03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
پوتوں،پوتیوں اور بہو کا میراث میں حصے کا حکم
85827میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

میرا اسم گرامی محمد عادل معين ہے اور میں اپنے والد اور والدہ کی وراثت سے متعلق کچھ سوالات کے جوابات چاہتا ہوں۔

تفصیل:

ہم پانچ بہن بھائی تھے،تین بہنیں اورتین بھائی،ایک بھائی انتقال کرگئے،میرے والد صاحب اسٹیٹ بینک میں ملازم تھے،سن 2004 میں ریٹائرمنٹ کےبعد ایک گھر خریدا اور ایک عدد کار بھی خریدی،جس میں میں نے بھی اپنا ایک لاکھ روپیہ لگایا تھا،پھر 2014 میں میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیا،جو اپنے پیچھے تین بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑ کر گئے،والد صاحب نے ان سب کو اپنے بچوں کی طرح اپنے ساتھ رکھا اور بہت خیال بھی کرتے تھے،پھر2017 میں والد صاحب کا بھی انتقال ہو گیا،انہوں نے انتقال سے قبل کوئی وصیت نہیں کی،ہم بہن بھائیوں نے وراثت کی تقسیم کا کوئی تقاضہ بھی نہیں کیا،کیونکہ والدہ حیات تھیں اور اسی گھر میں رہائش پذیر تھیں۔

گذشتہ ہفتے والدہ کا بھی انتقال ہوگیا،انہوں نے بھی کوئی وصیت نہیں کی،اب ہم دو بھائی،تین بہنیں،ایک بیوہ بھاوج اور ان کے پانچ بچے ہیں۔

سوال:

کیا شریعت یا پاکستانی قانون کے مطابق بیوہ بھاوج اور ان کے بچوں کا کوئی حصہ  اس وراثت میں بنتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

شریعت کے مطابق بہو کو سسر اور ساس کی میراث میں حصہ نہیں ملتا،جبکہ بیٹوں کی موجودگی میں پوتوں کو بھی حصہ نہیں ملتا،اس لئے مذکورہ صورت میں آپ کے بھائی کی بیوہ اور بچوں کو آپ کے مرحوم والدین کی میراث میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔

اور قانونی راہنمائی کے لئے کسی وکیل سے رابطہ کرلیں۔

حوالہ جات

"الدر المختار " (6/ 774):

" ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر".        

محمد طارق

دارالافتاءجامعۃالرشید

08/جمادی الثانیہ1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد طارق غرفی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب