87302 | سود اور جوے کے مسائل | سود اورجوا کے متفرق احکام |
سوال
آج کل بہت سارے طلباء بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جاتے ہیں اور ان کی بیت یہ ہوتی ہے کہ وہاں تعلیم کے ساتھ جز وقتی ملازمت بھی کریں گے ۔ ایسے طلباء باب اسٹوڈنٹ ویزا کے لئے درخواست دیتے ہیں تو ویزا کے تقاضوں میں ایک شرط یہ ہوتی ہے کہ مطالبعلم کے ذاتی بینک اکاؤنٹ میں مخصوص ، قم ( مثلاً 1175070 کے روپے ) موجود ہو تا کہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ وہ بیرون ملک اپنے تعلیمی و رہائی اخراجات برداشت کرنے کی مالی استطاعت رکھتا ہے۔ یہ رقم حقیقت میں استعمال نہیں کی جاتی ، بلکہ صرف ویزا افسران کو یہ باور کرانے کے لئے بینک اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کی جاتی ہے کہ طالبعلم مالی طور پر مستحکم ہے ۔ اس مقصد کے لئے طلبہ عموما کوئی ایسا فرد یا سرمایہ کار (investor) تلاش کرتے ہیں جو مقررہ مدت ( مثلا دو ماہ) کے لئے یہ رقم ان کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دے۔ جب ویزا جاری ہو جاتا ہے تو وہ رقم اصل مالک کو واپس کر دی جاتی ہے۔ اس عمل کے بدلے وہ طالب علم اس شخص کو ایک مخصوص فیس ادا کرتے ہیں جو عموماً پانچ لاکھ روپے کے لگ بھگ ہوتی ہے۔
اس تناظر میں چند سوالات کے جوابات درکار ہیں :
- کیا بینک اسٹیٹمنٹ کے لئے کسی دوسرے فرد سے عارضی طور پر رقم لے کر اس کو اپنی ذاتی رقم ظاہر کرنا شرعاً جائز ہے ؟
- جو شخص اس مقصد کے لئے رقم فراہم کرتا ہے اور اس کے بدلے مخصوص فیس لیتا ہے ، کیا اس کا لین دین شرعاً جائز ہے ؟
- اگر کسی نے ماضی میں ایسا عمل کیا ہے تو اس کا شرعی حکم اور ازالے کا طریقہ کیا ہے ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
خود کو مالدار ظاہر کرنے کی غرض سے کسی دوسرے شخص کا پیسہ اپنے اکاؤنٹ میں رکھنا اور پھر اس کی فیس ادا کرنا
اجارۃ النقود یعنی زر کو کرایہ پر لینے کا معاملہ ہے، جو کہ فاسد معاملہ ہے۔
لہٰذا یہ معاملہ شرعاً جائز نہیں اور اس کے بدلے فیس لینا بھی جائز نہیں۔
اگر کسی نے ماضی میں ایسے معاملات کئے ہوں تو اولاً تو بہ واستغفار کرے، پھر جتنی رقم اب تک لوگوں سےلی ہے، ان لوگوں کو ان کی رقم واپس کرنا ممکن ہو تو ان کو واپس کی جائے اور اگر ان کو واپس کرنا ممکن نہ ہو تو ثواب کی نیت کےبغیر اصل مالک کی طرف سے کسی مستحق زکاۃ کو دینا ضروری ہو گا۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين = رد المحتارط الحلبي (4/6):
(هي) لغة: اسم للأجرة وهو ما يستحق على عمل الخير ولذا يدعى به، يقال أعظم الله أجرك. وشرعا ( تمليك نفع ) مقصود من العين ( بعوض) حتى لو استأجر ثيابا أو أواني ليتجمل بها أو دابة ليجنبها بين يديه أو دار الاليسكنها أو عبدا أو دراهم أو غير ذلك لا ليستعمله بل ليظن الناس أنه له فالإجارة فاسدة في الكل، ولا أجر له لأنها منفعة غير مقصودة من العين بزازية ..... (قوله أنه له) أي الدار أو العبد وما بعده، وأفرد الضمير لعطف المذكورات بأو، وهذه المسائل ستأتي متنا في الباب الآتي ( قوله ولا أجرة له ) أي ولو استعملها فيما ذكره، وقولهم : إن الأجرة تجب في الفاسدة بالانتفاع " محله فيما إذا كان النفع مقصودا، وقيد في الخلاصة عدم الأجر في جنس هذه المسائل بقوله إلا إذا كان
الذي يستأجر قد يكون يستأجر لينتفع به.
المحيط البرهاني (489/7):
وإذا استأجر الرجل دراهم أو دنانير أو حنطة أو شعيرا أو ما أشبه ذلك من الوزنيات أو الكيلات ليعمل منها كل شهر بدرهم لا تجوز، لأن الإجارة جوزت بخلاف القياس المنفعة مقصودة من الأعيان، والمنفعة المقصودة من الكيلات والموزونات لا يمكن استيفاؤها إلا باستهلاكها فتكون هذه الإجارة معقودة على استهلاك العين، والإجارة لا تنعقد على استهلاك العين.
حاشية ابن عابدين = رد المحتارط الحلبي (99/5):
والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام.
محمد اسماعیل بن اعظم خان
دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
28/شوال1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسماعیل بن اعظم خان | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |