03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وسوسے کی وجہ سے کسی جائز عمل کو کفر سمجھنے کا حکم
87294جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

ایک لڑکی جو بچپن سے نفسیاتی مسائل کا شکار رہی ہے۔ بچپن میں یہ سمجھ نہ آئی، آہستہ آہستہ بیماری بڑھتی گئی۔ کسی دم والے  نے جنات کا  بتایا  تو کسی ڈاکٹر نے وسوسوں کی بیماری قرار دی۔ لڑکی خود بھی کم ہمت تھی اور وساوس میں پھنستی چلی گئی۔ یہاں تک کہ کفریہ وساوس تنگ کرنے لگے، دینی سمجھ بھی کم تھی، لڑکی کبھی کسی عالم سے پوچھتی، پھر تسلی نہ ہوتی تو دوسرے علماء سے رجوع کرتی رہی۔ مختلف دیوبندی مکتبِ فکر کی جامعات کی ویب سائٹس پر فتاویٰ پڑھتی رہی۔ مسائل کے پروگرامز سنتی رہی، جو کہ اس کے لیے مزید پریشانی کا سبب بنے۔

مسئلہ یہ ہوا کہ کبھی ایک مفتی ایک بات بتاتے، تو دوسرا اسی مسئلے کو مختلف انداز سے بیان کرتا۔ وہ اور زیادہ الجھتی گئی۔  لڑکی استانی کی نوکری کرنا چاہتی تھی، تقرری کا لیٹر بھی آچکا تھا۔ اس نے جامعہ بنوریہ کی ویب سائٹ پر ایک فتویٰ پڑھا کہ عورت کے لیے بغیر معاشی ضرورت کے نوکری کرنا جائز نہیں۔ پھر اپنے شہر کے ایک عالم سے پوچھا، انہوں نے کہا کہ عورت کا نوکری کرنا بالکل جائز ہے، بشرطیکہ پردے کا اہتمام کیا جائے۔ اس طرح وہ مختلف مفتیان کرام سے رجوع کرتی رہی اور مختلف وسوسوں کا شکار ہو گئی کہ اب کس کے فتویٰ پر عمل کرے؟

پھر اس نے ایک فتویٰ پڑھا کہ جب مفتیانِ کرام کی آراء میں اختلاف ہو جائے تو آسان پہلو پر عمل کرنا، بعض اوقات نفس کی پیروی شمار ہو سکتا ہے، جو نعوذ باللہ کفر تک لے جا سکتا ہے۔ اس طرح کی بات اس نے مفتی محمد صاحب سے بھی سنی، اگرچہ ان کا اصل مقصد کیا تھا، یہ واضح نہیں، مگر اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی۔ اب اسے یوں لگتا ہے کہ اگر وہ جواز والے فتویٰ پر عمل کرے گی تو نعوذ باللہ کفر کر بیٹھے گی، اور وہ اپنے منہ سے بھی کئی بار کہہ چکی ہے کہ "عورت کا نوکری کرنا کفر ہے"۔

اب وہ لڑکی ان تمام وہمات سے نجات چاہتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ایک نارمل زندگی گزارے، کسی مدرسے یا اسکول میں جاب کرے، اپنی تعلیم سے فائدہ اٹھائے اور خود کو مصروف رکھے تاکہ وسوسوں سے بچ سکے۔

سوال:

مفتی صاحب! کسی جائز عمل کو کفر سمجھنا اور اس کو زبان سے کہنا، اس کا کیا حکم ہے؟ اور پھر وہی عمل بعد میں کیا جائے جس کو کبھی کفر سمجھا گیا ہو، تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا صرف توبہ و استغفار کافی ہوگی یا تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح بھی ضروری ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

واضح رہے کہ مسائل میں رائے کا اختلاف تو سب جگہ پایا جاتا ہے اور یہ کوئی برااور ممنوع نہیں، بلکہ اس میں عوام کے لیے سہولت کا پہلو نکلتاہے،چنانچہ ایک ہی مذہب مثلاً مذہب حنفی میں کسی ایک مسئلہ میں اہل ِحق علماء میں اختلاف ِرائے ہو تو اس میں  کسی  بھی ایک کی  رائے پر عمل کیا جاسکتا ہے، البتہ اختلاف رائے کی صورت میں کسی ایک کی رائے کو لینے کا اصولی طریقہ کار یہ ہے کہ جس عالم کے علم اور تقوی پر بھروسہ ہو اس کی رائے پر عمل کرنا چاہئے اور اگر سب پر اعتماد ہو تو جسکے علم اور تقوی پر زیادہ اعتماد ہو اس کی رائے اور فتوی پر عمل کرے اورجہاں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح معلوم نہ ہو تو کسی بھی ایک کی  رائے پر عمل کیا جاسکتا ہے اگر چہ اس میں آسانی کیوں نہ ہو، البتہ عبادات کے معاملہ میں احتیاط والی رائے پر عمل بہترہےاورمعاملات ومعاشرت سے متعلق مسائل میں آسانی وسہولت پر مبنی رائے پر عمل کی بھی جائز ہے۔

  عام حالات میں شریعت نے عورت کو گھر کی چار دیواری میں رہنے کی ترغیب دی ہےاورا سی میں اس کی عزت و آبرو ہے کہ وہ گھر یلوکام انجام دے اور اپنے بچوں کی تربیت کرےاور بلاضرورت گھر سے باہر نہ نکلے، خصوصاً اس زمانے میں  چونکہ ہر طرف بےحیائی وبے پردگی کا دور دورہ ہے، اور مردوں عورتوں کا بے باکانہ اختلاط عام ہے،لیکن اگر واقعتاً معاشی مجبوریاں اور ضروریات ہوں تو پھر انہیں چاہیے کہ گھر پر ہی دست کاری  يا ٹیوشن وغیرہ کو ذریعۂ معاش بنائے۔ گھر سےباہر ملازمت کرنے کی صورت میں مذکورہ بالا غیر شرعی امور سے خود کو بچانا نہایت دشوار ہے۔

البتہ اگر گھر پر کام کرنے کی کوئی صورت نہ  بن رہی ہو تو پھر خاتون مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ کوئی جائز ملازمت کرسکتی ہے:

 -1راستے میں آتے جاتے ہوئے اور دورانِ ملازمت مکمل شرعی پردے کا اہتمام کرے۔

 -2گھر سے نکلتے وقت  اور ملازمت کے دوران نامحرم لوگوں  سے اپنی  آنکھیں نیچی رکھیں ۔(یعنی بلا ضرورت  ان کی طرف  نہ دیکھا جائے)

 -3بناؤ  وسنگھار نہ کرے ، خوشبو نہ لگائے۔

 -4ایسے پازیب نہ پہنے جس سے ا یسی آواز نکلتی ہو جو لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے۔

 -5راستے میں آتے جاتے ہوئے اور دورانِ ملازمت نامحرم کے سامنے بلاضرورت آنے اور بات چیت سے ممکنہ حدتک بچنے کی کوشش کرے۔ اور جب بات چیت کرنے کی ضرورت ہو تو حتی الامکان آواز کی نزاکت ولطافت کو ختم کرے اور کسی قسم کی بداخلاقی کے بغیر بتکلف پھیکے انداز میں بات چیت کرے۔

 -6شادی شدہ ہونے کی صورت میں شوہر کی  طرف سے نوکری کرنے کی اجازت ہو، اور غیر شادی شدہ ہونے کی صورت میں ولی یعنی والد وغیرہ کی اجازت ہو۔

 -7معصوم بچوں اور اہلِ خانہ کے شرعی حقوق ضائع نہ ہو رہے ہوں۔

 -8راستے کے کنارے پر  چلےنہ کہ درمیان میں تاکہ فتنہ سے محفوظ رہے۔(مأخوذ از تبويب: 84213 )

آئندہ دینی احکام کا علم حاصل کرنے کے لیے  مختلف پروگرام دیکھنا چھوڑ دیں ۔ بنیادی مسائل کا علم حاصل کرنے  اور ان پر عمل کرنےکےلیے  مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا بہشتی زیور  مطالعہ میں رکھیں ،   اگر کوئی ایسا  مسئلہ درپیش ہو   جو بہشتی زیور میں مذکور نہ ہو تو کسی مستند دارالافتا ء سے پوچھ  کر اس کے مطابق عمل  کریں۔

  وسوسے کی وجہ سے عور ت کی نوکر ی کو کفر سمجھنے سے کفر کا ارتکاب لازم نہیں آتا اس لیے تجدیدِ ایمان یا تجدیدِ  نکاح  کی ضرورت نہیں،البتہ کسی ماہر نفسیات سے   وسوسہ کا علاج کریں۔

حوالہ جات

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (1/ 48):

اعلم أنه ذكر في التحرير وشرحه أيضا أنه يجوز ‌تقليد ‌المفضول مع وجود الأفضل. وبه قال الحنفية والمالكية وأكثر الحنابلة والشافعية. وفي رواية عن أحمد وطائفة كثيرة من الفقهاء لا يجوز. ثم ذكر أنه لو التزم مذهبا معينا. كأبي حنيفة والشافعي، فقيل يلزمه، وقيل لا وهو الأصح اهـ وقد شاع أن العامي لا مذهب له.

 إذا علمت ذلك ظهر لك أن ما ذكر عن النسفي من وجوب اعتقاد أن مذهبه صواب يحتمل الخطأ مبني على أنه لا يجوز ‌تقليد ‌المفضول وأنه يلزمه التزام مذهبه وأن ذلك لا يتأتى في العامي.

وقد رأيت في آخر فتاوى ابن حجر الفقهية التصريح ببعض ذلك فإنه سئل عن عبارة النسفي المذكورة، ثم حرر أن قول أئمة الشافعية كذلك، ثم قال إن ذلك مبني على الضعيف من أنه يجب تقليد الأعلم دون غيره.

والأصح أنه يتخير في تقليد أي شاء ولو مفضولا وإن اعتقده كذلك، وحينئذ فلا يمكن أن يقطع أو يظن أنه على الصواب، بل على المقلد أن يعتقد أن ما ذهب إليه إمامه يحتمل أنه الحق. قال ابن حجر: ثم رأيت المحقق ابن الهمام صرح بما يؤيده حيث قال في شرح الهداية: إن أخذ العامي بما يقع في قلبه أنه أصوب أولى، وعلى هذا استفتى مجتهدين فاختلفا عليه الأولى أن يأخذ بما يميل إليه قلبه منهما. وعندي أنه لو أخذ بقول الذي لا يميل إليه جاز؛ لأن ميله وعدمه سواء، والواجب عليه تقليد مجتهد وقد فعل.

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (2/ 411):

قال في البحر: لأن العامي يجب عليه ‌تقليد ‌العالم إذا كان يعتمد على فتواه

القرآن الکریم (31/24):

وقل للمؤمنات يغضضن من ابصارهن ويحفظن فروجهن ولا يبدين زينتهن الا ما ظهر منها وليضربن بخمرهن على جيوبهن ولا يبدين زينتهن الا لبعولتهن او آبائهن او آباء بعولتهن او ابنائهن او ابناء بعولتهن او اخوانهن او بني اخوانهن او بني اخواتهن او نسائهن او ما ملكت ايمانهن او التابعين غير اولي الاربة من الرجال او الطفل الذين لم يظهروا على عورات النساء ولا يضربن بارجلهن ليعلم ما يخفين من زينتهن وتوبوا الى الله جميعا ايه المؤمنون لعلكم تفلحون.

أحکام القرآن-للتهانوی🙁 3/471)

وبالجملة فاتفقت مذاهب الفقهاء وجمهور الأمة علی أنه لايجوز للنساء الشواب کشف الوجوه والأکف بين الأجانب،  ويستثنی منه العجائز لقوله تعالیٰ:"القواعد من النساء"، الآية، والضرورات مستثناة فی الجميع بالإجماع. فلم يبق للحجاب المشروع إلا الدرجتان الأوليتان: الأولیٰ القرار فی البيوت وحجاب الأشخاص، وهو الأصل المطلوب. والثانية خروجهن لحوائجهن مستترات بالبراقع والجلابيب وهو الرخصة للحاجة. ولاشک أن کلتا الدرجتين منه مشروعتان، غير أن الغرض من الحجاب لما کان سد ذرائع الفتنة وفی خروجهن من البيوت ولو للحوائج والضرورات کان مظنة فتنة شرط عليهن الله ورسوله صلی الله عليه وسلم شروطاً يجب عليهن التزامها عند الخروج:

  1. أن یترکن الطیب ولباس الزینة عند الخروج، بل یخرجن وهن تفلات، کما مر فی کثیر من روایات الحدیث مما ذکرنا.
  2. أن لايتحلين حلية فيها جرس يصوت بنفسه، کما فی حديث رقم .42
  3. أن لايضربن بأرجلهن ليصوت الخلخال وأمثاله من حليهن، کما هو منصوص القرآن.
  4. أن لا يتبخترن فی المشية کيلا تکون سبباً للفتنة، کما مر فی حديث رقم  .
  5. أن لا تمشین فی وسط الطریق بل حواشیها، کما فی حدیث رقم 15.
  6. أن يدنين عليهن من جلابیبهن بحیث لایظهر شئ منهن إلا عیناً واحدةً لرؤیة الطریق، کما مر من تفسیر ابن عباس لهذه الآیة.
  7. أن لایخرجن إلا بإذن أزواجهن، کما فی حدیث رقم 38 .
  8. أن لایتکلمن أحداً إلا بإذن أزواجهن، کما فی حدیث رقم.
  9. وإذا تکلمن أحداً من الأجانب عند الضرورة فلایخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبه مرض، کما هو منصوص الکتاب.
  10. وأن يغضضن أبصارهن عن الأجانب عند الخروج.
  11. أن لایلجن فی مزاحم الرجال، کمایستفاد من حدیث ابن عمر رضی الله عنه، لو ترکنا هذا الباب للنساء(رقم25).

فهذه أحد عشر شرطاً وأمثالها یجب علی المرأة التزامها عند خروجها من البیت للحوائج والضروریات، فحیث فقدت الشروط منعن من الخروج أصلاً.

 حضرت خُبیب

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

28/شوال1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

حضرت خبیب بن حضرت عیسیٰ

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب