03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
قراءت کی غلطی کو تیسری رکعت میں درست کرنا
87675نماز کا بیانقراءت کے واجب ہونے اور قراء ت میں غلطی کرنے کا بیان

سوال

میں نے عشاء کی نماز میں دوسری رکعت میں سورۃ التحریم کی آخری آیت ( ومریم ابنت عمران التی۔۔۔۔وکتبه وکانت من القانتین)میں وکانت من القانتین کی جگہ وکانت من الظالمین پڑھ لیا اور جب مجھے احساس ہوا کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے تو میں نے تیسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد وہ غلطی لوٹا لی ،تو کیا میری نماز درست ہو جائے گی یا پھر فساد کی وجہ سے نماز بھی فاسد ہو جائے گی ؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

دوران نماز ایسی غلطی جس سے معنی میں تغیر فاحش پیدا ہو جائے ،تمام علماء کے نزدیک ایسی غلطی فساد ِ نماز کا ذریعہ بنتی ہے، تاہم اگر    نمازی دوران نماز ہی ایسی غلطی درست  کر لے، تواس سے نماز درست ہو جائے گی یا نہیں ؟

ا س حوالے سے معاصر اہل افتاء کی آراء مختلف ہیں:

1۔ فتاوی محمودیہ میں مطلقا فساد ِ نماز کا حکم ہے، اگرچہ نمازی اپنی غلطی اسی  رکعت میں  درست کرلے، جس میں غلطی ہوئی۔(۱)

2۔ فتاوی دارلعلوم زکریامیں اس بات کو صراحتاً بیان کیا گیا ہے کہ اگر نمازی سے ایسی غلطی ہوجاتی ہے جس سے معنی میں تغیر فاحش آرہا ہو،تو کسی بھی رکعت میں تصحیح   سے نماز درست ہو جائے گی ۔(۲)

3۔  امداد الفتاوی  ،امداد الاحکام اور فتاوی دارالعلوم   دیوبند   میں غلطی کی اصلاح کرنے پر نماز درست ہونے کا حکم لگایا گیاہے، تاہم سوالات کی نوعیت   یو ں ہے کہ نمازی اسی رکعت میں غلطی کی اصلاح کرلے تو یہ حکم ہے،اگر بعد کی رکعات میں اصلاح کرے، تو کیا حکم ہے؟ اس  بات کی تصریح نہیں۔ (۳)

4۔ دارالافتاء  بنوری ٹاون کی رائے میں اگر نمازی اسی رکعت میں غلطی درست کر لے، تو نماز درست ہو جائے گی ، بعد کی رکعات میں غلطی درست کرنے سے نماز درست نہیں ہوگی۔(۴)

5۔ احسن الفتاوی میں مفتی رشید احمد صاحب نے   مسائل زلۃ القارئ کے تحت نماز میں ایسی غلطی جس سے معنی میں تغیر فاحش آ جائے ،اس سے نماز کے فساد یا عدم فساد کے حوالے سے  جو  رائے تحریر فرمائی، اس کاخلاصہ درج ذیل ہے :

"چونکہ کتب  ِفقہ میں ایسی غلطی سے نماز کے فساد کا حکم نقل کیا گیا،غلطی کی اصلاح کرنے سے نماز کی درستگی سے کوئی تعرض نہیں ، غلطی کی اصلاح سے نماز کی درستگی کا قول صرف فتاوی ہندیہ اور حاشیۃ الطحطاوی علی الدر میں نقل کیا گیا۔

نماز کے فساد والا قول احوط اور عدم فساد والا قول اوسع پر دلالت کرتاہے،عام حالات میں احوط(احتیاط) پر عمل کیا جائے ، صرف بوقت ضرورت اوسع پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔(احسن الفتاوی :ج۱۰ص ۳۳۶)

مذکورہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ نماز میں غلطی (جس سے معنی میں  تغیر فاحش آتاہے) کرنے کے بعد اگر اس رکعت میں تصحیح نہ کی جائے ، بلکہ بعد کی کسی اور  رکعت میں تصحیح کی جائے ،تو ہماری تلاش کے مطابق اس صورت میں فتاوی دارالعلوم زکریا کے علاوہ  کسی مستند فتوی میں نماز کی  درستگی کا قول نہیں کیا گیا۔

صورت مسئولہ میں "وکانت من القانتین " کی جگہ "وکانت من الظالمین "پڑھنے سے معنی  میں تغیر فاحش آ  گیا،  پھر اسی رکعت میں غلطی درست بھی نہیں کی گئی   ،جس کی وجہ نماز فاسد ہو گئی،لہذا نماز کا اعادہ کرلیا جائے۔

(۱)۔وفي منظومۃ ابن وہبان:وإن لحـــن القــــاري وأصلح بعـــدہ إذا غیـــر المعنـی الفســــاد مقـــــرر، اشتمل البیت علی أربع مسائل من زلۃ القاری : الأولی : إذا لحن المصلی فی قراء تہ لحنا یغیر المعنی کفتح لام الضالین ، لا تجوز صلاتہ ،  وإن أعادھا بعد ذلک علی الصواب ۔

 (۲) (۳)  فتاوی ہندیۃ  (1/ 82):

لو قرأ في الصلاة بخطأ فاحش ثم رجع وقرأ صحيحا قال عندي صلاته جائزة۔

 (۴) خزانة المفتين - قسم العبادات (ص618):

وإن أراد أن يقرأ كلمة فجرى على لسانه شطرُ كلمةٍ أخرى فرجع وقرأ الأولى، أو ركع ولم يتم الشطر؛ إن قرأ شطراً من كلمة لو أتمّها لا تفسد صلاته لم تفسد صلاته بشطرها. وإن [كان] ذكر شطراً من كلمةٍ لو أتمّها تفسد صلاته بشطرها، وللشطر حكم الكل، هو الصحيح.(کما فی فتاوی  قاضی خان)

حوالہ جات

الفتاوى الهندية(1/ 81):

أما إذا غير المعنى بأن قرأ " إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات أولئك هم شر البرية إن الذين كفروا من أهل الكتاب " إلى قوله " خالدين فيها أولئك هم خير البرية " تفسد عند عامة علمائنا وهو الصحيح. هكذا في الخلاصة.

امداد المفتين ص 303))

قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین۔

حسن علی عباسی

دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

29/ذی قعدہ  1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

حسن علی عباسی ولد ذوالفقار علی عباسی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب