03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
تم آزاد ہی ہو کہنے سے طلاق کاحکم
87783طلاق کے احکامالفاظ کنایہ سے طلاق کا بیان

سوال

تم میں بیویوں والی کوئی بات نہیں،تم میری بیوی کہاں سے لگتی ہو،میں بیوی مانتاہی نہیں،تم میری کچھ نہیں لگتی،ہماراکوئی رشتہ نہیں،بچوں کی وجہ سے ساتھ رکھاہے،تم آزادہومیری طرف سے،یہ جملہ وقتافوقتاکئی بارکہاہے،جاؤکرلوشادی جہاں کرنی ہے،مگرمجھے کوئی ایسی بات معلوم ہوئی تومیں نے چھوڑدینا ہے،میری بیٹی 18کی ہوجائے گی تومیں نے اس کوطلاق دےدینی ہے،واضح رہے کہ اس نے یہ بات  3لوگوں سے کی،یہ نہیں کہاہے کہ جاؤ میں نے آزادکیا،بلکہ یہ کہاہے:تم میری طرف سے آزادہی ہو(کئی بارکہاہے)کرلوشادی جہاں مرضی(یہ جملہ ایک بارکہا) ہمارے درمیان میاں بیوی والاکوئی رشتہ نہیں،تم آزادہی ہو۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

ہماراکوئی رشتہ نہیں ہےیہ کنائی لفظ ہے اگرشوہرنے  اس سےطلاق کی نیت کی تھی تواس جملہ سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی تھی اوراگرطلاق کی نیت نہیں تھی تواس صورت میں اس  پہلے لفظ سے توطلاق واقع نہیں ہوئی البتہتم آزاد ہومیری طرف سے  “اس دوسرے جملہ سےپہلی   بائن طلاق واقع ہوچکی ہے،کیونکہ لفظ آزاد ان کنائی الفاظ میں سے ہے جن میں صرف جواب بننے کااحتمال ہے اوران سے قرینہ(حالت غضب یامذاکرہ طلاق) کی موجودگی میں بغیرنیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،اس لئے صورت مسؤلہ میں اگرشوہرکی نیت نہیں بھی تھی تب بھی قرائن کی وجہ سے مذکورہ صورت میں بہرحال ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے اورنکاح ختم ہوچکاہےاوراب اگر دونوں  ایک ساتھ رہناچاہتے ہیں  توباہمی رضامندی سےدوبارہ نکاح کے ذریعہ ہی رہ سکتے ہیں،تجدیدنکاح کے بغیرساتھ رہناجائزنہیں ۔

حوالہ جات

فی رد المحتار (ج 11 / ص 166):

 الكنايات ( لا تطلق بها ) قضاء ( إلا بنية أو دلالة الحال ) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب ، فالحالات ثلاث : رضا وغضب ومذاكرة والكنايات ثلاث ما يحتمل الرد أو ما يصلح للسب ، أو لا ولا ( فنحو اخرجي واذهبي وقومي ) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة ( يحتمل ردا ، ونحو خلية برية حرام بائن ) ومرادفها كبتة بتلة ( يصلح سبا ، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك ، أنت واحدة ، أنت حرة ، اختاري أمرك بيدك سرحتك ، فارقتك لا يحتمل السب والرد ، ففي حالة الرضا ) أي غير الغضب والمذاكرة ( تتوقف الأقسام ) الثلاثة تأثيرا ( على نية ) للاحتمال والقول له بيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله ، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى .

( وفي الغضب ) توقف ( الأولان ) إن نوى وقع وإلا لا ( وفي مذاكرة الطلاق ) يتوقف ( الأول فقط ) ويقع بالأخيرين وإن لم ينو۔

وفی رد المحتار (ج 11 / ص 217):

 ولو قال :اذهبي فتزوجي وقال :لم أنو الطلاق لا يقع شيء ،لأن معناه إن أمكنك ـ إلا أن يفرق بين الواو والفاء وهو بعيد هنا بحر ، على أن تزوجي كناية مثل اذهبي فيحتاج إلى النية فمن أين صار قرينة على إرادة الطلاق باذهبي مع أنه مذكور بعده والقرينة لا بد أن تتقدم كما يعلم مما مر في اعتدي ثلاثا فالأوجه ما في شرح الجامع ، ولا فرق بين الواو والفاء ، ويؤيده ما في الذخيرة اذهبي وتزوجي لا يقع إلا بالنية وإن نوى فهي واحدة بائنة ، وإن نوى الثلاث فثلاث۔

وفی الفتاوى الهندية (ج 8 / ص 325):

ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح يقع الطلاق إذا نوى۔

وفی البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج 9 / ص 367):

 لم يبق بيني وبينك عمل لم تطلق إلا أن ينوي به النكاح وينوي به إيقاع الطلاق فحينئذ ۔   

وفی تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (ج 7 / ص 15):

البائن لا يلحق البائن لانتقاء الزوجية      

محمد اویس

دارالافتاء جامعة الرشید کراچی

   ۵/ذی الحجہ ۱۴۴۶ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد اویس صاحب

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب