87701 | شرکت کے مسائل | شرکت سے متعلق متفرق مسائل |
سوال
اگر میں ایک سنار کو کاروبار کے لئے سونا دوں اور وہ کسی اور سے بھی سونا لے، اس کے ساتھ اپنا سونا بھی شامل کرلے، پھر وہ اس(مشترکہ) سونے سے اپنا کاروبار کرے، مثلاً میں نے اسے 50 گرام سونا دیا، پھر وہ سنار کسی اور سے بھی 30 گرام سونا لیتا ہے، اور اپنا ذاتی 20 گرام سونا بھی شامل کرتا ہے، یوں کل 100 گرام سونا کاروبار میں لگا دیا جاتا ہے۔
پھر نفع کی تقسیم اس طرح ہو کہ اگر مثلاً کل نفع 1000 روپے ہو تو جس نے 50 گرام دیا، اسے 500 روپے، جس نے 30 گرام دیا اسے 300 روپے، اور جس نے 20 گرام (یعنی خود سنار نے) لگایا، اسے 200 روپے دے دیے جائیں یعنی نفع سونے کی مقدار کے حساب سے تقسیم ہو۔ اس معاملے میں نفع کی تقسیم فیصدی اعتبار سے نہ کی گئی ہو اور شریک افراد سنار پر اعتماد کرتے ہوئے نفع قبول کریں ، خود حساب کتاب نہ کریں، کیا ایسا کرنے میں شرعا کوئی حرج ہے؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورت مسئولہ میں شرکت کے معاملے کی درستگی کےلئے ضروری ہے کہ ہر شریک کی جانب سے دیے گئے سونے کی موجودہ قیمت لگائی جائے، پھر اس قیمت کی بنیاد پر شرکت کا معاملہ کیا جائے،تاکہ بعد میں نفع یا نقصان ہونے کی صورت میں ہر شریک کا حصہ واضح طور پر معلوم ہو سکے۔
مذکورہ معاملے میں نفع ونقصان درج ذیل طریقہ کار کے مطابق تقسیم ہو گا:
1۔نفع کی تقسیم فیصدی تناسب سے طے کرنا ضروری ہے۔
2۔جو شرکاء عملی طورپر کاروبار میں کام نہیں کر رہے، ان کےلئے ان کے سرمائے کے تناسب سے زائد نفع کی شرح طے نہیں کی جا سکتی ، تاہم جو شریک کاروبار سنبھال رہا ہے اس کے لئے نفع کی شرح اس کے سرمائے کے تناسب سے زیادہ بھی طے کی جا سکتی ہے۔
3۔خسارے کی صورت میں ہر شریک اپنے سرمائے کے تناسب سے نقصان برداشت کرے گا۔
بہتر یہ ہے کہ کاروبار کے حساب کتاب سے تمام شرکاء مطلع ہو ں تاکہ یہ معاملہ کسی جھگڑے کا باعث نہ بنے۔
حوالہ جات
المعاییر الشرعیۃ (ص 329)
١/٢/١/ ٣: رأس مال الشركة: الأصــل أن يكون رأس مال الشــركة موجودات نقدية يمكن بها تحديد مقــدار رأس المال لتقرير نتيجة المشاركة من ربح أو خســارة. ومع ذلك يجوز- باتفاق الشركاء- الإسهام بموجودات غير نقدية (عروض) بعد تقويمها تقويمها بالنقد لمعرفة مقدار حصة الشريك.
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (4/ 312):
قوله: ومع التفاضل في المال دون الربح) أي بأن يكون لأحدهما ألف وللآخر ألفان مثلا واشترطا التساوي في الربح، وقوله وعكسه: أي بأن يتساوى المالان ويتفاضلا في الربح، لكن هذا مقيد بأن يشترط الأكثر للعامل منهما أو لأكثرها عملا، أما لو شرطاه للقاعد أو لأقلهما عملا فلا يجوز كما في البحر عن الزيلعي والكمال.
قلت: والظاهر أن هذا محمول على ما إذا كان العمل مشروطا على أحدهما.
وفي النهر: اعلم أنهما إذا شرطا العمل عليهما إن تساويا مالا وتفاوتا ربحا جاز عند علمائنا الثلاثة خلافا لزفر والربح بينهما على ما شرطا وإن عمل أحدهما فقط؛ وإن شرطاه على أحدهما، فإن شرطا الربح بينهما بقدر رأس مالهما جاز، ويكون مال الذي لا عمل له بضاعة عند العامل له ربحه وعليه وضيعته، وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضا على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لا يصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله والوضيعة بينهما على قدر رأس مالهما أبدا هذا حاصل ما في العناية اهـ ما في النهر.
حسن علی عباسی
دارالافتاء جامعۃ الرشید،کراچی
30/ذی قعدہ 1446ھ
واللہ سبحانہ وتعالی اعلم
مجیب | حسن علی عباسی ولد ذوالفقار علی عباسی | مفتیان | سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب |