03182754103,03182754104
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
بچیوں کیلئے زیور کی خریداری سے متعلق مسئلہ
87764غصب اورضمان”Liability” کے مسائل متفرّق مسائل

سوال

ایک خاتون کی تین بیٹیاں ہیں۔ انہوں نے اپنی بیٹیوں کے عید کے پیسوں سے سونے کا زیور خریدا اور بعد میں بڑی بیٹی کو اس نیت سے دے دیا کہ اگلے سالوں میں اسی طرح بچیوں کی عیدی کی رقم سے دوسری اور تیسری بیٹی کے لئے بھی زیور خرید کر انہیں دے دیں گی۔ اگلے سال تو اس طرح کا معاملہ ہوا اور دوسری بیٹی کو بھی زیور مل گیا۔ اس کے بعد یہ معاملہ نہ ہوسکا۔ بعد میں ایک موقع پر بڑی بیٹی نے اپنا زیور لا کر واپس اپنی والدہ کو دیا کہ اس میں کچھ مرمت کروانی تھی لیکن وہ زیور گم ہوگیا۔سوال یہ ہے کہ جو زیور گم ہوا وہ کس کا تھا، اور جو ایک زیور دوسری بیٹی کے پاس ہے اس میں دیگر دو بہنوں کا حق ہےیانہیں؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگر بیٹیوں نے اپنی رضا مندی سے والدہ کو عیدی کے پیسوں کا مالک بنا دیا تھا ،تو والدہ ان پیسوں پر قبضہ (Possession)حاصل کرنے  سے  مالکہ بن گئی تھی۔ بعد ازاں اُن پیسوں سے حاصل زیور جب بڑی بیٹی کو قبضہ کراکر دےدیاگیاتھا، تو وہ اس کی مالکہ ہوگئی تھی۔اسی طرح  جب آئندہ سال دوسری بیٹی کو  بھی اپنے زیور پرقبضہ کرادیا گیا، تووہ بھی  اُس کی مالکہ بن گئی تھی۔ لیکن اگر بیٹیوں میں سے کوئی ایک بھی اپنے عیدی کے پیسوں کو دینے پررضا مند نہیں تھی تو والدہ کو اسکے عیدی کے پیسے لوٹانا لازم ہے۔

جہاں تک گم ہونے والے زیور کی بات ہے تو، اگر وہ  والدہ کی غفلت یا غلطی کے بغیر گم ہو ا ہے تو اس کا حکم امانت کا ہے اوروہ بڑی بیٹی کی ملکیت سے ہی ضائع ہوا ہے، اور والدہ کے ذمہ اس سلسلے میں کچھ نہیں۔البتہ اگر والدہ کی  غفلت یا غلطی کی وجہ سے زیور گم ہوا ہے، تو والدہ   بڑی بیٹی  کواس زیور کا ضمان(تاوان)  بصورت قیمت دینے کی پابند ہیں۔

حوالہ جات

حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (5/ 688):

وفي المبسوط: أن القبض(في الهبة) كالقبول في البيع.

المبسوط للسرخسي (11/ 50):

(ثم) الملك نوعان كامل وقاصر، فالكامل هو المثل صورة ومعنى. والقاصر هو المثل معنى أي في صفة المالية، فيكون الواجب عليه هو المثل التام إلا إذا عجز عن ذلك فحينئذ يكون المثل القاصر خلفا عن المثل التام في كونه واجبا عليه.وبيان هذا أن المغصوب إذا كان من ذوات الأمثال كالمكيل والموزون فعليه المثل عندنا. وقال نفاة القياس: عليه رد القيمة؛ لأن حق المغصوب منه في العين والمالية، وقد تعذر إيصال العين إليه فيجب إيصال المال إليه، ووجوب الضمان على الغاصب باعتبار صفة المالية، ومالية الشيء عبارة عن قيمته، ولكنا نقول: الواجب هو المثل قال الله تعالى: {فمن اعتدى عليكم فاعتدوا عليه بمثل ما اعتدى عليكم} [البقرة: 194].

حماد الدین قریشی

دارالافتاءجامعۃ الرشید، کراچی

5   /ذی الحج 1446ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

حماد الدین قریشی بن فہیم الدین قریشی

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب