03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جائیداد تقسیم ہونے کے بعد کسی چیز کا دعوی کرنا
87068دعوی گواہی کے مسائلمتفرّق مسائل

سوال

میرے والد صاحب (مرحوم) کا خاندان چار بھائیوں پر مشتمل تھا ،اج سے تقریبا پچپن (55) سال پہلے چاروں بھائیوں نے مشترکہ خاندان کے بڑھتے ہوئے تقاضوں اور آبادی میں اضافے کے پیش نظر با ہمی صلاح مشور سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔ اسی تناظر میں رائج الوقت ضابطوں کے مطابق قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں تمام اثاثہ جات کی تقسیم  کا عمل خوش اسلوبی سے مکمل کرکے   چاروں بھائیوں نے مشتر کہ خاندانی نظام کو خیر باد کہہ کر علیحدگی اختیار کی اور اپنا اپنا کام، کاروبار شروع کیا ۔اب ایک چا چا کے تین  بیٹوں میں سے ایک بیٹے کی طرف سے تحفظات سامنے آئیں ہیں کہ آبا ؤاجداد کی علیحدگی کے وقت اثاثہ جات کی تقسیم صحیح نہیں ہوئی تھی۔ اس کے تحفظات میں منجملہ میرے والد صاحب ( مرحوم ) کے حصے میں تقسیم کے وقت آئی ہوئی گرہ کوڑی ٹانک میں واقع زمین قابل ذکر ہے جبکہ اس چاچاکے باقی دو  بیٹوں اور دوسرے چچا کی اولا داور تایا کی اولا داپنے بڑوں کی تقسیم سے متفق ہیں اور کسی کو بھی آباؤاجداد کی تقسیم پر اعتراض نہیں۔

حقائق:

1۔حکومت پاکستان کے رائج الوقت قانونی اور عدالتی نظام کی رو سے آبا واجداد کے علیحدگی کے وقت اثاثہ جات کی تقسیم                                                                 اٹل اور حتمی ہے۔

2۔تحفظات کی زد میں مذکورہ زمین آباو اجداد کی علیحدگی سے پہلے بھی والد صاحب ( مرحوم ) کے نام تھی اور تقسیم اثاثہ جات کے وقت بھی والد صاحب ( مرحوم ) کے حصے میں آئی تھی اور والد صاحب ( مرحوم ) نے اپنی زندگی میں تقریبا 20 سال پہلے مذکورہ زمین کی ملکیت بیٹے کے نام (یعنی میرے بھائی کے نام منتقل کی تھی جو آج تک برقرار ہے۔

3۔علیحدگی کے وقت جملہ معاملات علاقائی رسم ورواج کی روشنی میں مل بیٹھ کر جرگہ کی شکل میں مل بیٹھ کر طے ہوے تھے ،اسی وجہ سے تقسیم کے وقت کی کوئی تحریر یا معاہدہ یا سٹیمپ پیچ موجود نہیں۔

4۔علیحد گی کے وقت چاروں بھائیوں نے اثاثہ جات کی تقسیم بخوشی تسلیم کی تھی اور اب سب اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں۔

5۔علیحدگی کے وقت کا کوئی بھی چشم دید گواہ ایسا موجود نہیں جو علیحدگی کے وقت تقسیم اثاثہ جات کے جزیات سے باخبر ہو اور گواہی دے سکے کہ ایک بھائی کے ساتھ نا انصافی ہوئی تھی۔

 کیا دوبارہ سے اثاثہ جات کی تقسیم ضروری ہے یا  جو تقسیم  ہوئی تھی اسی کو برقرار رکھے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  صورت مذکورہ میں موجود تفصیل کے مطابق اگر کسی قسم کی کوئی ظالمانہ تقسیم نہیں ہوئی ، تما م حضرات کی رضامندی اور اجازت سے جائیداد کی تقسیم ہوئی ہے تو اب کسی کا انفرادی دعوی شرعا قابل قبول نہیں ہے  ،بلکہ جو تقسیم پہلے ہوئی تھی اسی کو برقرار رکھا جائے ،دوبارہ سے تقسیم  کرنےکی ضرورت نہیں ہے۔

حوالہ جات

المجلة (ص🙁 333-336:

( مادة ١٦٤٧ ) التناقض ١٦١٥ يكون مانعاً لدعوى ١٦١٣ الملك ١٢٥ ، مثلا لو أراد أحد أن يشتري مالاً ١٢٦ ثم ادعى ١٦١٣ بأنه كان ملكه قبل الاشتراء لا تسمع دعواه . وكذلك لو قال ليس لي حق عند فلان أصلا ثم ادعى عليه شيئاً لا تسمع دعواه ، وكذلك لو ادعى أحد على آخر بقوله كنت أعطيتك كذا مقداراً من الدراهم على أن تعطيها لفلان والحال أنك ما أعطيتها له ولكونها في يدك أطلبها منك وأنكر المدعى عليه ١٦١٣ ذلك فأقام المدعي ١٦١٣ البيئة ١٦٧٦ ثم رجع المدعى عليه وأراد دفع ١٦٣١ الدعوى بقوله نعم كنت أعطيتني ذلك المبلغ وأنا دفعته إلى من أمرت فلا يسمع دفعه .

(مادة ١٦٥٩ )إذا باع أحد مالا على أنه ملكه في حضور آخر لشخص وسلمه ثم ادعى الحاضر بأنه ملكه مع أنه كان حاضرا في مجلس البيع وسكت بلا عذر فينظر إلى أن الحاضر هل كان من أقارب البائع أم لا؟ فإن كان من أقاربه أو زوجها أو زوجته لا تسمع دعواه هذه مطلقا، وإن كان من الأجانب فلا يكون حضوره وسكوته في مجلس البيع فقط مانعا لدعواه، بل بعد حضوره وسكوته في مجلس البيع بلا عذر إن تصرف المشتري في ذلك الملك تصرف الملاك بناء أو هدما أو غرسا ورآه الحاضر، ثم بعد ذلك لو ادعى بقوله هذا ملكي أو لي فيه حصة فلا تسمع دعواه.

 زاہد خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

03/رمضان 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زاہد خان بن نظام الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب