنما هي صفية بنت حيي»، فقالا: سبحان الله يا رسول الله، وكبر عليهما، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن الشيطان يبلغ من الإنسان مبلغ الدم، وإني خشيت أن يقذف في قلوبكما شيئا»
روايت نمبر26: "حضور ﷺ کی ولادت کے سال اللہ تعالیٰ نے تمام حاملہ عورتوں کو بیٹوں سے نوازا"
کتب حدیث میں کسی معتبر سند کے ساتھ یہ روایت نہیں ملی، نیز علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے امام ابونعیم رحمہ اللہ کے حوالے سے اس کو الخصائص الکبری میں ذکر کیا ہے اور ان کے بعد علامہ قسطلانی رحمہ اللہ بھی انہی کے حوالے سے ذکر کركے اس کے راوی عمرو بن قتیبہ کو مطعون قراردیا ہے۔
الخصائص الكبرى لعبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (ت:٩١١هـ) (1/80) الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت:
"أخرج أبو نعيم عن عمرو بن قتيبة قال: سمعت أبي - وكان من أوعية العلم – قال: لما حضرت ولادة آمنة، قال الله لملائكته: افتحوا أبواب السماء كلها وأبواب الجنان كلها، وأمر الله الملائكة بالحضور فنزلت تبشر بعضها بعضا وتطاولت جبال الدنيا وارتفعت البحار وتباشر أهلها، فلم يبق ملك إلا حضر.............وأقيم على رأسها سبعون ألف حوراء في الهواء ينتظرون ولادة محمد - صلى الله عليه وسلم -، وكان قد أذن الله تلك السنة لنساء الدنيا أن يحملن ذكورا كرامة لمحمد - صلى الله عليه وسلم.
المواهب اللدنية بالمنح المحمدية للقسطلاني(1/ 76) المكتبة التوفيقية، القاهرة:
روى أبو نعيم عن عمرو بن قتيبة قال: سمعت أبى- وكان من أوعية العلم- قال: لما حضرت ولادة آمنة قال الله تعالى لملائكته: افتحوا أبواب السماء كلها، وأبواب الجنان، وألبست الشمس يومئذ نورا عظيما، وكان قد أذن الله تعالى تلك السنة لنساء الدنيا أن يحملن ذكورا كرامة لمحمد- صلى الله عليه وسلم-.. الحديث وهو مطعون فيه.
روايت نمبر27: "مؤمن مسجد میں ایسے جیسے مچھلی پانی میں اور منافق ایسے جیسے پرندہ پنجرے میں"
یہ روایت بھی کتبِ حدیث میں کہیں نہیں ملی، البتہ اس کا معنی صحیح ہے، کیونکہ بخاری شریف کی روایت میں اس شخص کی فضیلت بیان فرمائی گئی ہے جس کا دل مسجد کے ساتھ لٹکا رہے، یعنی ایک نماز کا وقت ختم ہو تو دوسری کے انتظار میں لگ جائے۔یعنی جیسے مچھلی کو پانی میں سکون ملتا ہے، اسی طرح مومن شخص کو مسجد میں سکون ملتا ہے۔
صحيح البخاري (8/ 163) الناشر: دار طوق النجاة:
عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة يظلهم الله يوم القيامة في ظله، يوم لا ظل إلا ظله: إمام عادل، وشاب نشأ في عبادة الله، ورجل ذكر الله في خلاء ففاضت عيناه، ورجل قلبه معلق في المسجد.
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 594) دار الفكر، بيروت:
(ورجل قلبه معلق بالمسجد) وفي نسخة: في المسجد. قال العسقلاني قوله: معلق في المسجد هكذا هو في الصحيحين، وظاهره أنه من التعليق كأنه شبهه بمثل القنديل إشارة إلى طول الملازمة بقلبه، ويحتمل أن يكون من العلاقة وهي شدة الحب، ويدل عليه رواية أحمد: معلق بالمسجد، فجوزي لدوام محبة ربه وملازمته بيته بظل عرشه. (إذا خرج منه) أي: من المسجد (حتى يعود إليه) : لأن المؤمن في المسجد كالسمك في الماء، والمنافق في المسجد كالطير في القفص.
روايت نمبر28: "حضرت بلال کا امیہ کا غلام ہو کر آٹا پیسنے اور حضور ﷺ کےان کی مدد کرنا"
یہ روایت کتب حدیث میں نہیں ملی، لہذا اس کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا درست نہیں۔
روايت نمبر29: ایک شخص کے تنگدستی کی شکایت کرنے پر حضور ﷺ کا فرمانا کہ نکاح کرو، دوبارہ شکایت پر پھر یہی فرمانا، یہاں تک کہ آپ علیہ السلام نے اس کے چار نکاح کروا دیے۔
یہ روایت بھی کتب حدیث کہیں نہیں ملی، لہذا بغیرثبوت کے اس کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا درست نہیں۔ البتہ تاریخِ بغداد میں حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص نے فاقہ کی شکایت کی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو شادی کرنے کا حکم دیا، لیکن وہ روایت بھی محدثین کے اصولوں کی روشنی میں ضعیف ہے، کیونکہ اس کی سند میں سعید بن محمد بن ابو موسی مدینی نامی راوی پر امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کو غیر معتبر قرار دیا ہے۔ البتہ اس روایت کی قرآن اور حدیث سے تائید ہوتی ہے، کیونکہ قرآن کریم کی سورہ نور میں ارشاد ہے:
القرآن الکریم[النور: 32]:
{وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ}
تم میں سے جن (مردوں اورعورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو ا ہو ان کا بھی نکاح کراؤ اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ تعالی اپنے فضل سے ان کو بے نیاز کر دے گا اور اللہ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن:سورہٴ نور: 32)
اسی طرح ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ تین لوگوں کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ اپنے اوپر لازم کیا ہے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو پاک دامنی اختیار کرنے کے لیے نکاح کرے۔لہذا نکاح کی وجہ سے رزق میں وسعت اور کشادگی کا ہونا قرآن وسنت سے مؤید ہے اور اس کو بیان کرنا صحیح ہے۔
تاريخ بغداد (2/ 233، رقم الترجمة: 307) لأبي بكر أحمد بن علي الخطيب البغدادي (المتوفى: 463ھ) دار الغرب الإسلامي – بيروت:
أخبرنا محمد بن الحسين القطان قال نبأنا عبد الباقي بن قانع قال نبأنا محمد بن أحمد بن نصر الترمذي قال نبأنا إبراهيم بن المنذر قال نبأنا سعيد بن محمد مولى بني هاشم قال نبأنا محمد بن المنكدر عن جابر. قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشكو إليه الفاقة، فأمره أن يتزوج.
روح المعاني (9/ 342) دار الكتب العلمية - بيروت:
إن يكونوا فقراء يغنهم الله من فضله الظاهر أنه وعد من الله عز وجل بالإغناء، وأخرج ذلك ابن جرير وابن المنذر وابن أبي حاتم عن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما ولا يبعد أن يكون في ذلك سد لباب التعلل بالفقر وعده مانعا من المناكحة.............. فقد أخرج عبد الرزاق وأحمد والترمذي وصححه والنسائي وابن ماجه وابن حبان والحاكم وصححه والبيهقي في سننه عن أبي هريرة قال: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ثلاثة حق على الله تعالى عونهم الناكح يريد العفاف والمكاتب يريد الأداء والغازي في سبيل الله تعالى» .
وأخرج الخطيب في تاريخه عن جابر قال: «جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم يشكو إليه الفاقة فأمره أن يتزوج۔
سنن الترمذي ت شاكر (4/ 184،الحديث: 1655) شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر:
حدثنا قتيبة قال: حدثنا الليث، عن ابن عجلان، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثلاثة حق على الله عونهم: المجاهد في سبيل الله، والمكاتب الذي يريد الأداء، والناكح الذي يريد العفاف ": هذا حديث حسن.
روايت نمبر30: "حضرت انس رضی اللہ عنہ کا تنور کی آگ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رومال کی میل کچیل کو صاف کرنا اور رومال کا نہ جلنا"
اس روایت کو حافظ ابوبکر خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے تاریخ بغداد میں ذکر کیا ہے، جس کی سند میں دینار ابو مکیس نامی راوی پر محدثین کرام نے شدید جرح کی ہے، یہاں تک کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے سیر اعلام النبلاء میں اس کو کذّاب کہا ہے، اس لیے کسی معتبر سند سے ثبوت کے بغیر اس روایت کی نسبت حضور اکرم صلی اللہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں۔
تاریخ بغداد، ذکر من اسمه عبدالرحمن: 10/291، ط: دارالکتاب العربي:
"وأخبرنا الحسن حدثنا عبد الرحمن حدثنا أبو عمير الإنسي بمصر حدثنا دينار مولى أنس قال: صنع أنس لأصحابه طعامًا فلما طعموا قال: يا جارية هاتي المنديل، فجاءت بمنديل درن فقال: اسجري التنور واطرحيه فيه ففعلت، فأبيض فسألناه عنه، فقال: إن هذا كان للنبي صلى الله عليه و سلم، وإن النار لاتحرق شيئًا مسته أيدي الأنبياء".
سير أعلام النبلاء ط الرسالة (10/ 376) مؤسسة الرسالة،بيروت:
دينار أبو مكيس الحبشي الأسودالمعمر. زعم أنه مولى لأنس بن مالك، وحدث عنه. روى عنه: محمد بن موسى البربري، وأحمد غلام خليل، وعبد الله بن محمد بن ناجية، وعيسى بن يعقوب الزجاج، ومحمد بن أحمد القصاص - شيخ للطبراني - وغيرهم. وهو غير مأمون. مات: سنة تسع وعشرين ومائتين. قال ابن عدي : منكر الحديث، ذاهبه، شبه مجهول. قلت: يغلب على ظني أنه كذاب، ما لحق أنسا أبدا.
روايت نمبر31: "عالِم کی موت عالم کی موت ہے۔"
یہ جملہ کتب حدیث میں کہیں نہیں ملا، اس لیے یہ حدیث مبارکہ نہیں ہے، بلکہ عربی کا مقولہ ہے۔
روايت نمبر32: "دورانِ اذان گفتگو کرنے والے کو کلمہ نصیب نہیں ہوتایا ایمان ضائع ہونے کا خدشہ ہے"
یہ روایت بھی کتبِ حدیث میں کہیں ثابت نہیں، چنانچہ علامہ صغانی رحمہ اللہ نے اس کو موضوع قرار دیا ہے اور علامہ عجلونی رحمہ اللہ نے بھی کشف الخفاء پر علامہ صغانی رحمہ اللہ کے حوالے سے اس پر وضع کا حکم لگایا ہے۔
الموضوعات للصغاني (ص: 80) دار المأمون للتراث – دمشق:
ومنها قولهم: " من تكلم عند الأذان خيف عليه زوال الإيمان " والله أعلم.
كشف الخفاء للعجلونی (2/ 266) الناشر: المكتبة العصرية:
من تكلم عند الأذان خيف عليه زوال الإيمان. قال الصغاني: موضوع.
روايت نمبر33: "چاليس احادیث کو یاد کرنے والے کا حشر علماء و انبیاء کے ساتھ ہوگا۔"
یہ روایت بھی کتبِ حدیث میں کہیں ثابت نہیں، لہذا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر کے بیان کرنا درست نہیں ہے۔
روايت نمبر34: "لوگوں کو قیامت کے دن ان کی ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا۔"
یہ روایت بھی کتبِ حدیث میں کہیں ثابت نہیں اور اس کا معنی بھی شریعت کے خلاف ہے، احادیثِ صحیحہ سے یہ بات ثابت ہے کہ قیامت کے دن لوگ اپنے اٰباء کے نام سے پکارے جائیں گے۔
مسند أحمد ط الرسالة (36/ 23)(الرقم:21693) الناشر: مؤسسة الرسالة،بيروت:
حدثنا عفان، حدثنا هشيم، أخبرنا داود بن عمرو، عن عبد الله بن أبي زكريا الخزاعي، عن أبي الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم وأسماء آبائكم، فأحسنوا أسماءكم .
شرح صحيح البخارى لابن بطال (9/ 335) مكتبة الرشد - السعودية، الرياض:
وفى قوله عليه السلام: (هذه غدرة فلان بن فلان) رد لقوله من زعم أنه لا يدعى الناس يوم القيامة إلا بأمتهم؛ لأن فى ذلك سترا على آبائهم.
روايت نمبر35:"دور نبویؐ میں ماں کی نافرمانی کی وجہ سے بیٹے کوحالت نزع میں کلمہ طیبہ نصيب نہ ہونا۔"
اس قصہ کو علامہ بیہقی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، لیکن اس کی سند میں داود بن ابراہیم پر ائمہ کرام نے کذاب کا حکم لگایا ہے، حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے اس کے دو طرق اور بھی ذکر کیے ہیں، مگر ن دونوں طرق میں بھی شدید ضعف پایا جاتا ہے،کیونکہ ان کا مدار فائد بن عبدالرحمن اور ابان بن ابی عیاش نامی راوی پر ہے، جبکہ ان دونوں راویوں پر ائمہ کرام نے شدید جرح کی ہے، اسی لیے علامہ طاہر پٹنی رحمہ اللہ نے اس کو اپنی کتاب "تذکرة الموضوعات" میں ذکر کیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ یہ روایت موضوع ہو یا اس میں ضعفِ شدید ہو بہر صورت اس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان کرنا درست نہیں۔
تذکرۃ الموضوعات (1/202) محمد طاهر بن علي الهندي الفَتَّنِي (المتوفى: 986هـ):
"حديث “شاب حضره الموت ولم يقدر على كلمة الشهادة بسبب عق أمه فشفع النبي صلى الله عليه وسلم إلى أمه فرضيت فقدر عليها " لايصح، فيه داود ابن إبراهيم كذاب، وفائد العطار، متروك، قلت: أخرجه البيهقي من وجه آخر عن فائد ، وقال تفرد به وليس بقوي."
حدثنا محمد بن أيوب بن يحيى بن الضريس الرازي حدثنا داود بن إبراهيم قاضي قزوين حدثنا جعفر بن سلمان حدثنا فائد العطار سمعت عبد الله بن أبي أوفى يقول إن شاباً حضره الموت فدعى له رسول الله فقال له: قل: لا إله إلا الله! قال: لا أقدر أن أقولها، قال: ولم؟ قال: كهيئة القفل على قلبي إذا أردت أن أقولها ، فقال النبي: له والدان أو أحدهما؟ قالوا: أم، فدعيت، فقال: ارضي عن ابنك! فقالت: أشهدك يا رسول الله أني عن ابني راضية، فقال: قل: لا إله إلا الله! فقال: لا إله إلا الله، فقال: الحمد لله الذي نجاه بي". لايصح، فائد متروك. قال العقيلي: ولا يتابع عليه وداود كذاب"
روايت نمبر36: "بچے کی بسم اللہ پڑھنے پر بچے کی، اس کے والدین اور استاذ کی بخشش ہو جاتی ہے۔"
یہ روایت بھی اصولِ حدیث کی روشنی میں ثابت نہیں، چنانچہ علامہ ابن جوزی، حافظ سیوطی، علامہ ابن عراق اور علامہ شوکانی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس کو موضوعات میں ذکر کیا ہے اور علامہ ابن جوزی اور حافظ سیوطی رحمہما اللہ نے صراحت کی ہے کہ اس کو احمد بن عبد اللہ جویباری نے گھڑا ہے۔ اس لیے اس روایت کی نسبت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں۔
الموضوعات لابن الجوزي (1/ 220) المكتبة السلفية بالمدينة المنورة:
عن ابن أبي مليكة عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " المعلمون خير الناس كلما خلق الذكر جددوه، عظموهم ولا تستأجروهم فتخرجوهم، فإن المعلم إذا قال للصبي قل بسم الله الرحمن الرحيم، فقال الصبي بسم الله الرحمن الرحيم، كتب الله براءة للصبي وبراءة لوالديه وبراءة للمعلم من النار ".
هذا الحديث من عمل الهروي وهو الجويباري، وقد سبق القدح فيه وأنه كذاب وضاع.
اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة (1/ 180) الناشر: دار الكتب العلمية – بيروت:
(ابن مردويه) حدثنا أحمد بن كامل بن خلف حدثنا علي بن حماد بن السكن حدثنا أحمد بن عبد الله الهروي حدثنا هشام بن سليمان المخزومي عن ابن أبي مليكة عن ابن عباس مرفوعا: المعلمون خيرة الله كلما خلق الذكر جددوه عظموهم ولا تستأجروهم فتخرجوهم فإن المعلم إذا قال للصبي قل بسم الله الرحمن الرحيم فقال الصبي بسم الله الرحمن الرحيم، كتب الله براءة للصبي وبراءة لوالديه وبراءة للمعلم من النار: وضعه الهروي وهو الجويباري.
الفوائد المجموعة لمحمد بن علي بن محمد الشوكاني (المتوفى: 1250هـ) (ص: 276) دار الكتب العلمية، بيروت:
حديث: "خير الناس المعلمون، كلما خلق الذكر جددوه، أعطوهم ولا تستأجروهم، فإن المعلم إذا قال للصبي: بسم الله الرحمن الرحيم فقال الصبي: بسم الله الرحمن الرحيم، كتب الله براءة للصبي وبراء لوالديه، وبراءة لمعلمه، من النار. وهو موضوع.
روايت نمبر37: "فجر کی سنتیں گھر میں ادا کرنے پر روزی میں وسعت، اہل خانہ کے مابین تنازع نہ ہونےاور ایمان پر خاتمہ ہوتا ہے۔"
یہ روایت بھی ثابت نہیں، چنانچہ حافظ محمد بن عبد الرحمن سخاوی رحمہ اللہ نے اس روایت کو بے اصل قرار دیا ہے۔
الأجوبة المرضية لمحمد بن عبد الرحمن السخاوي: (916/3، ط: دار الراية):
وعن حديث: "من صلى سنة الفجر في بيته يوسع له في رزقه وتقل المنازعة بينه وبين أهله ويختم له بالإيمان".فقلت: إنه لا أصل له.
روايت نمبر38: "دورانِ نماز والدین کی پکار پر نماز توڑ کر جواب دینا"
اس روایت کو بعض حضرات جیسے علامہ ابن جوزی، علامہ بن عراق اور حافظ سیوطی رحمہم اللہ نے یاسین بن معاذ نامی راوی کی وجہ سے موضوع قرار دیا ہے، البتہ بعض حضرات نے اس پر ضعف کا حکم لگایا ہے، لیکن یہ ضعف شدید ہے، لہذا اصولِ حدیث کی روشنی میں اس کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کر کے بیان کرنا درست نہیں۔
تاہم فقہاء رحمۃ اللہ علیہم نے اس بارے میں یہ حکم بیان کیا ہے کہ اگر نماز کی حالت میں والدین پکاریں اور نمازی فرض نماز ادا کر رہا ہو، تو نماز نہیں توڑنی چاہیے۔ لیکن اگر نمازی نفل نماز پڑھ رہا ہو اور والدین کو نماز میں مشغول رہنے کا علم ہو، تو ایسی صورت میں نماز نہ توڑنا بہتر ہے، اور اگر والدین کو نماز میں مشغول رہنے کا علم نہ ہو، تو ان کی پکار کا جواب دینے کے لیے نماز توڑ دینی چاہیے، پھر بعد میں اس نماز کو لوٹانا واجب ہوگا۔ البتہ کیونکہ نفل پڑھنا مستحب اور والدین کی پکار کا جواب دینا واجب ہے، نیز اگر والدین جان بچانے کے لیے یا کسی کو مصیبت سے نکالنے کے لیے بلا رہے ہوں، تو ایسی صورت میں ہر حال میں (چاہے فرض نماز ہو یا نفل) اپنی نماز توڑ کر ان کی مدد کرنا واجب ہے۔
شعب الإيمان لأبي بكر أحمد بن الحسين البيهقي (195/6):
أخبرنا أبو الحسين بن بشران، أنا أبو جعفر الرزاز، نا يحيى بن جعفر، أنا زيد بن الحباب، نا ياسين بن معاذ، نا عبد الله بن مرثد، عن طلق بن علي قال: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلّم - يقول: «لو أدركت والدي أو أحدهما وأنا في صلاة العشاء وقد قرأت فيها بفاتحة الكتاب، تنادي: يا محمد! لأجبتها: لبيك».
اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة (2/ 250) دار الكتب العلمية – بيروت:
(أخبرنا) أبو الحسن علي بن أحمد الموحد أنبأنا هناد بن أهيم النسفي حدثنا الحسن عفيف بن محمد الخطيب حدثنا أبو بكر محمد بن أحمد بن حبيب حدثنا يحيى بن أبي طالب حدثنا زيد بن الحباب حدثنا ياسين بن معاذ حدثنا عبد الله بن قرين عن طلق عن علي قال سمعت رسول الله يقول: لو أدركت والدي أو أحدهما وأتاني في الصلاة صلاة العشاء وقد قرأت فيها فاتحة الكتاب ينادي يا محمد لأجيبه لبيك. موضوع: آفته ياسين (قلت) أخرجه البيهقي والله أعلم.
تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة لنور الدين، علي بن محمد بن علي بن عبد الرحمن ابن عراق الكناني (ت:٩٦٣ھ) (296/2):
"[حديث]: «لو أدركت والدي أو أحدهما وأنا في الصلاة وقد قرأت الفاتحة، ينادي: يا محمد! لأجبته». (ابن الجوزي) من حديث طلق بن علي، وفيه يس بن معاذ، (تعقب) بأن الحديث أخرجه البيهقي في الشعب، وقال: يس ضعيف. (قلت): وكذلك أشار الذهبي في تلخيص الموضوعات إلى ضعفه من جهة يس، ثم استدرك فقال: ولكن في سنده هناد النسفي، والله أعلم."
تذكرة الموضوعات لمحمد طاهر بن علي الهندي الفَتَّنِي (ت:٩٨٦ھ) (ص:202):
«لو أدركت والدي أو أحدهما وأنا في الصلاة صلاة العشا وقد قرأت فيها فاتحة الكتاب، ينادي: يا محمد! لأجبته: لبيك»
موضوع. قلت: أخرجه البيهقي. وفي الوجيز: هو حديث طلق عن علي - رضي الله عنه - وفيه يس بن معاذ يروي الموضوعات. قلت: قال البيهقي: ضعيف."
چند بے سند روایات
روايت نمبر39: "روز محشر باری تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ کون ہے جو حساب دے حضرت صدیق اکبر ؓ کے سامنے آنے پر اللہ کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ "
کتبِ حدیث میں یہ روایت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر40: "آپ ﷺ کے وصال کہ بعد جبریل علیہ السلام کا دنیا میں دس بار آنا اور دس چیزیں لے جانا"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر41: "بے پردہ عورت جہنم میں بالوں کے بل لٹکائی جائے گی۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی،بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر42: "نبی کریم ﷺ کی ولادت کے سال ہر حاملہ عورت کے گھر لڑکے کا پیدا ہونا۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر43: "حضرت بلال ؓ کا آپ ﷺ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کرسب سے پہلے جنت میں داخل ہونا۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر44: "آپ ﷺ کا ارشادہے مجھے موت کا اتنا بھروسہ بھی نہیں کہ ایک طرف سلام پھیروں تو دوسری طرف بھی پھیر سکوں گا یا نہیں۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر45: "ابو جہل کے ہاتھوں میں کنکریوں کا آپ ﷺ کی شہادت دینا۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر46: "آپ ﷺ کا سکرات میں جبریل سے کہنا کہ میری ساری امت کی سکرات کی تکلیف مجھے دے دو۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر47: "حضرت فاطمتہ الزہرہ کا ایک بال ننگا تھا تو سورج طلوع نہیں ہوا ۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر48: "روزِِ قیامت ایک نیکی دینے پر دو افراد کا جنت میں جانا۔"
اس روایت کو امام قرطبی رحمہ اللہ نے بغیر سند کے ذکر کیا ہے، جبکہ کتب حدیث میں اس کی سند نہیں مل، اس لیے اس کا بیان کرنا موقوف رکھا جائے۔
تفسير القرطبي (13/ 118) دار الكتب المصرية - القاهرة:
وقال كعب: إن الرجلين كانا صديقين في الدنيا، فيمر أحدهما بصاحبه وهو يجر إلى النار، فيقول له أخوه: والله ما بقى لى إلا حسنة واحدة أنجو بها، خذها أنت يا أخى فتنجو بها مما أرى، وأبقى أنا وإياك من أصحاب الاعراف. قال: فيأمر الله بهما جميعا فيدخلان الجنة.
روايت نمبر49: "جب کوئی نوجوان توبہ کرتا ہے تو مشرق سے مغرب تک تمام قبرستان سے چالیس دن تک اللہ عذاب کو دور کر دیتا ہے۔ "
کتبِ حدیث میں یہ روایت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر50: "حضرت عائشہ ؓ کا اپنے والد ابو بکر صدیق ؓ سے مشورہ کر کے نبی کریم ﷺ سے معراج کی رات کی خاص باتوں میں سے ایک بات کا پوچھنا اور ابو بکر صدیق ؓ کو بتانا۔ جس کو سن کر وہ رو پڑے۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی،بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر51: "ایک دفعہ نبی کریم ﷺ طواف فرما رہے تھے ایک اعرابی کو اپنے آگے طواف کرتے پایا،جس کی زبان پر یا کریم یا کریم کی صدا تھی۔ حضور ﷺ نے بھی پیچھے سے یا کریم پڑھنا شروع کر دیا۔ جس پر اس نے آپ ﷺ سے فرمایا کہ آپ میرا مذاق اڑاتے ہیں۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر52: "دو شخص حضرت عمر فاروقؓ کی مجلس میں داخل ہوئے اور ایک شخص کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔ اس شخص نے اقرار کیا اور کچھ امانتیں واپس کرنے کے لیے تین دن کی مہلت مانگی جس پر ابوذر غفاری ؓ نے ان کی ضمانت دی۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر53: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابو جہل کے دروازے پر دعوت دینے کے لئے 100 سو مرتبہ جانا ۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر54: "طوفانی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قافلے والوں کو دعوت دینا ۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر55: "ایک آدمی کا راہ راست پر آجانا داعی کی نجات کے لئے کافی ہے ۔"
یہ بھی بے سند روایت ہے،بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔البتہ اس سے ملتی جلتی ایک روایت صحیح بخاری شریف میں ہے جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تیری وجہ سے کسی آدمی کا راہ راست پر آجانا سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ یہ روایت صحیح ہے ۔
صحيح البخاري، باب مناقب علي بن أبي طالب القرشي الهاشمي أبي الحسن رضي الله عنه، ج: 5، صفحہ: 18، رقم الحدیث: 3701، ط: دار طوق النجاة:
"حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد رضي الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «لأعطينّ الراية غدًا رجلًا يفتح الله على يديه»، قال: فبات الناس يدوكون ليلتهم أيهم يعطاها، فلما أصبح الناس غدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، كلهم يرجو أن يعطاها، فقال: «أين علي بن أبي طالب»؟ فقالوا: يشتكي عينيه يا رسول الله، قال: «فأرسلوا إليه فأتوني به». فلما جاء بصق في عينيه و دعا له، فبرأ حتى كأن لم يكن به وجع، فأعطاه الراية، فقال علي: يا رسول الله، أقاتلهم حتى يكونوا مثلنا؟ فقال: «انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم، ثم ادعهم إلى الإسلام، و أخبرهم بما يجب عليهم من حقّ الله فيه، فوالله لأن يهدي الله بك رجلًا واحدًا، خير لك من أن يكون لك حمر النعم."
روايت نمبر56: "حضرت ایوب کا اپنے جسم کے کیڑے کو یہ کہنا " اللہ کے رزق میں سے کھا ۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر57: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا بستر سمیٹ دو، اب میرے آرام کے دن ختم ہو گئے۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر58: "نماز مومن کی معراج ہے۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، ،بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔البتہ اس کا معنی صحیح ہے،کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ کے قرب کا بہت بڑا ذریعہ ہے، اسی لیے ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں کئی جگہوں پر اس جملے کو نقل کیا ہے۔
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 702) دار الفكر، بيروت:
(وعن ابن عمر والبياضي) : الواو عاطفة، والبياضي هو عبد الله بن الغنام، قال ميرك نقلا عن الأنساب: إنه بفتح الباء المنقوطة بواحدة، والياء المنقوطة باثنتين من تحتها، وفي آخرها الضاد المعجمة، وهذه النسبة إلى أشياء منها بياضة الأنصار وهو بطن منهم اهـ، وفي التقريب أبو حاتم الأنصاري مولاهم صحابي له حديث، وقيل: لا صحبة له.، (قالا: قال رسول الله صلى الله عليه
وسلم: " إن المصلي يناجي ربه) ، أي: يحادثه ويكالمه، وهو كناية عن كمال قربه المعنوي؛ لأن الصلاة معراج المؤمن (فلينظر ما يناجيه) : وفي نسخة: ما يناجي به، " ما " استفهامية أو موصولة، أي: ما يناجي الرب تعالى من الذكر والقرآن والحضور والخشوع والخضوع؛ إذ ليس للمرء من صلاته إلا ما عقل كما في الحديث.
روايت نمبر59: "ایک صحابی کی داڑھی کے ایک ہی بال پر فرشتوں کا کھیلنا ۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر60:"مسجد سے بال کا نکالنا ایسے ہے جیسے مردار گدھے کا مسجد سے نکالنا ۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر61: اے ابن آدم !ایک تیری چاہت ہے اور ایک میری چاہت ہےاگر تو اپنی چاہت کو میری چاہت کے حوالے کر دے گا تو میں تیری چاہت بھی پوری کر دوں گا، لیکن اگر تو نے اپنی چاہت کو میری کے حوالے نہ کیا تو میں تجھے تیری چاہت کے پیچھے پھراؤں گا۔ ہو گا پھر بھی وہی جومیں چاہوں گا۔
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، اس کو بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان نہیں کر سکتے۔ البتہ اس روایت کا معنی درست ہے، کیونکہ ہر کام اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ہی ہوتا ہے، باقی اس روایت کے الفاظ حکیم ترمذی رحمہ اللہ نے نوادر الاصول میں بغیر سند کےنقل کتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ خطاب اللہ تعالیٰ نے حضرت داود علیہ السلام سے کیا تھا۔
نوادر الأصول في أحاديث الرسول ل محمد بن علي الحكيم الترمذي (المتوفى: 320هـ)
(2/ 107) دار الجيل – بيروت:
قال الله تعالى لداود عليه السلام تريد وأريد ويكون ما أريد فإذا أردت ما أريد كفيتك ما تريد ويكون ما أريد وإذا أردت غير ما أريد عنيتك فيما تريد ويكون ما أريد.
وسئل بعض السلف رحمهم الله تعالى بم تعرف ربك قال بفسخ العزم فالآدمي يفكر ويدبر ويعزم وتدبير الله تعالى من ورائه بإبطال ذلك وتكون تلك الأمور على غير ما فكر ودبر فأهل اليقين والبصائر والتفويض لما علموا علم اليقين أن إرادتهم تبطل عند إرادته رموا بإرادتهم وفكرهم وأقبلوا عليه يراقبون تدبيره وينتظرون حكمه في الأمور.
روايت نمبر62: "جسے اللہ ستر مرتبہ محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اسے اپنے راستے میں قبول کر لیتے ہیں ۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر63:"ایک یہودی کے جنازے کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رونا ۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر64: "ایک یہودی کا معراج کے واقعہ سے انکار پر پہلے عورت بن جانا اوردو بچوں کو جنم دینے کے بعد پھر مرد بن جانا۔"
یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر65: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک طبیب کو یہ فرمانا: ہم ایسی قوم ہیں جو سخت بھوک کے علاوہ نہیں کھاتے اور جب کھاتے ہیں تو پیٹ بھر کر نہیں کھاتے ۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر66: "سلمان علیہ السلام نے مخلوقات کی دعوت کے لئے کھانا تیار کیا جسے ایک مچھلی کھا گئی۔"
یہ بھی بے سند روایت ہے،بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔مذکورہ واقعہ کی اصل كسی حدیث میں تو نہیں مل سکی، البتہ علامہ عبد الكريم قشیری رحمہ اللہ (المتوفی: 465ھ) نے’’قیل‘‘کے لفظ کے ساتھ اس واقعہ کا مجموعی مضمون نقل فرمایا ہے ، اس كے بعد علامہ دَمِیری رحمہ اللہ (المتوفی:808ھ) نے علامہ قشیری رحمہ اللہ کے حوالہ سے’’یقال‘‘کےلفظ کے ساتھ درج ذیل الفاظ میں نقل فرمایا ہے۔
التحبير في شرح التذكير، فصل في معنى العظيم (ص: 41)، ط/ دار الكتب العلمية، بيروت:
"وقيل: إن سليمان عليه السلام سأل الله تعالى أن يضيف يوما جميع الحيوانات فأذن له في ذلك، فجمع الطعام مدة طويلة، فأرسل الله حوتا، فأكل جميع ما جمعه، ثم سأله الزيادة، فقال له سليمان: أأنت تأكل كل يوم مثل هذا؟ فقال: كل يوم ثلاثة أضعاف هذا، فليتك لم تضفني، ولا أحالني الله عليك."
حياة الحيوان الكبرى: (1/ 380) ط/ دار الكتب العلمية، بيروت:
"قال القشيري: يقال: إن سليمان عليه الصلاة والسلام سأل ربه سبحانه وتعالى، أن يأذن له أن يضيف يوماً جميع الحيوانات، فأذن الله تعالى له، فأخذ سليمان في جمع الطعام مدة طويلة، فأرسل الله تعالى له حوتاً واحداً من البحر، فأكل كل ما جمعه سليمان في تلك المدة الطويلة، ثم استزاده، فقال سليمان: لم يبق عندي شيء، ثم قال له: وأنت تأكل كل يوم مثل هذا؟ فقال: رزقي كل يوم ثلاثة أضعاف هذا، ولكن الله لم يطعمني اليوم إلا ما أطعمتي أنت، فليتك لم تضيفني فإني بقيت اليوم جائعاً حيث كنت ضيفك انتهى.
مذکورہ عبارات سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اسرائیلی روایات کی قبیل سے ہے اور ۱سرائیلی روایات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان میں کوئی ایسی بات ہو جس کی تصدیق ہمیں قرآن و حدیث سے ملتی ہو تو ہم ایسی روایات کی تصدیق کریں گے اور ان روایات کا بیان کرنا جائز بھی ہوگا اور جن میں ایسی باتیں ہوں جس کی تصدیق تو ہمیں قرآن و حدیث میں نہ ملتی ہو، لیکن وہ قرآن و حدیث (یعنی شریعت) کے کسی مسلمہ اصول سے ٹکراتی بھی نہ ہوں تو ایسی روایات کا حکم یہ ہے کہ ہم نہ تو ان روایات کی تصدیق کریں گے اور نہ ہی تکذیب کریں گے، البتہ ان روایات کو بیان کرنے کی گنجائش ہے اور جن روایات میں ایسی باتیں ہوں جو قرآن و حدیث کے مخالف ہوں تو ہم ان کی تکذیب کریں گے، اور ایسی روایات کو بیان کرنا بھی جائز نہیں ہوگا۔
روايت نمبر67: "بے نمازی کی نحوست سے بچنے کے لئے گھر کے دروازے پر پردہ ڈالنا ۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر68: "بے نمازی کی نحوست چالیس گھروں تک جاتی ہے ۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر69:"جان بوجھ کر نماز چھوڑنے پر ایک حقب جہنم میں جلنا ۔ایک حقب 80 سال کا ہے اس کا ہر سال تین ساٹھ دن کا ہے اور ہر دن دنیا کے دن کے ایک ہزار دن کے برابر ہے ۔"
یہ بھی بے سند روایت ہے،بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔کیونکہ اس روایت کو شیخ احمد بن محمد رومی حنفی رحمہ اللہ (المتوفی:۱۰۴۳ھ) نے اپنی مشہور کتاب ’’مجالس الأبرار‘‘ میں بغیر کسی سند وحوالہ کے صیغہ مجہول کے ساتھ ذکر کیا ہے، اس کے علاوہ حدیث کی کسی مستند کتاب میں یہ روایت نہیں ملی، اسی لیے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ اللہ نے فضائل اعمال میں اس کو ذکر کرنے کے بعد توضیحی کلمات میں لکھا ہے کہ میرے پاس موجود کتبِ حدیث میں یہ روایت مجھے نہیں ملی۔
"قلت: لم أجده فيما عندي من كتب الحديث، إلا أن مجالس الأبرار مدحه شيخ مشايخنا الشاه عبد العزيز الدهلوي رحمه الله".
(مجالس الأبرار، المجلس الحادي والخمسون، (ص:398)، ط/سهيل أكادمي لاهور، 1430ھ):
"لما رُوي أنه صلى الله عليه وسلم قال: من ترك الصلاة حتى مضى وقتها، ثم قضى عُذِّب في النار حقبًا، والحقب ثمانون سنة، والسنة ثلثمائة وستون يومًا، كل يوم كان مقدار ألف سنة".
روايت نمبر70: ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دودھ پیتا بچہ لے کر آئی اور کہا کہ اسے بھی جہاد میں لے جائیں، لوگوں نے کہا یہ بچہ جہاد میں کیا کرے گا تو عورت نے کہا جب کوئی تیر آئے تو اسے آگے کر دینا۔
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر71: استنجاء بیٹھنے کا طریقہ یہودی نے سنا تو اس نے ایسا ہی کیا اس کے دشمن نے رسہ پھینک کر گلا گھونٹنا چاہا ،مگر سنت کے مطابق بیٹھنے سے بچ گیا تو وہ مسلمان ہو گیا ۔
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر72: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج میں اللہ کی بارگاہ میں عاجزی کا تحفہ پیش کرنا ۔
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر73: حضرت بلال نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہدایت اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اگر ہدایت آپ کے ہاتھ میں ہوتی تو میری باری نہ جانے کب آتی؟
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر74: حضرت بلال کی قسم پر سحری کے وقت کا ختم ہوجانا ۔
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر75: جب کوئی مسجد میں ہوا خارج کرتا ہے تو فرشتہ اس ہوا کو منہ میں لے کر مسجد سے باہر خارج کر دیتا ہے ۔
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر76: جب کوئی نوجوان توبہ کرتا ہے تو مشرق سے مغرب تک تمام قبرستان سے چالیس دن تک عذاب دور کر دیا جاتا ہے ۔
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر77: "حضرت فاطمتہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کے لئے قبر کا یہ کہنا کہ یہ حسب نسب کی جگہ نہیں ہے۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر78: "بسم اللہ کہہ کر گھر میں جھاڑو لگانے پر بیت اللہ میں جھاڑو لگانے کا اجر ملتا ہے" ۔
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر79: ایک صحابی کا حضورﷺ کے وصال پر نابینا ہونے کی دعا کرنا اور بینائی کا سلب ہوجانا۔
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
الأدب المفرد (ص: 188) دار البشائر الإسلامية – بيروت:
حدثنا موسى قال: حدثنا حماد، عن علي بن زيد، عن القاسم بن محمد، أن رجلا من أصحاب محمد ذهب بصره، فعادوه، فقال: كنت أريدهما لأنظر إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فأما إذ قبض النبي صلى الله عليه وسلم فوالله ما يسرني أن ما بهما بظبي من ظباء تبالة.
روايت نمبر80: "حضرت فاطمہؓ کے ساتھ حضورﷺ کا تندور میں روٹی لگانا اور روٹی کا نا پکنا "
یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر81: "اللہ تعالیٰ بندوں سے ستر(70)ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔"
یہ بھی بے سند روایت ہے،کتبِ حدیث میں یہ کہیں نہیں ملی، البتہ یہ بات بخاری شریف کی حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے ماں سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔
صحيح البخاري (8/ 8) دار طوق النجاة:
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه: قدم على النبي صلى الله عليه وسلم سبي، فإذا امرأة من السبي قد تحلب ثديها تسقي، إذا وجدت صبيا في السبي أخذته، فألصقته ببطنها وأرضعته، فقال لنا النبي صلى الله عليه وسلم: «أترون هذه طارحة ولدها في النار» قلنا: لا، وهي تقدر على أن لا تطرحه، فقال: «لله أرحم بعباده من هذه بولدها»
روايت نمبر82: "حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:تکبیر اولٰی دنیا و مافیہا سے بہتر ہے"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، ان الفاظ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کر کے نہ بیان کیا جائے، البتہ اس کا معنی شرعاصحیح ہے۔کیونکہ ہرنیکی کا اجر جنت میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باقی رہے گا، جبکہ دنیا ومافیہا کی تمام چیزیں ایک دن ختم ہو جائیں گی، اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کیے بغیر اس جملہ کو بیان کرنا درست ہے۔
روايت نمبر83: "ایک بدو کا حضور ﷺ سے 24 سوالات کرنا اور آپ علیہ السلام کا جوابات دینا"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر84: "ایک بڑھیا نبی کریمﷺ پر کوڑا پھینکا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔الخ"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر85: "دورانِ نماز حضرت علی ؓ کے بدن سے تیر نکالنے والا مشہور قصہ"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر86: "جس کا کوئی پیر نہ ہو تو اس کا پیر شیطان ہے۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔ بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ یہ جملہ «من لا شيخ له فشيخه الشيطان» حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ کا فرمان ہے۔
روايت نمبر87: "حضور ﷺ کا مشرک مہمان کے پیشاب والے بستر کو اپنے ہاتھ سے دھونا"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر88: "ایک شخص میں چار خامیاں تھی، نبی کریم ﷺ کے کہنے پر اس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا تو اس کے باقی سب گناہ بھی چھوٹ گئے۔"
مذکورہ روایت کو کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔ البتہ اس کا معنی صحیح ہے، کیونکہ صحیحین میں یہ حدیث وارد ہے کہ صدق نیکی کی طرف کھینچتا ہے اور نیکی انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے اور جھوٹ فسق فجور کی طرف رہنمائی کرتا ہے اور فسق وفجور انسان کو جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔
اس روایت کو ذکر کرکرنے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صدق ہر خیر کی چابی ہے اور جھوٹ ہر شر کی چابی ہے۔اس لیے جھوٹ چھوڑنے سے باقی برائیوں کا چھوٹ جانا کوئی بعید نہیں۔
(شرح الأربعين النووية للمناوي (ص: ٢١٠)، ط/ المكتبة العربية السعودية، وزارة التعليم):
"وقد ورد أنَّ أعرابيًّا بايع المصطفى صلى الله عليه وسلم على تركِ خصلةٍ من خصالٍ كالزِّنا والسرقة والكذب، فقال له النبيّ صلى الله عليه وسلم: «دعِ الكذب» فصار كلَّما همَّ بزنا أو سرقة قال: كيف أصنع؟ إن فعلت سألني النبيُّ، فإن صدقته حدَّني، وإن كذبته فقد عاهدني على ترك الكذب، فكان تركه سببًا لترك الفواحش كلها".
الاستقامة للإمام ابن تيمية(1/ 467) جامعة الإمام محمد بن سعود - المدينة المنورة:
الحسنات والسيئات قد تتلازم ويدعو بعضها إلى بعض كما في الصحيح عن عبد الله بن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال عليكم بالصدق فإن الصدق يهدي إلى البر والبر يهدي إلى الجنة ولا يزال الرجل يصدق ويتحرى الصدق حتى يكتب عند الله صديقا وإياكم والكذب فإن الكذب يهدي إلى الفجور والفجور يهدي إلى النار ولا يزال العبد يكذب ويتحرى الكذب حتى يكتب عند الله كذابا رواه البخاري ومسلم فالصدق مفتاح كل خير كما ان الكذب مفتاح كل شر ولهذا يقولون عن بعض المشايخ إنه قال لبعض من استتابه من أصحابه أنا لا أوصيك إلا بالصدق فتأملوا فوجدوا الصدق يدعوه إلى كل خير .
روايت نمبر89: "ہر نبی کو نبوت چالیس برس بعد ملی ہے۔"
یہ روایت کتبِ حدیث میں کہیں نہیں ملی، نیز اس کا مفہوم قرآن میں مذکور حضرت عیسی علیہ السلام کے فرمان {إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا} [مريم: 30] کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔اس کو بھی حدیث کے طور پر بیان کرنا درست نہیں۔
روايت نمبر90: "درود پڑھنے پر اللہ ستر ہزار پروں والا پرندہ پیدا کریں گے، جو اللہ کی تسبیح بیان کرے گا اور تسبیح کا اجر درود پڑھنے والے کو ملے گا۔"
یہ روایت بھی کتبِ حدیث میں کہیں نہیں ملی، نیز کسی چھوٹے عمل پر بہت بڑے اجر کا ملنا محدثین کرام کے ہاں ایسی روایت کے موضوع ہونے کی علامت ہوتی ہے۔
روايت نمبر91: "حضرت موسٰی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے فرمایا: اے موسٰی!جب میں آپ سے بات کرتا ہوں تو میرے اور آپ کے درمیان 70 ہزار پردے ہوتے ہیں، لیکن امت محمدیہ جب افطار کے وقت دعا مانگے گی تو کوئی پردہ نہ ہوگا۔"
اس روایت کو شیخ عبد الرحمن بن عبد السلام صفوری الشافعی( المتوفى: 894ھ) نے اپنی کتاب نزہة المجالس میں بغیر سند کے نقل کیا ہے اور کتبِ حدیث میں بھی اس کی سند کہیں نہیں ملی۔ لہذا جب تک یہ روایت کسی معتبر سند سے ثابت نہ ہو اس کی نسبت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں۔
نزهة المجالس ومنتخب النفائس (1/ 165) لعبد الرحمن بن عبد السلام الصفوری الشافعی( المتوفى: 894هـ):
" قال موسى عليه السلام: يا رب أكرمتني بالتكليم، فهل أعطيت أحداً مثل ذلك؟ فأوحى الله تعالى: يا موسى! إن لي عباداً أخرجهم في آخر الزمان وأكرمهم بشهر رمضان فأكون أقرب لأحدهم منك؛ لأنك كلمتني وبيني وبينك سبعون ألف حجاب، فإذا صامت أمة محمد صلى الله عليه وسلم حتى ابيضت شفاههم واصفرت ألوانهم أرفع الحجب بيني وبينهم وقت إفطارهم، يا موسى طوبى لمن عطش كبده وأجاع بطنه في رمضان، وقال كعب الأحبار: أوحى الله إلى موسى أني كتبت على نفسي أن لا أرد دعوة صائم رمضان".
روايت نمبر92: "شبِ قدر میں نوافل کی خاص تعداد یا خاص طریقے سے نماز پڑھنا۔"
کتبِ حدیث میں یہ روایت بھی تلاش کے باوجود کہیں نہیں ملی، بغیر ثبوت کے اس کو بھی بیان نہیں کر سکتے۔
روايت نمبر93: "حضور ﷺ کا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کو زندہ کرنا۔"
یہ روایت بھی کتب حدیث میں کہیں نہیں ملی، لہذا بغیر ثبوت کے اس کی نسبت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تک نہ کی جائے۔
روايت نمبر94: "حضورﷺکا فرمان: مجھے موت کا اتنا بھروسہ نہیں کہ دوسری طرف سلام پھیرنا بھی نصیب ہوگا یا نہیں!"
یہ روایت بھی کتب حدیث میں کہیں نہیں ملی، لہذا بغیر ثبوت کے اس کی نسبت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تک نہ کی جائے۔
روايت نمبر95:"بدن کے جس حصہ پہ استاذ کی مار پڑتی ہے،جہنم کی آگ وہاں حرام ہو جاتی ہے"
یہ روایت بھی کتب حدیث میں کہیں نہیں ملی، لہذا بغیر ثبوت کے اس کی نسبت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تک نہ کی جائے۔
روايت نمبر96: "بندے کےوضو کرنےکے بعدکلمہ طیبہ پڑھنےپر ہر قطرے کے بدلے فرشتے کا پیدا ہونا اور قیامت تک اس کا کلمہ پڑھتے رہنا۔"
یہ روایت بھی کتب حدیث میں کہیں نہیں ملی، لہذا بغیر ثبوت کے اس کی نسبت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تک نہ کی جائے۔
روايت نمبر97:"قیامت کے دن ایک قبر سےستر مردے اٹھیں گے"
یہ روایت بھی کتب حدیث میں کہیں نہیں ملی، لہذا بغیر ثبوت کے اس کی نسبت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تک نہ کی جائے۔
روايت نمبر98: "ایک بوڑھے کے احترام میں حضرت علیؓ کا ان کے پیچھے چلنا، یہاں تک کہ نماز کےلئے لیٹ ہوجانا"
یہ روایت بھی کتب حدیث میں کہیں نہیں ملی، لہذا بغیر ثبوت کے اس کی نسبت حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تک نہ کی جائے۔
حوالہ جات
۔۔۔۔
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی
27/شوال المکرم 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |