87559 | میراث کے مسائل | میراث کے متفرق مسائل |
سوال
عرض یہ ہے کہ میرے ابو کی کھیتی باڑی کی زمین کو ہسار خان، جمعہ گوٹھ حیدر آباد میں واقع ہے، جس کا رقبہ 3 ایکڑ ہے اور اس کے علاوہ میرے والد صاب کا600 گز کا پلاٹ بھی ہے۔ ہم دو بہنیں ہیں اور ایک سوتیلی ماں ہے، ایک ان کی 10 سال کی بیٹی بھی ہے، جو کہ ہماری باپ شریک بہن ہے۔
معلوم یہ کرنا ہے کہ میرے والد صاحب کا گھر ہماری سوتیلی ماں کے حصے میں آئے گایا ہم تینوں بہنوں کے حصے میں آئے گا؟ اس کے کاغذات میرے پاس موجود ہیں، کیونکہ والد صاحب اپنی زندگی میں وصیت کر کے گئے تھے کہ کاغذات میرے پاس رہیں گے، میری سوتیلی ماں اس بات پر راضی ہیں کہ تین ایکڑ زمین میں تینوں بہنوں کا آپس میں جو حصہ بنتا ہے وہ برابر برابر تقسیم ہو اور اس میں میرا حصہ جو بنتا ہے وہ مجھے دے دیں۔ اس کے علاوہ میری سوتیلی ماں کا یہ کہنا ہے کہ 600 گز کا گھر میرے حصے میں آنا چاہیے ۔آپ سے گزارش ہے کہ اسلامی شریعت کے حساب سے ہم سب کا جو بھی حصہ بنتا ہے ، اس سلسلے میں آپ لکھ کر ہمیں معلومات فراہم کر دیں، تا کہ اس مسئلے کو جلد حل کیا جا سکے،آپ کی عین نوازش ہو گی ۔
وضاحت: مرحوم کے تین بھتیجے بھی موجود ہیں، البتہ بھائی اور والدین وغیرہ میں سے کوئی بھی حیات نہیں ہے۔
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
آپ کے والدصاحب نے بوقت ِانتقال اپنی ملکیت میں جو کچھ منقولہ وغیر منقولہ مال،جائیداد،سونا،چاندی،نقدی اور ہر قسم کا چھوٹا بڑا جوساز وسامان چھوڑا ہےاوران کا وہ قرض جو کسی کے ذمہ واجب الاداء ہو، يہ سب ان کا ترکہ ہے۔اس میں سے سب سے پہلے ان کے کفن و دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں ،البتہ اگر کسی نے بطورِ تبرع یہ اخراجات ادا کر دیے ہوں تو پھریہ خرچ نہیں نکالاجائےگا، اس کے بعدان کے ذمہ واجب الاداء قرض ادا کیا جائے ،پھر کل ترکہ کے ایک تہائی کی حد تک غیروارث کےلیے ان کی جائز وصیت پر عمل کرنے کے بعد جو ترکہ باقی بچے اس میں سے آٹھواں حصہ مرحوم کی بیوہ ، دوتہائی تینوں بیٹیوں کو اور بقیہ ترکہ تین حصوں میں برابر تقسیم کر کے ہر بھتیجے کو ایک ایک حصہ دے دیا جائے،تقسیم ِ میراث کاتفصیلی نقشہ ملاحظہ فرمائیں:
نمبر شمار |
ورثاء |
عددی حصہ |
فیصدی حصہ |
1 |
بیوی |
9 |
12.5% |
2 |
بیٹی |
16 |
22.222% |
3 |
بیٹی |
16 |
22.222% |
4 |
بیٹی |
16 |
22.222% |
5 |
بھتیجا |
5 |
6.944% |
6 |
بھتیجا |
5 |
6.944% |
7 |
بھتیجا |
5 |
6.944% |
6 |
|
72 |
99.998 |
مذکورہ بالا طریقے پر وراثت تقسیم کرنے کی صورت میں اگر بیوہ یا بیوہ اوراس کی بیٹی دونوں کا وراثت میں سے حصہ چھ(600) سو گز کے وراثتی مکان کی مالیت کے برابر ہے تو آپ دونوں بہنیں اور بھتیجےتین ایکڑ پر مشتمل زمین میں سے حصہ لے لیں اور یہ مکان مرحوم کی بیوہ کے سپرد کر دیں، تاکہ وہ اور اس کی دس سالہ بیٹی اطمینان سے اس میں رہ سکیں۔ اور اگر ان کا حصہ اس سے کم بنتا ہو تو آپ لوگ باہمی رضامندی سے اس مکان میں سے کچھ حصہ لے لیں یا اپنے حصہ کے بقدر ان سے اتنی رقم وصول کر لی جائے یا صلہ رحمی کرتے ہوئے رقم معاف کر دی جائے تو اس پر آخرت میں آپ لوگوں کو بہت بڑا اجر وثواب ملے گا۔
باقی والد صاحب کی یہ وصیت کہ زمین کے کاغذات آپ کے پاس رہیں گے اس کا شرعاً اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ وراثت کی تقسیم کے بعد جس وارث کے پاس یہ مکان ہو گا اس کے کاغذات بھی اسی کو دیے جائیں گے اورایک سے زیادہ مالک ہونے کی صورت میں تمام مالکان باہمی رضامندی سے کسی ایک کے پاس اصل کاغذات رکھوا دی جائے اور باقی حضرات کو اس کی نقل دے دی جائے۔
حوالہ جات
القرآن الكريم [النساء: 11]:
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ }
القرآن الكريم [النساء: 12]:
{وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ }
السراجية في الميراث (1/ 11) مكتبة المدينة، كراتشي – باكستان:
تتعلق بتركة الميت حقوق أربعة مرتبة الأول: يبدأ بتكفينه وتجهيزه من غير تبذير ولا تقتير، ثم تقضى ديونه من جميع ما بقي من ماله، ثم تنفذ وصاياه من ثلث ما بقي بعد الدين، ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنة وإجماع الأمة، فيبدأ بأصحاب الفرائض وهم الذين لهم سهام مقدرة في كتاب الله تعالى، ثم بالعصبات من جهة النسب، والعصبة كل من يأخذ ما أبقته أصحاب الفرائض وعند الانفراد يحرز جميع المال.
محمد نعمان خالد
دارالافتاء جامعۃ الرشیدکراچی
17/ذوالقعدة 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | محمد نعمان خالد | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب |