03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
وارث کے لئے وصیت کاحکم
87417میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

 میری نانی گاؤں میں جس گھر میں رہتی تھی ،وہ انہوں نے    میری والدہ کو دیا تھا اور اپنے بیٹوں کو بھی یہ بات بتائی تھی کہ اس گھر میں تمہارا اور تمہارے بیٹوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ میری والدہ کے بقول  نانی نے جو تحریر وصیت  میں لکھی تھی اس کو ماموں نے  جلا دیا ہے، پھر جب میری والدہ نے اپنا حصہ لینے کیلئے کیس دائر کیا تو ان لوگوں نے میری والدہ کو کہا کہ تم اپنا حق پہلے لے  چکی ہو ،حالانکہ میری والدہ نے کبھی یہ بات نہیں کی ہے کہ مجھے میرا حق مل چکا  ہے۔اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے،میری والدہ کو حصہ ملے گا یا نہیں ؟

ہمارے جو مخالف لوگ ہیں، وہ اس بات پر قسم کھا رہے ہیں کہ تمہاری والدہ پہلے ہی اپنا حصہ لے چکی ہیں اور میری والدہ یہی قسم کھا رہی ہیں کہ ان لوگوں نے مجھے کوئی حصہ نہیں دیا ۔اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے، جب دونوں فریقین اپنی بات کی سچائی کیلئے قسم کھا رہے ہیں، اور یہ صورت کیسے حل ہوگی؟

(تنقیح : سائل کی نانی وفات پا چکی ہیں۔ )

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

  واضح رہے کہ شرعا ً    کسی شخص کے لئے اپنے  وارث کے  حق میں وصیت درست نہیں ، اگر کسی نے وارث کے لئے وصیت کی، تو اس وصیت  کا نفاذ دیگر ورثاء کی رضامندی پر موقوف ہوگا۔

چونکہ صورت مسئولہ میں دیگر ورثاء اس وصیت پر عمل کے لئے راضی نہیں، تو سائل کی والدہ  دیگر ورثاء سے وصیت پر عمل کرنے کا لازمی مطالبہ نہیں کر سکتی، تاہم  سائل کی والد ہ کا وہ حصہ جو شریعت نے مقرر کیا ہے ،وہ اس حصے  کے مطالبے کا حق رکھتی ہیں اور ورثاء پر لازم ہے کہ وہ تمام ورثاء کو ان کے شرعی حصوں کی ادائیگی یقینی بنائیں۔

جہاں تک قسم کی بات ہے، تو اوپر بیان کی گئی صورت کے مطابق اگر دونوں فریق اس بات پر قسم کھا رہے ہیں کہ میراث میں  شرعی حصہ دیا گیا یا نہیں، تو یاد رکھیں:

جو فریق (یعنی سائل کے ماموں) یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے سائل کی والدہ کو ان کا شرعی حصہ دے دیا ہے، وہ شرعاً مدعی کہلاتے ہیں ،اور سائل کی والدہ، جو یہ  کہہ رہی ہیں کہ انہیں شرعی حصہ نہیں ملا، وہ مدعی علیہ کہلاتی ہیں۔

اس حوالے سے شرعی اصول یہ ہے کہ پہلے مدعی سے گواہ لانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے،اگر وہ شرعی گواہ (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) پیش کر دے، تو اس کی بات معتبر ہوتی ہے ، لیکن اگر مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں، تو مدعی علیہ سے قسم لی جاتی ہے، اگر وہ قسم اٹھا لیں، تو اس کی بات کو معتبر مانا جاتا ہے۔

لہٰذا اگر سائل کے ماموں کے پاس شرعی گواہ موجود ہیں، تو ان کی بات معتبر ہو گی، ورنہ قسم سائل کی والدہ کی معتبر سمجھی جائے گی۔

حوالہ جات

الفتاوى العالمكيرية = الفتاوى الهندية (6/ 90):

‌ثم ‌تصح ‌الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية... ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة.

 حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 655):

(ولا لوارثه وقاتله مباشرة) لا تسبيبا كما مر (إلا بإجازة ورثته) لقوله عليه الصلاة والسلام «لا وصية لوارث إلا أن يجيزها الورثة» يعني عند وجود وارث آخر كما يفيده آخر الحديث وسنحققه (وهم كبار) عقلاء فلم تجز إجازة صغير ومجنون وإجازة المريض كابتداء وصية ولو أجاز البعض ورد البعض جاز على المجيز بقدر حصته.

لبحرالرائق شرح کنز الدقائق 

"(قوله المدعي من إذا ترك ترك والمدعى عليه بخلافه) أي المدعي من لا يجبر على الخصومة إذا تركها والمدعى عليه من يجبر على الخصومة إذا تركها، ومعرفة الفرق بينهما من أهم ما يبتنى عليه مسائل الدعوى، وقد اختلفت عبارات المشايخ فيه فمنها ما في الكتاب، وهو حد عام صحيح، وقيل المدعي من لا يستحق إلا بحجة كالخارج والمدعى عليه من يكون مستحقا بقوله من غير حجة كذي اليد، وقيل المدعي من يلتمس غير الظاهر والمدعى عليه من يتمسك بالظاهر، وقال محمد فی الأصل المدعى عليه هو المنكر، وهذا صحيح.

حسن علی عباسی

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

08/ذی قعدہ/1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

حسن علی عباسی ولد ذوالفقار علی عباسی

مفتیان

مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب