03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
دکان پر زکوٰۃ کا حکم
87324زکوة کابیانسامان تجارت پر زکوۃ واجب ہونے کا بیان

سوال

  میں نے 2021 میں ایک دکان خریدی تھی۔ اور خریدتے وقت ارادہ تھا کہ بعد میں بیچ دوں گا۔ پکا ارادہ نہیں تھا بیچنے کا غالب نیت بیچنے کی ہی تھی لیکن ساتھ میں تھوڑا بہت ارادہ یہ بھی تھا کہ اگر کرائے پر لگ گئی تو کرائے پر لگا دیں گے اور اگر کوئی خریدار ہوا تو بیچ دیں گے ۔ تو اس پر زکوٰۃ کے کیا احکام ہیں؟

 یہ دکان پچھلے تین سالوں سے نہ تو کرائے پر لگ رہی ہے اور نہ ہی فروخت ہوئی ہے۔ اور اب میری یہ دکان اگلے ماہ ان شاء اللہ کرائے پر لگ جائے گی ۔ میں نے پچھلے تین سال سے اس پر کوئی زکوٰۃ نہیں دی۔ تو اس پر زکوۃ کے کیا احکام ہیں ؟

 اب یہ دکان کرائے پر لگنے والی ہے اگلے مہینے ۔ تو کیا ہر مہینے اس کرائے کی رقم کے اوپر زکوۃ دینی ہوگی ؟ اور اگلے دو یا تین سال کے بعد جب بھی دکان بکے گی تو اس پر زکوۃ کا کیا حکم ہوگا ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر دکان کی خریداری آگے فروخت کرنے کی نیت سے کی گئی ہو تو ہر سال اس کی موجودہ مارکیٹ ویلیو معلوم کرکے اس قیمت کو مالِ نصاب میں شامل کیا جائے گا اور کل مال کا ڈھائی فیصد بطورِ زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔ لہٰذا مذکورہ صورت میں چونکہ آپ کی اصل نیت بیچنے کی تھی، اس لیے پچھلے تین سالوں میں ہر سال دکان کی مارکیٹ ویلیو معلوم کرکے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہوگا۔ادائیگی کا طریقہ یہ ہوگا کہ پہلے سال دکان کی قیمت معلوم کرکے اس پر ڈھائی فیصد زکوٰۃ ادا کی جائے، پھر دوسرے سال میں سابقہ سال کی ادا شدہ زکوٰۃ کی رقم منہا کرکے دکان کی قیمت     سے زکوٰۃ ادا کی جائے، اسی طرح تیسرے سال میں سابقہ دو سالوں کی زکوٰۃ کی رقم منہا کرکے باقی قیمت پر ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کی جائے۔

مزید یہ کہ چونکہ اب (2025) میں  دکان کرایہ پر دی گئی ہے، لہذا نیت تجارت ختم ہونے کی وجہ سے یہ دکان اب مال زکوٰۃ سے نکل گئی ہے،  اس صورت میں دکان کی ویلیو پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوگی، البتہ کرایہ کی جو رقم سال مکمل ہونے پر محفوظ ہوگی، اسے دیگر اموال زکوٰۃ  کے ساتھ ملا کر نصاب مکمل ہونے کی صورت میں اس پر زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔آئندہ اگر دکان فروخت کی جائے تو اس کے بدلے حاصل ہونے والی رقم پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔

حوالہ جات

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق " 3 / 261:

والفعلي ما يكون بإعداد العبد ، وهو العمل بنية التجارة كالشراء والإجارة فإن اقترنت به النية صارت للتجارة ، وإلا فلا ، ولو نواه للتجارة بعد ذلك لا يكون للتجارة حتى يبيعه ؛ لأن التجارة عمل فلا يتم بمجرد النية بخلاف ما إذا كان للتجارة ونواه للخدمة حيث يكون للخدمة بالنية ؛ لأنها ترك العمل فيتم بها ۔

«تحفة الفقهاء» (1/ 271):

«أصل الباب ما ذكرنا أن المعتبر في باب التجارة معنى المالية والقيمة دون العين لأن سبب وجوب الزكاة هو المال النامي الفاضل عن الحاجة والنماء في ‌مال ‌التجارة بالاسترباح وذلك من حيث المالية إلا أن حقيقة النماء مما يتعذر اعتباره فأقيمت التجارة التي هي سبب النماء مع الحول الذي هو زمان النماء مقامه فمتى حال الحول على ‌مال ‌التجارة يكون ناميا فاضلا عن الحاجة تقديرا»

 وفي الکبریٰ:

 إذا اشتریٰ داراً أو عبداً للتجارۃ فاٰجرہ خرج من أن یکون للتجارۃ؛ لأنہ لما آجرہ فقد قصد الغلۃ فخرج عن حکم التجارۃ۔ (تاتارخانیۃ زکریا ۳؍۱۶۷)

زاہد خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

26  /شوال 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زاہد خان بن نظام الدین

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب