87432 | خرید و فروخت کے احکام | خرید و فروخت کے جدید اور متفرق مسائل |
سوال
ہم ایک کمیٹی اسکیم کے بارے میں شرعی رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کا نام "لکی کمیٹی" رکھا گیا ہے۔ اس کمیٹی کی تفصیل کچھ یوں ہے:
کل شرکاء: 200 افراد۔
ماہانہ قسط: 5,000 روپے فی فرد ۔
مدت: 2 سال (24 ماہ) ہر فرد 48 قسطیں دے گا، یعنی کل 240,000 روپے۔
مارکیٹ میں موٹر سائیکل کی نقد قیمت تقریباً 1,67,000 روپے ہے اور اقساط پر قیمت تقریباً 2,40,000 روپے بنتی ہے۔
طریقہ کار:
- ہر ماہ دو افراد کے نام قرعہ اندازی (پرچی) کے ذریعے نکالے جاتے ہیں۔
- . ان افراد کو اسی وقت موٹر سائیکل بمعہ لیٹر (کاغذات) دے دی جاتی ہے۔
- وہ افراد صرف اتنی قسطیں ادا کرتے ہیں جتنی اس وقت تک وہ ادا کر چکے ہوتے ہیں، باقی قسطیں معاف کر دی جاتی ہیں۔
- یہ سلسلہ 24 ماہ تک جاری رہتا ہے، جس سے کل 48 افراد کو اس طرح فائدہ ہوتا ہے۔
- باقی 152 افراد مکمل 48 اقساط ادا کرتے ہیں اور دو سال مکمل ہونے پر موٹر سائیکل حاصل کرتے ہیں۔
سوال:
1. اس اسکیم میں کچھ افراد کو بغیر مکمل ادائیگی کے موٹر سائیکل دینا، جبکہ باقی افراد سے پوری رقم وصول کرنا، کیا شرعی طور پر جائز ہے؟
2. اس اسکیم میں قرعہ اندازی کے ذریعے کسی کو فائدہ ملنا، جبکہ دوسرے مکمل ادائیگی کریں، کیا یہ قمار (جوا) یا غرر (غیر یقینی نفع) کے زمرے میں تو نہیں آتا؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
بطور تمہید واضح ہو کہ قسطوں پر اشیاءکی خرید وفروخت جائز ہے اگرچہ انکی قیمت نقدقیمت سے زیادہ رکھی گئی ہو،البتہ اس کے جواز کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کی رعایت ضروری ہے:
۱۔ معاملہ کی حالت متعین طور پر معلوم ہوکہ یہ معاملہ نقد پر ہو ا یاادھار پر ۔
۲۔اگر معاملہ ادھار پر ہو تو اس کی مدت متعین ہوکہ کتنی مدت کے لیے ہے، ایک سال کیلئے یا چھ مہینے کیلئےوغیرہ۔
۳۔اسی وقت اس مدت کے مطابق ماہانہ /ہفتہ وارقسط طے کی جائے۔
۴۔قسط کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں جرمانہ کی شرط نہ لگائی جائے۔
اگر ان شرائط میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تومعاملہ فاسد ہوگا۔(ماخوذ از تبویب:( 71216
لہذا موٹر سائیکل کی مذکورہ کمیٹی جس میں متعدد افراد ماہانہ قسطیں ادا کرتے ہیں اور ہر ماہ قرعہ اندازی کے ذریعے کسی ایک فرد کو موٹر سائیکل دی جاتی ہے،چونکہ اس میں بیع بالتقسیط (قسط وار بیع)کی بنیادی شرائط پوری نہیں ہوتیں، یعنی کسی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ موٹرسائیکل کتنی قیمت پر ملے گا،جس کی پہلی کمیٹی نکلی اس کو موٹر سائیکل 5000 روپے کی مل جائے گی، حالانکہ اس کو بھی معاملے کے وقت پتہ نہیں کہ اس کو موٹرسائیکل 5000 روپے میں ملے گی یا 240,000 روپے میں ، جس کی وجہ سے معاملہ میں ’’جہالتِ ثمن ‘‘( یعنی قیمت نا معلوم )ہونے کی وجہ سے فاسد ہو جاتا ہے۔ نیز اس میں قمار (جوئے) کی مشابہت بھی پائی جاتی ہے، قمار کی حقیقت یہ ہے کہ ایسا معاملہ کیا جائے جو نفع ونقصان کے خطرے کی بنیاد پرہو، اور اس کمیٹی میں بھی شرکاء سستی قیمت کی لالچ میں رقم لگاتے ہیں ،کچھ کو اصل قیمت سے بہت کم پر موٹرسائیکل ملتی ہے اور کچھ کو مارکیٹ ریٹ سے بہت زیادہ پر ملتی ہے، جس میں واضح نقصان ہے ، جو قمار ہے، لہذا یہ کمیٹی شرعاً ناجائز ہے۔ اس کمیٹی کو چلانا اور اس کا حصہ بننا دونوں ناجائز ہیں۔
حوالہ جات
[المائدة: 90] :
﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (90)﴾
الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (7/ 5199):
البيع بالتقسيط جائز شرعاً، ولو زاد فيه الثمن المؤجل على المعجّل.
شرح ا لمجله (124,125):
البيع مع تاجيل الثمن و تقسيطه صحيح,يلزم أن تكون المدة معلومة في البيع بالتاجيل والتقسيط اذا عقد البيع علي تأجيل الثمن الي وقت معلوم عند العاقدين كيوم قاسم أوالنهروز,صح البيع اذا كان يوم القاسم أو النيروز معموما عندالمتبايعين.أما لو كان مجهولا عندهما او عند أحدهمافلا يصح.
جامع الترمذي(1/233):
وروى الترمذي - رَحِمَهُ اللَّهُ - من حديث أبي هريرة - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - «أن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نهى عن بيعتين في بيعة» .قال الترمذي - رَحِمَهُ اللَّهُ - قال بعض أهل العلم أن يقول الرجل: أبيعك هذا الثوب نقدا بعشرة ونسيئة بعشرين فلا مفارقة على أحد البيعتين، فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على واحد منهما.
مجلة مجمع الفقه الإسلامي (6/ 119، بترقيم الشاملة آليا):
ولا يجوز اشتراط الزيادة في الدين عند التأخيروقراره في البيع بالتقسيط رقم 51 (2 / 6) ونصه: " إذا تأخر المشتري المدين في دفع الأقساط بعد الموعد المحدد فلا يجوز إلزامه أي زيادة على الدين بشرط سابق أو بدون شرط، لأن ذلك ربا محرم
ارسلان نصیر
دارالافتاء ،جامعۃ الرشید ،کراچی
14/ذی قعدہ/1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | راجہ ارسلان نصیر بن راجہ محمد نصیر خان | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |