03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مشترکہ خاندان میں رہ کر مال خرچ کرنے کا حکم
87304امانت ودیعت اورعاریت کے احکاممتفرق مسائل

سوال

ہم چار بہنیں اور ایک بھائی ہیں،سن 1990 ء میں ہم نے ایک فلیٹ لیا تھا ،جس میں پچاس ہزار والد صاحب کے تھے، باقی ہم تین بہنوں کی کمائی  تھی ، کیونکہ ہم   اس وقت نوکری کیاکرتی تھیں ۔ ہماری تنخواہ سے والدہ کمیٹیاں ڈالتی تھیں، جس کے ذریعہ ہم نے فلیٹ کی قیمت اداء کی۔ فلیٹ کی قیمت ایک لاکھ ساٹھ ہزار تھی، اب اس کی قیمت چھبیس لاکھ  روپےہے۔پوچھنا یہ ہے کہ اب پچاس ہزار سے پانچ حصے ہوں گے یا  ہم نے جو لگائی وہ رقم ملا کر   اس کے پانچ حصے بنائیں؟

نوٹ : والدین   کاا نتقال دو سال پہلے ہوا ہےاور انہوں نے یہ فلیٹ   میرے نام کیا تھا۔

سوال کی تنقیح: سائل سے رابطہ کرکہ معلوم ہوا کہ یہ فلیٹ ہم بہنوں نے مشترکہ پیسوں سے خریدا تھا ،اس میں پچاس ہزار روپے  کم پڑ رہے تھے تو والد صاحب نے اس کی  ادائیگی کی۔

سوال کی دوبارہ تنقیح:والد صاحب نے فلیٹ خریدتے وقت میرے نام کیا تھا،بعد میں دوبارہ سے کوئی قبضہ یا ہبہ نہیں کیا تھا۔فلیٹ کا رقبہ 620 سکوائر فٹ ہے۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  مشترکہ ملکیت کی تقسیم   میں ہر شریک کو اس کی لگائی ہوئی رقم کے بقدر حصہ ملے گا  ۔ کسی کے نام پر جائیداد خریدنے کا مقصد اس کو ہبہ (گفٹ) کرنا مقصود ہوتا ہےاور ہبہ کے  لئے ضروری کہ وہ چیز واہب(گفٹ کرنے والا) کی ملکیت میں ہو، ظاہر ہے کہ خریداری کے بعد ہی ملکیت ثابت ہوتی ہے،لہٰذا خریداری کے بعد کوئی ایسا  عمل ہونا ضروری ہے جو ملکیت کی منتقلی (تملیک) پر دلالت کرے۔ اگر تملیک پردلالت کرنے والا کوئی فعل  نہ ہو تو صرف  دوسرے کے نام  کرنے سے اس کی ملکیت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ جائیداد بدستور خریدار ہی کی ملکیت میں  رہے گی۔ (مستفاد از امداد الفتاوی،جلد6/صفحہ 322 )۔

لہذا صورت مسؤولہ میں فليٹ صرف نام کرنے سے ہبہ نہیں ہوگا، بلکہ فلیٹ مشترک ہی رہے گا ،اس لئے آج   فلیٹ کی  جوبھی رقم  بنے ، اس میں  ا یک لاکھ دس ہزار  روپے کے تناسب سے  تینوں  بہنوں  کو ان کے لگائے ہوئےسرمایہ کے مطابق حصہ ملےگا۔ باقی پچاس ہزار کے تناسب جو رقم بچ جائے وہ والد صاحب کی میراث ہے ،اس لئے اس کو تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم کیا جائے گا۔فیصدی تقسیم درجہ ذیل طریقے سے ہوگی:

فریق

اصل سرمایہ 

موجودہ حصہ کی قیمت

فیصد حصہ

تین بہنیں

110,000

1,787,500

68.75%

والد  صاحب

50,000

812,500

31.25%


 

حوالہ جات

لمجلة (ص: 206):

مادة1073: الأموال المشتركة شركة الملك تقسم حاصلاتها بين أصحابها على قدر حصصهم، فإذا شرط أحد الشريكين في الحيوان المشترك شيئا زائدا على حصته من لبن ذلك الحيوان أو نتاجه فلا يصح.

 فی بدائع الصنائع (  زكريا ٥/١٧٢، كراتشي ٦/١٢١):

ولو وهب منه نصف الدار وسلم اليه بتخلية الكل ثم وهب منه النصف الآخر وسلم لم تجز الهبة لان كل واحد منهما هبة المشاع وهبة المشاع فيما يقسم لاتنفذ الا بالقسمة والتسليم ويستوي فيه الجواب في هبة المشاع بين ان يكون من اجنبي او شركة شريكه.

 زاہد خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

          29 /شوال/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زاہد خان بن نظام الدین

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب