87282 | نماز کا بیان | مسافر کی نماز کابیان |
سوال
آزاد کشمیر میں ہمارے علاقوں کی نوعیت یہ ہے کہ مختلف أضلاع میں حلقہ جات ہیں، پھر ان حلقہ جات کے اندر تحصیلیں ہیں ،جن کا حدود اربعہ ایک حلقہ سے کم ہوتا ہے، پھر ان تحصیلوں کے اندر یونین کونسلز ہیں، جو تحصیل سے کم حدود اربعہ پر مشتمل ہیں ،پھر یونین کونسلز کے اندر مختلف وارڈز ہیں اور پھر ہر وارڈ میں محلہ جات ہیں ( محلوں کی نوعیت پنجاب اور دیگر علاقوں سے مختلف ہے یہاں دو دو تین تین گھر پھر کچھ فاصلہ پر دو تین گھر یوں تقریبا 60 ،70 گھروں پر مشتمل علاقہ کو محلہ کا الگ نام دیا جاتا ہے)۔ سوال یہ ہے کہ ہم باہر سے 25 ،30 دن کے لیے آنے والی جماعتوں کے لیے ایک بستی کا حکم کس پر لگائیں گے؟ کیا ایک محلہ میں تین دن کے بعد جب دوسرے محلہ میں جماعت جائے گی تو وہ الگ بستی میں شمار ہو گی یا ایک وارڈ سے دوسری وارڈ یا پھر ایک یونین کونسل سے دوسری یونین کونسل؟ برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بطور تمہید واضح ہو کہ جب ایسے مختلف مضافات اور دیہاتوں کا سفر ہو کہ ان میں سے ایک مقام اور دیہات کی حد بندی دوسرے سے جدا اور علیحدہ ہو اور وہ فاصلہ پر آباد ہوں اور مختلف ناموں سے موسوم ہوں، ملے ہوئے نہ ہوں اور ابتدائے سفر سے مسافت شرعی پر بھی واقع ہوں تو ایسے دو یا اس سے زائد مختلف شہروں ، دیہاتوں یا ایک مقام شہر ہو اور دوسرا مقام دیہات ہو اور ہر مقام پر پندرہ دن سے کم قیام ہو تو اس صورت میں یہ شخص یا جماعت شرعاً مقیم شمار نہیں ہوں گے،بلکہ مسافر کے حکم میں ہونے کی بناء پر اس دوران نماز میں قصر کریں گےاور اگر تشکیل پندرہ یا زیادہ دن کے لئےایک گاؤں میں ہو تواس صورت میں جماعت والےاپنی نماز پوری ادا کریں گے ، اور اگر ایک ہی شہر کی مختلف مسجدوں اور محلوں میں چند چند دن کے لئے تشکیل ہوئی ہو اور مجموعی طور پر پندرہ یازیادہ دن ایک ہی شہر میں قیام ہو تو مقیم شمار ہوں گے اور نماز پوری پڑھنی ہو گی۔
آزاد کشمیر میں ہر گاؤں ایک بستی ہے جس کا نام دوسرے گاؤں سے الگ ہوتا ہےاور اس بستی کے رہنے والوں کو گاؤں کی حدود معلوم ہوتی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کب اپنے گاؤں کی حدودسے نکل جاتے ہیں ، وہی حدود شرعی طور پر بھی معتبرہوں گی ، ایک گاؤں کے مختلف محلوں کا اعتبار نہیں ہو گا۔
حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 98):
(وأما) اتحاد المكان: فالشرط نية مدة الإقامة في مكان واحد؛ لأن الإقامة قرار والانتقال يضاده ولا بد من الانتقال في مكانين وإذا عرف هذا فنقول: إذا نوى المسافر الإقامة خمسة عشر يوما في موضعين فإن كان مصرا واحدا أو قرية واحدة صار مقيما؛ لأنهما متحدان حكما، ألا يرى أنه لو خرج إليه مسافرا لم يقصر فقد وجد الشرط وهو نية كمال مدة الإقامة في مكان واحد فصار مقيما وإن كانا مصرين نحو مكة ومنى أو الكوفة والحيرة أو قريتين، أو أحدهما مصر والآخر قرية لا يصير مقيما؛ لأنهما مكانان متباينان حقيقة وحكما،
الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص105):
من (من خرج من عمارة موضع إقامته) من جانب خروجه وإن لم يجاوز من الجانب الآخر.
وفي الخانية: إن كان بين الفناء والمصر أقل من غلوة وليس بينهما مزرعة يشترط مجاوزته، وإلا فلا (قاصدا) ولو كافرا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر (مسيرة ثلاثة أيام ولياليها) من أقصر أيام السنة،
ارسلان نصیر
دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی
27/شوال /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب |