87483 | شرکت کے مسائل | شرکت سے متعلق متفرق مسائل |
سوال
فاروق اور بلال کے درمیان ایک ایگریمنٹ طے پایا،جس میں بلال کاروبار کر نے والا اور فاروق شریک غیر عامل (Sleeping Partner)ہے ۔ کاروبار کی نوعیت ، مختلف کمپنیوں کو لہسن اور ادرک سپلائی کرنا ہے،فاروق نے بلال کے کاروبار میں 20 لاکھ روپے انویسٹ کیے ہیں ، جس کے لیے مندرجہ ذیل شرائط آپس میں طے پائی ہیں :
(1)کاروبار حلال اور شریعت کے مطابق ہوگا ۔
(2)فاروق کو اپنی انویسٹ کردہ رقم کے تناسب سے ہونے والے منافع میں سے 50 فیصد ملے گا ۔
(3)یہ انویسٹمنٹ اسلامی اصول "نفع ونقصان میں شرکت"(Profit & Loss Sharing) کی بنیاد پر ہے۔
(4)بلال ہر ماہ کے اختتام پر نفع و نقصان کا حساب کر کے، اگلے شروع ہو نیوالے ماہ کی پانچ تاریخ تک فاروق کو مطلع کرے گا ۔
(5)ہر ماہ کی 25 تاریخ کو بلال پچھلے ماہ میں ہو نیوالا منافع فاروق کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دے گا۔
(6)اگر کسی مرحلہ پر فاروق اپنی انویسٹیڈ رقم (اصل سرمایہ )نکلوانا چاہیے ،تو نوٹس دینے کے بعد ایک ماہ کے اندر بلال اس كو اصل انویسٹیڈ رقم (اصل سرمایہ) واپس کر دے گا ۔
کسی بھی تنازعہ کی صورت میں دونوں) فاروق اور بلال )دارلافتاء دارالعلوم کراچی یا دارالافتاءوالاخلاص سے جاکررہنمائی لیں گےاور اُنکے فیصلے اور رہنمائی پہ عملدرآمد کریں گے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں فریقین کے ما بین طے شدہ شرائط کے حوالے سے درج ذیل امور واضح ہوں :
شق نمبر(1,4,5) میں مذکور طے کردہ شرائط درست ہیں۔
شق نمبر (2,3) میں شریک غیر عامل(Sleeping Partner) کےلئے اس کے سرمائے کے تناسب سے سے کم شرحِ نفع کی شرط لگانا درست ہے،تاہم خسارے کے حوالے سے کوئی واضح بات مذکور نہیں، یاد رہےنقصان کی تقسیم ہمیشہ سرمایہ کے تناسب سے ہی ہوگی،لہٰذا اگر دونوں شریک برابر سرمایہ لگائیں، تو نقصان بھی برابر (نصف نصف) تقسیم ہوگا، اور اگر سرمایہ مختلف ہو تو ہر شریک اپنے سرمایہ کے تناسب سے نقصان برداشت کرے گا۔
شق نمبر(6) کے حوالے سے تفصیل ملاحظہ ہو:
شرکت کا معاملہ ختم کرنےاور مال شرکت کی تقسیم کے حوالے سےدرج ذیل چار اصول ہیں :
1۔سب سے پہلے مال شرکت میں سے ہر شریک کو اس کا اصل سرمایہ ( راس المال ) واپس کیا جائے گا، اس کے بعد اگر کچھ بچے، تو اس کو نفع سمجھا جائے گا، لہذا اس کو پہلے سے طے شدہ تناسب کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔
2۔شرکت کے اثاثے اگر نقد رقم کی صورت میں ہوں، تو ان کونقد رقم کی صورت میں ہی تقسیم کیا جائے گا اور اگر مال سامان ( لہسن ،ادرک وغیرہ ) کی صورت میں ہو ، یعنی نقد رقم کے علاوہ کوئی مال ہو، تو اس سامان کو باہمی رضا مندی کے ساتھ قیمت کے لحاظ سے تقسیم کرنا بھی جائز ہے، اورکوئی ایک فریق دوسرےکو اس کے سامان کی قیمت دینا چاہتا ہے، تو باہمی رضامندی سے یہ بھی جائز ہے۔
3۔اگر اثاثے سامان کی شکل میں ہوں اور اس سامان کی تقسیم میں اختلاف ہو جائے، تو جو اثاثے مثلیات (ایسا مال جس کی اکائیاں قیمت کے لحاظ سے یکساں ہوں جیسے لہسن ادرک وغیرہ) میں سے ہوں، ان کو اصل حالت میں شرکاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا اور جو قیمیات (جس کی اکائیوں کی قیمتیں مختلف ہوں جیسے گاڑیاں وغیرہ) میں سے ہوں ، شرکاء ان کو فروخت کر کے حاصل شدہ رقم آپس میں تقسیم کریں گے۔
4۔اگر شرکت کے مال میں سے کچھ رقم یا چیزیں کسی کے ذمے قرض کی صورت میں ہوں (یعنی ابھی وصول نہ ہوئی ہوں) تو جب تک وہ وصول نہ ہوں ،انہیں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔ مثال کے طور پر ایک شریک دوسرے کو بولے کہ میں تو موجود سامان لے لیتا ہوں اور فلاں کے ذمے جو ہمارا مشترکہ قرض ہے وہ آپ وصول کر لینا ، ایسا کرنا درست نہیں، بلکہ موجود سامان اوپر مذکور کسی بھی طریقے پر آپس میں تقسیم کریں گے اور قرض میں تمام شرکاء شریک رہیں گے،جب قرض وصول ہو گا ،تو شرکاء اپنے حصص کے تناسب سے تقسیم کر یں گے۔
حوالہ جات
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (4/ 312):
(قوله: ومع التفاضل في المال دون الربح) أي بأن يكون لأحدهما ألف وللآخر ألفان مثلا واشترطا التساوي في الربح، وقوله وعكسه: أي بأن يتساوى المالان ويتفاضلا في الربح، لكن هذا مقيد بأن يشترط الأكثر للعامل منهما أو لأكثرها عملا، أما لو شرطاه للقاعد أو لأقلهما عملا فلا يجوز كما في البحر عن الزيلعي والكمال.قلت: والظاهر أن هذا محمول على ما إذا كان العمل مشروطا على أحدهما.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 389):
المادة (1369) - (الضرر والخسارة التي تحصل بلا تعد ولا تقصير تقسم في كل حال بنسبة مقدار رءوس الأموال، وإذا شرط خلاف ذلك فلا يعتبر)
الضرر والخسارة التي تحصل بلا تعد ولا تقصير تقسم في كل حال أي أنه لو شرط خلاف ذلك سواء في الشركة الصحيحة أو الفاسدة، بنسبة مقدار رءوس الأموال وإذا شرط انقسامها على وجه آخر فلا يعتبر أي أن شرط تقسيم الوضيعة والخسارة على وجه آخر باطل حيث قد ورد في الحديث الشريف الربح على ما شرطا والوضيعة على قدر المالين (مجمع الأنهر) من غير فصل بين التساوي والتفاضل (الدر المنتقى) .
المادة (1354) - (إذا فسخ الشريكان الشركة واقتسماها على أن تكون النقود الموجودة لأحدهما والديون التي في الذمم للآخر فلا تصح القسمة، وفي هذه الصورة مهما قبض أحدهما من النقود الموجودة يشاركه الآخر فيها كما أن الدين الذي في ذمم الناس يبقى مشتركا بينهما.
إذا فسخ الشريكان الشركة واقتسماها على أن تكون النقود الموجودة لأحدهما والديون التي في الذمم للآخر أو النقود الموجودة لأحدهما والأمتعة التي في الدكان مع الدين الذي في الذمم للآخر فلا تصح القسمة.
حسن علی عباسی
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
14/ذی قعدہ /1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | حسن علی عباسی ولد ذوالفقار علی عباسی | مفتیان | مفتی محمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب |