87424 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
ایک پروجیکٹ ہے جس میں مجھے ایک ویب سائٹ پر گیم بنانی ہوگی ۔ گیم کھیلنے کا طریقہ یہ ہوگا کہ گیم کھیلنے کے لئے مثلاٍ(10روپے )فی ٹوکن خریدنا پڑے گااور یہ گیم انفراداً یعنی یک طرفہ کھیلی جائے گی ،گیم میں مقررہ تین منٹ کے اندر گاڑی ایک خاص مقام سے دوسرے خاص مقام تک پہنچانا ضروری ہوگا ،اگر پلیئرگاڑی وہاں پہنچاکر جیتے گا تو اس کو دو 10 والے مزید ٹوکن ملیں گےاور اگر ہارے گا تو اس کا ٹوکن ضائع ہوگا، اس کو کھیلنے کے لئے دوبارہ ٹوکن خریدنا ہو گا،جیتنے پرجو ٹوکن ملے گا وہ انٹرنٹ کمپنی کی طرف سے ملے گا ۔جیتنے والا ٹوکن کمپنی کو دے کر پیسہ وصول کرسکتا ہے ۔کیا شریعت میں یہ جائز ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
مذکورہ گیم میں ہار جیت پر پیسہ لگایا جائے گا،جس میں جیتنے والے کو کمپنی کی طرف سےاضافی پیسے ملا کریں گے اور ہارنے پر پیسے ضائع ہوں گے ،یہ جوے (قمار) کی ایک صورت ہے،جو شرعا ناجائز ہے۔
مزید یہ کہ شریعت میں کسی بھی چیز کی خرید وفروخت کے جواز اور عدم جواز کا مدار اس کے مال متقوم (Valuable and Valid in Shariah) ہونے نہ ہونے پر ہے،جو مال شرعا متقوم ہوگا اس کی خرید وفروخت جائز ہے اور جو متقوم نہیں اس کی خرید وفروخت جائز نہیں۔
مال کے متقوم ہونے کے لیے دو چیزوں کا تحقق ضروری ہے:-1 محرز بالفعل ہو،یعنی وہ مال عملاً کسی کے قبضہ میں ہو۔-2 اس مال میں ایسا انتفاع ہو جو شرعا جائز ہو،یعنی شریعت نے اس انتفاع کے حصول سے منع نہ کیا ہو۔کسی چیز کی مالیت عرف اور مارکیٹ کی روشنی میں طے ہوتی ہے،جبکہ تقوّم شریعت کی روشنی میں طے ہوتی ہے۔لہذا جو چیز مال ہو اور متقوم بھی ہو اس کا بیچنا جائز ہے،اس کے برعکس اگر کوئی چیز سرے سے مال ہی نہ ہو،یا عرف کی نظر میں مال تو ہو لیکن شریعت میں اس کا کوئی بھی ممکنہ جائز استعمال نہ ہو تو اس چیز کی خرید وفروخت شرعا ممنوع ہے۔چونکہ گیم کے سکےاب تک کی تحقیق کے مطابق مال متصور نہیں ہیں،اس بنا پر گیم کے سکوں کو بیچ کر کمانا جائز نہیں۔
چونکہ آپ کا یہ پروجیکٹ بنانا لوگوں کے لئے ناجائز عمل اور کمائی کا ذریعہ بنے گا ،لہذا یہ پروجیکٹ بنانا درست نہیں ۔
حوالہ جات
القرآن الکریم: سورة المائدة،الآیة:90
﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾
رد المحتار (5/ 257):
قوله ( لما فيه من القمار ) هو المراهنة كما في القاموس، وفيه: المراهنة والرهان: المخاطرة وحاصله أنه تمليك على سبيل المخاطرة، ولما كانت هذه تمليكات للحال لم يصح تعليقها بالخطر لوجود معنى القمار.
حاشية ابن عابدين (6/ 403):
(قوله لأنه يصير قمارا) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص.
رد المحتار) 8/7( :
المراد بالمال ما يميل إليه الطبع، ويمكن ادخاره لوقت الحاجة ، والمالية تثبت بتمول الناس كافة،أو بعضهم ، والتقوم يثبت بها ،وبإباحة الانتفاع به شرعا ؛ فما يباح بلا تمول لا يكون مالا كحبة حنطة، وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر ، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم، بحر ملخصا عن الكشف الكبير."
محمد اسماعیل بن اعظم خان
دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
5/ذی قعدہ/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد اسماعیل بن اعظم خان | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |