03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تین بھائی اور چار بہنوں میں میراث کی تقسیم
87470میراث کے مسائلمیراث کے متفرق مسائل

سوال

ہمارے والد کا انتقال ہو گیا ہے،ورثہ  میں ہم تین بھائی اور چار بہنیں ہیں ۔

ہم نے1990 میں پلاٹ خریدا جس میں والد اور دوبھائیوں نے رقم لگائی جبکہ چھوٹے بھائی نے کوئی رقم نہیں لگائی ۔ پلاٹ درمیان والے  بھائی کے نام پر لیا ۔ مکان بنانے میں بھی والد اور دوبھائیوں نے رقم لگائی جبکہ چھوٹے بھائی نے مکان بنانے یا پلاٹ خریدنے میں کوئی رقم نہیں لگائی۔ اس جائیدہ کی تقسیم کسی طرح ہوگی؟

تنقیح:پلاٹ کی خریداری اور تعمیر کے وقت سب بھائی اور والد  اکھٹے رہتے تھے ،کھانا پینا سب ساتھ  تھا،لیکن بیٹے اور والد الگ الگ سرکاری نوکری کرتے تھے ،یعنی ذریعہ معاش الگ الگ تھا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

والد اور بیٹوں کا چونکہ ذریعہ معاش الگ الگ تھا،یعنی اولاد والد کے معاون نہیں تھے ،لہٰذا یہ پلاٹ اور مکان دو بیٹوں  ( جنہوں نے پیسہ لگایا تھا ) اوروالد کے درمیان  مشترک ہے ،سب سے پہلے ان تینوں کے درمیان ان کے انویسٹمنٹ کے حساب سے تقسیم ہوگا ۔پھر جو والد کا حصہ ہوگا وہ  تینوں بیٹوں اور بیٹوں میں اس طرح تقسیم ہوگا کہ بیٹے کو بیٹی کا دگنا ملےگا۔

کل ترکہ کے دس(10)حصے بنیں گے،ہر بیٹے کو دو اور ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔ فیصدی لحاظ سے ہر بیٹے کو 20فیصد جبکہ ہر بیٹی کو10 فیصد ملے گا۔

حوالہ جات

(النساء : ١٢):

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ .....

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (3/ 420):

 (إذا عمل أحد في صنعته مع ابنه الذي في عياله فكافة الكسب لذلك الشخص ويعد ولده معينا، كما أنه إذا غرس أحد شجرا فأعانه ولده الذي في عياله فيكون الشجر لذلك الشخص ولا يشاركه ولده فيه)إذا عمل أحد في صنعة هو وابنه الذي في عياله واكتسبا أموالا ولم يكن معلوما أن للابن مالا سابقا فكافة الكسب لذلك الشخص ولا يكون لولده حصة في الكسب بل يعد ولده معينا..... (التنقيح) ما لم يثبتوا عكس ذلك ويوجد ثلاثة شروط لأجل اعتبار الولد معينا لأبيه:

1 - اتحاد الصنعة، فإذا كان الأب مزارعا والابن صانع أحذية فكسب الأب من المزارعة والابن من صنعة الحذاء، فكسب كل منهما لنفسه وليس للأب المداخلة في كسب ابنه لكونه في عياله.

وقول المجلة (مع ابنه) إشارة لهذا الشرط. مثلا إن زيدا يسكن مع أبيه عمرو في بيت واحد ويعيش من طعام أبيه وقد كسب مالا آخر فليس لإخوانه بعد وفاة أبيه إدخال ما كسبه زيد في الشركة. كذلك لو كان اثنان يسكنان في دار وكل منهما يكسب على حدة وجمعا كسبهما في محل واحد ولم يعلم مجموعه لمن كما أنه لم يعلم التساوي أو التفاوت فيه فيقسم سوية بينهما ولو كانا مختلفين في العمل والرأي

2 - فقدان الأموال سابقا. إذا كان للأب أموال سابقة كسبها ولم يكن معلوما للابن أموال بأن ورث من مورثه أموالا معلومة فيعد الابن في عيال الأب

3 - أن يكون الابن في عيال أبيه، أما إذا كان الأب يسكن في دار والابن في دار أخرى وكسب الابن أموالا عظيمة فليس للأب المداخلة في أموال ابنه بداعي أنه ليس للابن مال في حياة أبيه.

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (4/ 325):

لما في القنية الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب.

محمد اسماعیل بن اعظم خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

 14/ذی قعدہ 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اسماعیل بن اعظم خان

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب