03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بھائی کو ہبہ کی گئی زمین کا حکم
87722ہبہ اور صدقہ کے مسائلہبہ کےمتفرق مسائل

سوال

ہم آٹھ بہن بھائی ہیں۔ والد محترم محمد شفیع اور ان کے ساتھ سات بچے (بشمول میں) جرمنی میں رہائش پذیر ہیں، جبکہ ہمارا ایک بھائی ندیم پاکستان میں موجود ہے اور گلگت میں رہائش پذیر ہے۔

والد محترم کا ایک ذاتی مکان گلگت، پاکستان میں واقع ہے، جس کا رقبہ ایک کنال 18 مرلہ ہے، اور اس میں رہائشی گھر شامل ہے۔

سال 2022ء میں والد محترم مکمل طور پر صحت مند اور اپنے پورے ہوش و حواس میں تھے۔ انہوں نے اپنے سگے بھائی محمد حسین (یعنی ہمارے چچا) کو باقاعدہ قابض کر کے، تمام بچوں اور قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں، یہ مکان دے دیا۔ والد محترم نے واضح طور پر فرمایا:

"آج کے بعد میرا بھائی محمد حسین اس مکان کا مکمل مالک ہے۔"

والد محترم نے اپنے بھائی سے یہ بھی کہا کہ:

"جب تک میرا بیٹا ندیم اپنی مرضی سے یہاں سے جانا چاہے تو ٹھیک، ورنہ اس کے لیے جتنا مناسب لگے، دیوار کھینچ کر جگہ چھوڑ دینا، باقی مکان سے وہ فارغ ہے"

یہ تمام باتیں گواہوں اور تمام اولاد کے سامنے ہوئیں، اور کسی بھی فرد نے اس وقت کوئی اعتراض نہیں کیا۔

سال 2024ء میں والد محترم محمد شفیع کا انتقال ہوا۔

اب ہم تمام بہن بھائی شرعی رہنمائی کے لیے آپ سے مندرجہ ذیل سوالات کے جواب چاہتے ہیں:

-1کیا والد محترم کا اپنی زندگی میں اپنے بھائی کو قابض کر کے مکان دینا شرعاً درست تھا؟

-2کیا اب یہ مکان چچا محمد حسین کے لیے حلال ملکیت شمار ہوگا؟

-3کیا دیگر ورثاء (اولاد) کا اب اس مکان پر کوئی شرعی حق باقی ہے؟

-4چونکہ یہ سب کچھ والد کی زندگی میں، گواہوں کی موجودگی میں ہوا، اور کسی وارث نے اعتراض نہیں کیا، تو کیا اب کسی کو اعتراض کرنے کا شرعی حق ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

 -1چونکہ انسان اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کا مختار ہوتا ہے،لہٰذا آپ کے والد کا اپنی ملکیتی زمین اپنے بھائی کو ہبہ کرنا درست تھا ۔

-2 آپ کے چچا کے لئے یہ زمین بالکل حلال ہے۔

-3آپ کےمرحوم والد کے دیگر ورثہ (ان کی اولاد) کا اب اس مکان پر کوئی حق باقی نہیں اور نہ اعتراض کرنے کا کوئی حق ٍہے۔

آپ کے والد کا یہ کہنا کہ جب تک میرا بیٹا ندیم اپنی مرضی سے یہاں سے جانا چاہے تو ٹھیک، ورنہ اس کے لیے جتنا مناسب لگے، دیوار کھینچ کر جگہ چھوڑ دینا، باقی مکان سے وہ فارغ ہے" یہ ان کا اپنے بھائی کو  نصیحت ہے کہ اگر میرا بیٹا مکان مانگے   تو آپ اپنی صوابدید  پراگر دینا چاہے تو  کچھ حصہ مکان میں سے   دے دینا ،وگرنہ نہیں۔ لیکن اگر گفٹ کرتے وقت  آپ کے والد نے باقاعدہ شرط لگائی ہو کہ  آپ نے اس مکان میں سے میرے بیٹے کو لازما دینا ہے ،تو یہ شرط فاسد ہےاورشرعاً یہ غیر معتبر ہے کیونکہ   شرط فاسد  سے ہبہ باطل نہیں ہوتا۔لہٰذا ہبہ تام ہوچکا ہے اور آپ کے چچا اس مکان  کے مکمل بلا شرکت غیر مالک ہے۔

حوالہ جات

المبسوط للسرخسي (12/ 48):

ثم الملك لا يثبت في الهبة بالعقد قبل القبض - عندنا - وقال مالك - رحمه الله تعالى - يثبت؛ لأنه عقد تمليك؛ فلا يتوقف ثبوت الملك به على القبض كعقد البيع، بل: أولى؛ لأن هناك الحاجة إلى إثبات الملك من الجانبين فمن جانب واحد أولى، وحجتنا في ذلك ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تجوز الهبة إلا مقبوضة» معناه: لا يثبت الحكم، وهو الملك؛ إذ الجواز ثابت قبل القبض بالاتفاق، والصحابة اتفقوا على هذا.

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (5/ 688):

 (و) حكمها (‌أنها ‌لا ‌تبطل ‌بالشروط ‌الفاسدة) فهبة عبد على أن يعتقه تصح ويبطل الشرط۔

محمد اسماعیل بن اعظم خان

دار الافتاء جامعۃ الرشید،کراچی

 28/ذی قعدہ 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اسماعیل بن اعظم خان

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب