87357 | حکومت امارت اور سیاست | دارالاسلام اور دار الحرب اور ذمی کے احکام و مسائل |
سوال
کچھ حضرات سے سنا ہےکہ حربی کافر کا مال مباح الاستعمال ہوتا ہے۔ كیا یہ درست ہے؟ اور موجودہ دور میں کن ممالک کو حربی تصور کیا جا سکتا ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
کافر حربی کا مال مطلقاً مباح الاستعمال نہیں ہے، لہذا اگر کوئی کافر حربی اسلامی ملک میں ویزہ لے کر آیا ہو یہاں امن و سکون اور قانون کی پاسداری کر کے رہ رہا ہو، تو وہ مستامن کہلائے گا اوراُس کا مال کسی کے لیے لینا جائز نہیں ،اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی دارالحرب میں رہتا ہو یا کوئی مسلمان ویزہ لے کر کسی کافر ملک میں گیا ہو ، تو وہاں کسی کافر حربی کے مال کو نقصان پہنچانے کی صورت میں وہ ضامن ہوگا، اور اگر کسی مسلمان نےکسی کافر حربی کی کوئی چیز اُسے بتائے بغیر لے لی ہو تو واپس کرنا ضروری ہے اور اگر لوٹانا ممکن نہ ہوتو اُسے صدقہ کردینا چاہیے۔ البتہ اگر کافر حربی مسلمانوں کے خلاف جنگ میں برسرپیکار ہو، تو اس صورت میں اُس کا مال مباح الاستعمال ہوگا۔
دار الحرب وہ علاقہ ہے جہاں زندگی کے تمام شعبوں میں احکام اسلام اور اسلامی نظام کو نافذ کرنے کی قدرت نہ ہو۔(ماخوذ از احسن الفتوی ، جلد 6/صفحہ 27)
حوالہ جات
«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (4/ 166):
«المستأمن أي الطالب للأمان (هو من يدخل دار غيره بأمان) مسلما كان أو حربيا (دخل مسلم دار الحرب بأمان حرم تعرضه لشيء) من دم ومال وفرج (منهم) إذ المسلمون عند شروطهم(فلو أخرج) إلينا (شيئا ملكه) ملكا (حراما) للغدر (فيتصدق به) وجوبا، قيد بالإخراج لأنه لو غصب منهم شيئا رده عليهم وجوبا (»
زاہد خان
دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
02/ذی قعدہ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | زاہد خان بن نظام الدین | مفتیان | محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب |