03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
احرام باندھے بغیر بغیر میقات سے گزرنے کا حکم
87327حج کے احکام ومسائلحج کے جدید اور متفرق مسائل

سوال

میرا ایک دوست رمضان المبارک میں عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ گیا تھا۔ عمرہ ادا کرنے کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے گیا۔ مدینہ منورہ سے دوبارہ مکہ مکرمہ واپس آیا، لیکن واپسی پر اس نے عمرہ ادا نہیں کیا اور نہ ہی عمرہ ادا کرنے کا ارادہ تھا،کیونکہ حرم شریف میں رش زیادہ تھا اور اس نے کسی سے یہ بھی سنا تھا کہ اگر عمرہ کا ارادہ نہ ہو تو بغیر احرام کے مکہ مکرمہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا وہ بغیر احرام کے مکہ مکرمہ پہنچ گیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس کا یہ عمل درست نہیں  تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ: کیا اس پر دم واجب ہے؟ یا عمرہ؟ یا دونوں واجب ہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

آفاقی شخص (یعنی وہ جو حرم یا میقات کی حدود میں رہنے والا نہ ہو) جب مکہ مکرمہ میں داخل ہونا چاہےتو اس کے لئے ضروری ہے کہ میقات سے پہلے احرام باندھ کر میقا ت سے گزرے، اگر احرام باندھے   بغیر میقات سے گزر گیا تو اس پر ایک دم دینا   لازم ہے ا ور قضاء کی نیت سے ایک عمرہ ادا کرنا بھی  لازم ہوجاتا ہے۔

صورت مسئولہ میں آپ کا دوست  بغیر احرام باندھے حدود حرم میں داخل ہوا ہے، اس کی  وجہ سے اس پر ایک دم دینا لازم ہے ا ور قضاء کی نیت سے ایک عمرہ ادا کرنا بھی لازم  ہوگیا ہے ،البتہ اگر وہ عمرہ قضاء کرنے کی نیت سے دوبارہ میقات پر جاکر احرام باندھے اور  عمرہ ادا کرے تو اس کی وجہ سے اس سے دم ساقط ہوجائے گا۔

حوالہ جات

حاشية ابن عابدين= رد المحتار ط الحلبي (2/ 579):

 (آفاقي) مسلم بالغ (يريد الحج) ولو نفلا (أو العمرة) فلو لم يرد واحدا منهما لا يجب عليه دم بمجاوزة الميقات، وإن وجب حج أو عمرة إن أراد دخول مكة أو الحرم على ما سيأتي في المتن قريبا (وجاوز وقته) ظاهر ما في النهر عن البدائع اعتبار الإرادة عند المجاوزة (ثم أحرم لزمه دم؛ كما إذا لم يحرم، فإن عاد) إلى ميقات ما (ثم أحرم أو) عاد إليه حال كونه (محرما لم يشرع في نسك) صفة: محرما كطواف ولو شوطا، وإنما قال (ولبى) لأن الشرط عند الإمام تجديد التلبية عند الميقات بعد العود إليه خلافا لهما (سقط دمه).

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 164):

لو أراد بمجاوزة هذه المواقيت دخول مكة لا يجوز له أن يجاوزها إلا محرما، سواء أراد بدخول مكة النسك من الحج أو العمرة أو التجارة أو حاجة أخرى.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 165):

ولو جاوز الميقات يريد دخول مكة أو الحرم من غير إحرام يلزمه إما حجة وإما عمرة؛ لأن مجاوزة الميقات على قصد دخول مكة أو الحرم بدون الإحرام لما كان حراما كانت المجاوزة التزاما للإحرام دلالة، كأنه قال: لله تعالى علي إحرام، ولو قال ذلك يلزمه حجة أو عمرة، كذا إذا فعل ما يدل على الالتزام كمن شرع في صلاة التطوع ثم أفسدها يلزمه قضاء ركعتين، كما إذا قال: لله تعالى علي أن أصلي ركعتين، فإن أحرم بالحج أو بالعمرة قضاء لما عليه من ذلك لمجاوزته الميقات، ولم يرجع إلى الميقات، فعليه دم؛ لأنه جنى على الميقات لمجاوزته إياه من غير إحرام، ولم يتداركه فيلزمه الدم جبرا

محمد اسامہ فاروق

دارالافتاء جامعۃ الرشید کراچی

2/ذی القعدہ1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اسامہ فاروق بن محمد طاہر فاروق

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب