03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
جان بچانے کے لیے جھوٹی قسم اور زبردستی دی گئی طلاق کا حکم
87135طلاق کے احکاممدہوشی اور جبر کی حالت میں طلاق دینے کا حکم

سوال

ہمارے علاقے میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ اکثر نامعلوم افراد سڑکوں پر ناکے لگا کرسرکاری ملازمین سے مختلف سوالات کرتے ہیں، جن میں درج ذیل مسائل شامل ہیں:

1۔وہ سرکاری ملازمین سے اللہ کی قسم لیتے ہیں کہ وہ سرکاری ملازم نہیں ہیں۔ اگر کوئی سرکاری ملازم جان بچانے کے لیے جھوٹا حلف اٹھا لے کہ وہ سرکاری ملازم نہیں، تو کیا یہ گناہ ہوگا؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اور اگر گناہ ہے تو کیوں؟ کیا جان بچانے کی خاطر جھوٹ بولنے کی اجازت ہے؟

2۔بعض اوقات سرکاری ملازمین پر دباؤ ڈال کر ان سے تین طلاق کے  کلما ت اداء کروائےجاتے  ہیں۔ اگر کوئی 55 سالہ ملازم، جس کی دس اولادیں ہوں، محض جان بچانے کی غرض سے طلاق دے دے، تو کیا اس کی طلاق واقع ہوگی؟ اگر طلاق واقع ہو جاتی ہے تو اس عمر میں بیوی اور بچوں کو چھوڑنا ممکن نہیں، اور وہ ساری زندگی گناہ میں مبتلا رہے گا۔ ایسی صورت میں کیا حکم ہوگا؟

3۔اگر کسی سرکاری ملازم کو یرغمال بنا لیا جائے، اور اس سے جھوٹی قسم یا طلاق کا مطالبہ کیا جائے، تو کیا جان بچانے کے لیے جھوٹ بولنے یا زبردستی طلاق دینے کی گنجائش ہوگی؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 فقہاء نے زبدرستی یعنی اکراہ   کے  وقوع کے لئے درجہ ذیل شرائط ذکر کئے ہیں   :

پہلی شرطجس شخص کی طرف سے دھمکی دی گئی ہو وہ اس کے پورا کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔

دوسری شرطجس شخص کو دھمکی دی گئی ہو اس کا یقین یا غالب گمان ہو کہ دھمکی دینے والا شخص مذکورہ کام نہ کرنے کی صورت میں دھمکی پر عمل کرگزرے گا۔

تیسری شرطجس چیز کی دھمکی دی گئی ہو وہ جان سے مارنا یا کسی عضو کو ضائع کرنا یا کوئی ایسی چیز ہو کہ اس کے خوف کی وجہ سے اس کام کے کرنے پر آدمی کی رضامندی باقی نہ رہے۔

چوتھی شرطجس کام کے کرنے پر آدمی کو مجبور کیا جا رہا ہو، آدمی اکراہ اور زبردستی سے پہلے کسی شرعی یا انسانی حق کی

وجہ سے اس کام کو نہ کر رہا ہو۔

ان شرائط کے ساتھ اکراہ شرعاًوہ اکراہ شمار ہوگا،  جس سے شرعی احکام میں تبدیلی آتی ہے۔البتہ یہ بات قابل وضاحت ہے کہ اکراہ سے شرعی احکام میں کیا تبدیلی آتی ہے ؟ اس حوالے سے فقہاء اسلام میں کچھ اختلاف ہے مثلاً قسم ،طلاق ، عتاق وغیرہ ناقابل فسخ تصرفات میں حنفیہ ؒ  کے ہاں اکراہ کا اعتبار نہیں  ، چناچہ فقہاء احناف ؒ نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص سے زبردستی قسم دلوائی جائے یا طلاق کے الفاظ کہلوائے جائیں تو اس شخص کی قسم اور طلاق دونوں واقع ہو جائیں گی، البتہ اس پر کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہوگا، کیونکہ حدیث میں ہے کہ "امتِ محمدیہؐ سے خطا، نسیان (بھول چوک) اور جبر (زبردستی) میں کیے گئے اعمال پر مؤاخذہ نہیں ہوگا، یعنی ان پر کوئی گناہ نہیں"۔ یہ حکم فقہِ حنفی کے مطابق ہے، جبکہ اس کے برعکس امام شافعیؒ کے نزدیک اکراہ کی صورت میں نہ طلاق واقع ہوگی اور نہ ہی قسم۔

صورتِ مسئولہ کے مطابق اگر کوئی شخص جان بچانے کے لیے جھوٹی قسم کھاتا ہے یا طلاق دیتا ہے، تو شرعاً اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، البتہ اگر وہ اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے، تو فقہِ حنفی کے مطابق طلاق واقع ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر کسی کو یرغمال بنا کر طلاق کے الفاظ کہلوائے جائیں تو اس کی طلاق بھی واقع ہو جائے گی، جبکہ شافعی مسلک کے مطابق ایسی صورت میں طلاق واقع نہ ہوگی۔ ضرورت اور حاجت کے پیشِ نظر    یہ  گنجائش معلوم ہوتی ہے کہ حنفی مسلمان ایسی صورت میں کسی شافعی مفتی سے فتوی لے کر اس کے مطابق عمل کرلیں، کیونکہ ملک میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی وجہ سے سرکاری ملازمین، خصوصاً پولیس یا فوجی اہلکاروں کو اس قسم کی صورتحال کا سامنا بکثرت ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر ان پر زبردستی کی جائے اور وہ جان بچانے کے لیے طلاق کے الفاظ کہہ  دیں، تو  شافعی مسلک پر ان کی طلاق واقع نہ ہوگی،اور ان کے لئے ایسی مجبوری میں گنجائش ہوگی کہ شافعی مفتی سے پوچھ کر عمل کرلیں۔

حوالہ جات

«تفسير مقاتل بن سليمان» (1/ 232):

«قال: ربنا ولا تحملنا ما لا طاقة لنا به واعف عنا يقول واعف عنا من ذلك واغفر لنا يقول وتجاوز عنا، عن ذنوبنا من ذلك كله واغفر وارحمنا أنت مولانا يقول أنت ولينا فانصرنا على القوم الكافرين- 286- يعني كفار مكة وغيرها إلى يوم القيامة قال الله- تعالى-: ذلك لك. فاستجاب الله- عز وجل له ذلك فيما سأل وشفعه في أمته وتجاوز لها عن الخطايا والنسيان وما ‌استكرهوا عليه. فلما نزلت قرأهن النبي- صلى الله عليه وسلم على أمته وأعطاه الله- عز وجل[49 ب] هذه الخصال كلها في الآخرة ولم يعطها أحدا من الأمم الخالية.»

«التجريد للقدوري» (10/ 4912):

«قال أصحابنا: ‌طلاق ‌المكره وعتاقه ويمينه ونكاحه ونذره يصح. وقال الشافعي: لا يصح.  فإن

قيل: المعنى في الرضاع أنه فعل والإكراه لا يؤثر في الأفعال، والطلاق قول والإكراه يؤثر في الأقوال كالبيوع ولأن المجنون لو أعتق أمته لم تعتق ولو استولدها ثبت الاستيلاد، وكان الفرق بينهما أن أحدهما قول والآخر فعل - قلنا: والإكراه قد يؤثر في الأفعال بدلالة المكره على شرب الخمر لا يجب عليه الحد وكذلك المكره على الزنا عندهم. والأقوال قد لا يؤثر فيها الإكراه لأنه إذا أكره الحربي على الإيمان صح إيمانه. ولأن المجنون إنما اختلفت أقواله وأفعاله لأن الجنون لا يقع في الأفعال ويقع في الأقوال، والإكراه يؤثر فيما يؤثر فيه عدم الاختيار كالبيع يؤثر فيه فقد الاختيار والطلاق لا يؤثر فيه ذلك.

23765 - ويدل عليه أن المكره مكلف، بدلالة أنه يجوز عليه أن يقتل ويزني وإن أكره على ذلك ومباح له أن يظهر كلمة الكفر، وواجب عليه أن يشرب الخمر ويأكل الميتة، فلما خوطب بالحظر والإباحة والإيجاب دل على أنه مكلف، والمكلف إذا خاطب زوجته بالطلاق وقع طلاقه كالغضبان»

23766 - احتجوا: بما روى أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: رفع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه.

23768 - فإن قيل: روى هذا الخبر بألفاظ منها (عفي لأمتي) [ومنها تجاوز] ومنها (رفع) فيحمل رفع على معنى اللفظين.- قلنا: [هذا يحقق ما قلنا: أن العفو] والتجاوز يستعمل في رفع المأثم –وهو فيه أظهر- كلفظ الرفع، فالواجب حمل لفظ الرفع عليه.

23772 - فإن قيل: الذي استكره عليه هو وقوع الطلاق فيجب أن يكون مرفوعًا.

23773 - قلنا: هذا غلط إنما يكره على اللفظ والحكم لا يصح الإكراه عليه لأنه ليس من فعله فلم يبق إلا أن يكون المرفوع اللفظ وذلك غير مرتفع باتفاق فعلم أن الذي رفع بالإكراه هو المؤاخذة والمأثم.

 زاہد خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

12/رمضان 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

زاہد خان بن نظام الدین

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سیّد عابد شاہ صاحب