03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
“تین طلاق” کی دستاویزپر لاعلمی میں دستخط کرنے کا  حکم
87070طلاق کے احکامطلاق کے متفرق مسائل

سوال

میری بیوی کے ساتھ گھر کے کچھ مسائل چل رہے تھے ،اس کی وجہ سے میری بیوی نے  اپنے والدین اور جرگہ  کے سامنے اپنی مرضی سے علیحدگی کا فیصلہ کیا ۔میں اپنی بیوی کو طلاق نہیں دینا چاہتا تھا لیکن جرگہ کے معززین کے دباؤ کی وجہ سے میں نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دینے کی نیت کی ،تاکہ اس کے بعد رجوع کی صورت رہے، میں نے اپنے منہ سے کوئی لفظ اداء نہیں کیا ،تحریر بیوی کی مرضی سے بنائی گئی ،مجھے ایک طلاق کا کہا اور اس تحریر کے اوپر دستخط لئے گئے، یہ معاملہ میرے ساتھ پہلی بار پیش آیا تھا اس لیے مجھے کاغذات کا کوئی علم نہیں تھا کہ یہ ایک طلاق کے بنے ہیں یا تین طلاق کے۔واضح رہے کہ بقول سائل کے منشی نے جلدی سے طلاق کے نوٹس پر دستخط کرائے، بلکل پڑھنے بھی نہیں دیا ،سائل نے ایک طلاق کی نیت سے دستخط کئے  اوربعد میں پتہ چلا کہ وہ تین طلاق کا نوٹس تھا، یہ ساری کاروائی وکیل نے یا منشی نے کی۔ برائے مہربانی راہنمائی فرمائیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً آپ کے علم میں نہیں تھا کہ مذکورہ کاغذ پر تین طلاق کے الفاظ لکھے ہیں اور نہ ہی آپ کی تین  طلاق دینے کی نیت تھی، جیساکہ سوال میں آپ نے  ذکر کیا ہے تو اس صورت میں آپ کی بیوی پر  دیانتاً تین طلاقیں واقع نہیں ہوئیں، کیونکہ طلاق کے وقوع کےلیے  زبانی یا تحریری طور پر لفظِ طلاق کی شوہر کی طرف نسبت ضروری ہے، لہذا  مذکورہ صورت میں آپ کو تین طلاق کے الفاظ کا علم نہ ہونے کی وجہ سے آپ کی طرف تین طلاق کی نسبت ثابت   نہیں ، لہذا تین طلاقیں واقع نہ ہوں گی ،تاہم چونکہ آپ   کو اس کاغذ کے طلاق نامہ ہونے کا علم تھا، اس لیے ایک طلاقِ رجعی واقع ہو گئی ہے۔ اب آپ کو مزید دو طلاقوں کا اختیار حاصل ہے۔البتہ  اگر ابھی عدت نہ گزری ہوتو بغیر نئے نکاح کے رجوع کرے اور عدت گزرگئی ہو تو باقاعدہ دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے میاں بیوی اپنی ازدواجی زندگی جاری رکھ سکتے ہیں۔

حوالہ جات

الفتاوى الهندية (1/ 379) دار الفكر،بيروت:

وكذلك كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع به الطلاق إذا لم يقر أنه كتابه كذا في المحيط والله أعلم بالصواب.

فتح القدير للكمال ابن الهمام (4/ 5)باب إيقاع الطلاق،  دار الفكر:

وفي الخلاصة أيضا: قالت لزوجها: اقرأ علي اعتدي أنت طالق ثلاثا ففعل طلقت ثلاثا في القضاء لا فيما بينه وبين الله تعالى إذا لم يعلم الزوج ولم ينو، وهذا يوافق ما في المنصوري، ويخالف مقتضى ما ذكره آنفا من مسألة التلقين بالعربية، والذي يظهر من الشرع أن لا يقع بلا قصد لفظ الطلاق عند الله تعالى، وقوله فيمن سبق لسانه واقع: أي في القضاء، وقد يشير إليه قوله ولو كان بالعتاق يدين، بخلاف الهازل لأنه مكابر باللفظ فيستحق التغليظ، وسيذكر في أنت طالق إذا نوى به الطلاق من الوثاق يدين فيما بينه وبين الله تعالى مع أنه أصرح صريح في الباب ثم لم يعارض ذلك قوله ولا يحتاج إلى النية لأن المعنى لا يحتاج إلى النية: يعني اللفظ بعد القصد إلى اللفظ.

والحاصل أنه إذا قصد السبب عالما بأنه سبب رتب الشرع حكمه عليه أراده أو لم يرده إلا إن أراد ما يحتمله. وأما أنه إذا لم يقصده أو لم يدر ما هو فيثبت الحكم عليه شرعا وهو غير راض بحكم اللفظ ولا باللفظ فمما ينبو عنه قواعد الشرع، وقد قال تعالى {لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم} [البقرة: 225] وفسر بأمرين: أن يحلف على أمر يظنه كما قال مع أنه قاصد للسبب عالم بحكمه فإلغاؤه لغلطه في ظن المحلوف عليه، والآخر أن يجري على لسانه بلا قصد إلى اليمين كلا والله بلى والله، فرفع حكمه الدنيوي من الكفارة لعدم قصده إليه، فهذا تشريع لعباده أن لا يرتبوا الأحكام على الأسباب التي لم تقصد، وكيف ولا فرق بينه وبين النائم عند العليم الخبير من حيث إنه لا قصد له إلى اللفظ ولا حكمه وإنما لا يصدقه غير العليم وهو القاضي.

 زاہد خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

04/رمضان 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زاہد خان بن نظام الدین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب