کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ
میداد نے آج سے کچھ عرصہ پہلے اپنی بیٹی "زردانہ"کا نکاح عصمت اللہ سے کروایا،اس وقت عصمت اللہ کا بھائی عبد الباری اپنے بھائی عصمت اللہ کا وکیل تھا عبد الباری نے میداد کو کہا کہ آپ اپنی بیٹی"زردانہ"کو میرےبھائی عصمت اللہ کے نکاح میں دیدیں، میداد نے کہا کہ آپ کے بھائی کو ہم دیکھیں گے ،عبد الباری نے کہاکہ عصمت اللہ ٹھیک ٹاک ہے اورصحت مند ہے، میداد نے عبدالباری کی بات پر بھروسہ کرکے اپنی بیٹی کا نکاح عصمت اللہ سے کرایا،مہر طے ہوا عبد الباری نے چنددنوں کے بعد میدادکو 90000ہزازروپے مہر کی مد میں دیدیئے،اس کے بعد میداد کو پتہ چلااورمیداد کے بیٹے نے بھی عصمت اللہ کودیکھاکہ وہ تو معذورہے اوراس کا ایک ہاتھ پورا اور دوسرے ہاتھ کی تین انگلیاں کٹ گئی ہیں اورایک آنکھ بھی مکمل طورپرضائع ہوئی ہے، اورباقی بدن بھی کمزورہے،کیونکہ عصمت اللہ کے نکاح ہونے سے کافی عرصہ پہلے ایک بم دھماکے میں اس وہ طرح زخمی ہوئے تھے، جبکہ عبد الباری نے اپنے بھائی عصمت اللہ کا مذکورہ عیب اس لیے چھپایاتھا کہ میداد کو دھوکہ دیکران کی بیٹی زردانہ کا نکاح اپنے بھائی عصمت اللہ کےساتھ کردے،اسی طرح عصمت اللہ کےمذکورہ عیب کی خبرجب زردانہ کو پہنچی تو زردانہ نے کہاکہ میں کسی صورت بھی عصمت اللہ سے شادی نہیں کرتی ،اگر میری شادی عصمت اللہ سے کرادی تو ا پنے آپ کو ماردوں گی ،کیونکہ ایجاب اورقبول کے وقت میرے والدکو عصمت اللہ کے مذکورہ عیوب سے باخبر نہیں کیا گیا تھا،اورعیوب چھپاکر دھوکہ دیا گیا تھا، لہذا میں عصمت اللہ سے شادی نہیں کرونگی،میداداوران کے خاندان نے مسئلہ ہذا کو عدالت میں پیش کیا، عدالت میں اس مسئلے کی پیشی کافی عرصہ تک چلتی رہی (عدالتی فیصلہ اس استفتاء کے ساتھ منسلک ہے جس میں عدالت کی تمام کاروائی مذکورہے)جبکہ پیشی کے دوران جج نے کئی بارعصمت اللہ کو عدالتی نوٹس جاری کیاکہ عصمت اللہ آپ عدالت میں پیش ہوجائیں ورنہ عدالت اپنا فیصلہ صادرفرمائیگی،پھربھی عصمت اللہ عدالت میں پیش نہیں ہوا،آخر کارعدالت نے لڑکی زردانہ کے حق میں خلع کا فیصلہ صادر فرمایا،کیاشریعت کی روسے عدالت کا یہ فیصلہ درست ہے یانہیں؟اگردرست ہے تو کیا لڑکی کے لیے عصمت اللہ سے دوبارہ خلع یا طلاق لیناضروری ہے یا نہیں ؟
اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ
صورتِ مسئولہ میں عبد الباری کے لیے اپنے بھائی کے عیوب چھپاکر دھوکہ دینا جائز نہیں تھا ،بالخصوص جب لڑکی کے والدمیداد نے لڑکے کے دیکھنے کی خواہش ظاہرکی تو عبدالباری کا ایسے موقع پر غلط بیانی کرنا اورعصمت اللہ کوٹھیک ٹھاک اورصحت مند ظاہرکرناجائز نہیں تھا، ایسا کرکے اس نے ایک ناجائز فعل کا ارتکاب کیا ہے جس پر اس کو توبہ واستغفار کرناچاہیے.
نکاح ہوجانے کے بعد سوال میں ذکرکرہ مردکے عیوب (ایک ہاتھ کا کٹاہوا ہونا،دوسرے ہاتھ کی کچھ انگلیوں کا کٹاہوا ہونااورایک آنکھ کا ضائع ہونا) اگرچہ ائمہ اربعہ میں سے کسی کے نزدیک فسخِ نکاح کا سبب نہیں،مگر بعض دیگرائمہ جیسے علامہ ابن قیمؒ ،علامہ ابن تیمیہؒ اورامام محمد رحمھم اللہ کی بعض عبارات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ عیب بھی سببِ فسخ نکاح ہے، بلکہ بعض حضرات نے تو یہاں تک لکھاہے کہ فقہاء کے ذکرکردہ خاص خاص عیوب حصر کے لیے نہیں، بلکہ بطورمثال ہیں، لہذا جو عیوب فقہاءِ کرام کے ذکرکردہ عیوب کے ہم معنی ہوں یا ضررمیں ان سے بڑھ کر ہوں جیسےکہ ایڈزوغیرہ ان میں بھی قاضی کونکاح کے فسخ کا اختیارہوگا،اس بناء پر سوال کے ساتھ منسلکہ فیصلہ درست ہے، کیونکہ ہماری عدالتیں آئین کی روسےکسی خاص فقہی مذہب پر فیصلے کی پابندنہیں، بلکہ کتاب وسنت کے مطابق فیصلے کرنے کی پابندہیں اورجب بعض ائمہ کے ہاں مذکورہ عیوب کی وجہ سے فسخ جائز ہےخصوصاً جبکہ مذکورہ صورت میں دھوکہ دہی کی واضح صورت ہے تو حکمِ حاکم رافع للخلاف ہوا اورفیصلہ معتبرہوا۔تاہم اس میں چونکہ قضاء علی الغائب بھی ہوا ہے، لہذا اگرعورت نے خاوند کے مذکورہ عیوب پر باقاعدہ گواہ قائم کرکےاس پر قاضی سے فیصلہ کرایا تو ہوپھر تو یہ فیصلہ شرعاً معتبرہے اوراگر گواہ پیش نہیں کئے گئے تھے یاعدالت نے ان کو بلایانہیں تھا تو پھرقاضی کے پاس گواہوں سے اپنا دعوی ثابت کرکے پھر فسخِ نکاح کا فیصلہ کرایاجائے تو وہ شرعاً معتبرہوگا ۔
حوالہ جات
وفی الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ(29/67)
التَّفْرِيقُ لِلْعَيْبِ : 93 - اتَّفَقَ فُقَهَاءُ الْمَذَاهِبِ الأَرْبَعَةِ عَلَى جَوَازِ التَّفْرِيقِ بَيْنَ الزَّوْجَيْنِ لِلْعُيُوبِ .إِلا أَنَّ الْحَنَفِيَّةَ خَصُّوا التَّفْرِيقَ هَذَا بِعُيُوبِ الزَّوْجِ دُونَ عُيُوبِ الزَّوْجَةِ ، وَجَعَلُوا التَّفْرِيقَ بِهِ حَقًّا لِلزَّوْجَةِ وَحْدَهَا ، لامْتِلاكِهِ الطَّلاقَ دُونَهَا .أَمَّا الْمَالِكِيَّةُ وَالشَّافِعِيَّةُ وَالْحَنَابِلَةُ فَقَدْ ذَهَبُوا إِلَى جَوَازِ التَّفْرِيقِ لِعَيْبِ الرَّجُلِ وَالْمَرْأَةِ عَلَى سَوَاءٍ ، وَأَنَّ التَّفْرِيقَ لِلْعَيْبِ حَقٌّ لَهُمَا عَلَى سَوَاءٍ . إِلا أَنَّ الْفُقَهَاءَ جَمِيعًا اتَّفَقُوا عَلَى تَضْيِيقِ دَائِرَةِ التَّفْرِيقِ لِلْعَيْبِ ، وَعَدَمِ التَّوَسُّعِ فِيهِ ، ثُمَّ اخْتَلَفُوا فِي الْعُيُوبِ الْمُثْبِتَةِ لِلتَّفْرِيقِ عَلَى أَقْوَالٍ .فَذَهَبَ الشَّيْخَانِ مِنَ الْحَنَفِيَّةِ ( أَبُو حَنِيفَةَ وَأَبُو يُوسُفَ ) إِلَى التَّفْرِيقِ بِالْجَبِّ ، وَالْعُنَّةِ ، وَالْخِصَاءِ فَقَطْ ، وَزَادَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ عَلَى ذَلِكَ : الْجُنُونَ (1) .وَذَهَبَ الْجُمْهُورُ إِلَى التَّفْرِيقِ بِعُيُوبٍ اتَّفَقُوا فِي بَعْضِهَا ، وَاخْتَلَفُوا فِي بَعْضِهَا الآخَرِ عَلَى أَقْوَالٍ ، وَقَسَّمُوهَا إِلَى ثَلاثَةِ أَنْوَاعٍ : قِسْمٌ مِنْهَا خَاصٌّ بِالرِّجَالِ ، وَقِسْمٌ خَاصٌّ بِالنِّسَاءِ ، وَقِسْمٌ مُشْتَرَكٌ بَيْنَ النِّسَاءِ وَالرِّجَالِ .فَعِنْدَ الْمَالِكِيَّةِ يُفَرَّقُ بِالْعُيُوبِ التَّالِيَةِ : عُيُوبُ الرِّجَالِ وَهِيَ : الْجَبُّ (1) ، وَالْخِصَاءُ (2) وَالْعُنَّةُ (3) ، وَالاعْتِرَاضُ (4) . وَعُيُوبُ النِّسَاءِ هِيَ : الرَّتَقُ (5) ، وَالْقَرْنُ (6) ، وَالْعَفَلُ (7) ، وَالإِفْضَاءُ (8)وَالْبَخَرُ (1) . وَالْعُيُوبُ الْمُشْتَرَكَةُ هِيَ : الْجُنُونُ (2) ، وَالْجُذَامُ (3) ، وَالْبَرَصُ (4) ، وَالْعِذْيَطَةُ (5) وَالْخَنَاثَةُ الْمُشْكِلَةُ (6)وَعِنْدَ الشَّافِعِيَّةِ يُفَرَّقُ بِالْعُيُوبِ التَّالِيَةِ : عُيُوبُ الرِّجَالِ وَهِيَ : الْعُنَّةُ ، وَالْجَبُّ . وَعُيُوبُ النِّسَاءِ هِيَ : الرَّتَقُ ، وَالْقَرْنُ . وَالْعُيُوبُ الْمُشْتَرَكَةُ هِيَ : الْجُنُونُ ، وَالْجُذَامُ وَالْبَرَصُ (7) .وَعِنْدَ الْحَنَابِلَةِ يُفَرَّقُ بِالْعُيُوبِ التَّالِيَةِ . عُيُوبٌ خَاصَّةٌ بِالرِّجَالِ هِيَ : الْعُنَّةُ ، وَالْجَبُّ . وَعُيُوبٌ خَاصَّةٌ بِالنِّسَاءِ هِيَ : الْفَتْقُ ، وَالْقَرْنُ ، وَالْعَفَلُ . وَعُيُوبٌ مُشْتَرَكَةٌ ، هِيَ : الْجُنُونُ ، وَالْبَرَصُ ، وَالْجُذَامُ (8) .إِلا أَنَّ أَبَا بَكْرٍ ، وَأَبَا حَفْصٍ مِنَ الْحَنَابِلَةِزَادَا عَلَى الْعُيُوبِ الْمُتَقَدِّمَةِ اسْتِطْلاقَ الْبَطْنِ ، وَسَلَسَ الْبَوْلِ ، وَقَالَ أَبُو الْخَطَّابِ : وَيَتَخَرَّجُ عَلَى ذَلِكَ مَنْ بِهِ النَّاسُورُ وَالْبَاسُورُ ، وَالْقُرُوحُ السَّيَّالَةُ فِي الْفَرْجِ ؛ لأَنَّهَا تُثِيرُ النُّفْرَةَ ، وَتُعْدِي بِنَجَاسَتِهَا ، وَقَالَ أَبُو حَفْصٍ : الْخِصَاءُ عَيْبٌ ، وَفِي الْبَخَرِ وَالْخَنَاثَةِ وَجْهَانِ (1) .
94 - وَظَاهِرُ نُصُوصِ الْفُقَهَاءِ تُوحِي بِالْحَصْرِ فِي هَذِهِ الْعُيُوبِ ، فَقَدْ جَاءَ فِي الْمُغْنِي : أَنَّهُ لا يَثْبُتُ الْخِيَارُ لِغَيْرِ مَا ذَكَرْنَاهُ . وَجَاءَ فِي مُغْنِي الْمُحْتَاجِ قَوْلُهُ : وَاخْتِصَارُ الْمُصَنِّفِ عَلَى مَا ذُكِرَ مِنَ الْعُيُوبِ يَقْتَضِي أَنَّهُ لا خِيَارَ فِيمَا عَدَاهَا ، قَالَ فِي الرَّوْضَةِ : وَهُوَ الصَّحِيحُ الَّذِي قَطَعَ بِهِ الْجُمْهُورُ . وَجَاءَ فِي بِدَايَةِ الْمُجْتَهِدِ قَوْلُهُ : وَاخْتَلَفَ أَصْحَابُ مَالِكٍ فِي الْعِلَّةِ الَّتِي مِنْ أَجْلِهَا قُصِرَ الرَّدُّ عَلَى هَذِهِ الْعُيُوبِ الأَرْبَعَةِ ، فَقِيلَ : لأَنَّ ذَلِكَ شَرْعٌ غَيْرُ مُعَلَّلٍ ، وَقِيلَ : لأَنَّ ذَلِكَ مِمَّا يَخْفَى ، وَمَحْمَلُ سَائِرِ الْعُيُوبِ عَلَى أَنَّهَا مِمَّا لا يَخْفَى ، وَقِيلَ : لأَنَّهَا يُخَافُ سِرَايَتُهَا إِلَى الأَبْنَاءِ .
إِلا أَنَّنَا إِلَى جَانِبِ هَذِهِ النُّصُوصِ نَجِدُ نُصُوصًا لِبَعْضِ الْفُقَهَاءِ تَدُلُّ عَلَى عَدَمِ قَصْرِ الأَئِمَّةِ التَّفْرِيقَ عَلَى الْعُيُوبِ الْمُتَقَدِّمَةِ ، فَيُلْحَقُ بِهَا مَا يُمَاثِلُهَا فِي الضَّرَرِ . مِنْ ذَلِكَ مَا قَالَهُ ابْنُ تَيْمِيَّةَ فِي الاخْتِيَارَاتِ الْعِلْمِيَّةِ : وَتُرَدُّ الْمَرْأَةُ بِكُلِّ عَيْبٍ يُنَفِّرُ عَنْ كَمَالِ الاسْتِمْتَاعِ . وَمَا قَالَهُ ابْنُ قَيِّمٍ الْجَوْزِيَّةُ فِي زَادِ الْمَعَادِ : وَأَمَّا الاقْتِصَارُ عَلَى عَيْبَيْنِ أَوْ سِتَّةٍ ، أَوْ سَبْعَةٍ أَوْ ثَمَانِيَةٍ دُونَ مَا هُوَ أَوْلَى مِنْهَا أَوْ مُسَاوٍ لَهَا فَلا وَجْهَ لَهُ ، فَالْعَمَى وَالْخَرَسُ وَالطَّرَشُ ، وَكَوْنُهَا مَقْطُوعَةَ الْيَدَيْنِ وَالرِّجْلَيْنِ أَوْ أَحَدِهِمَا ، أَوْ كَوْنُ الرَّجُلِ كَذَلِكَ مِنْ أَعْظَمِ الْمُنَفِّرَاتِ . وَقَوْلُهُ : وَالْقِيَاسُ أَنَّ كُلَّ عَيْبٍ يُنَفِّرُ الزَّوْجَ الآخَرَ مِنْهُ ، وَلا يَحْصُلُ بِهِ مَقْصُودُ النِّكَاحِ مِنَ الرَّحْمَةِ وَالْمَوَدَّةِ يُوجِبُ الْخِيَارَ . وَمَا قَالَهُ الْكَاسَانِيُّ : وَقَالَ مُحَمَّدٌ : خُلُوُّهُ مِنْ كُلِّ عَيْبٍ لا يُمْكِنُهَا الْمَقَامُ مَعَهُ إِلا بِضَرَرٍ ، كَالْجُنُونِ ، وَالْجُذَامِ ، وَالْبَرَصِ شَرْطٌ لِلُزُومِ النِّكَاحِ ، حَتَّى يُفْسَخَ بِهِ النِّكَاحُ حَيْثُ جَاءَتْ هَذِهِ الْعُيُوبُ بِصِيغَةِ التَّمْثِيلِ . هَذَا إِلَى جَانِبِ أَنَّ نُصُوصَ الْفُقَهَاءِ عَامَّةً كَانَتْ تُعَلِّلُ التَّفْرِيقَ لِلْعَيْبِ بِالضَّرَرِ الْفَاحِشِ وَبِالْعَدْوَى ، وَعَدَمِ الْقُدْرَةِ عَلَى الْوَطْءِ ، وَهُوَ ظَاهِرٌ فِي جَوَازِ الْقِيَاسِ عَلَيْهَا (1)
وفی حاشیۃ الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیہ(29/69)
وترى اللجنة أن هذه العيوب المنصوص عليها ليست للحصر ، وإنما هي للتمثيل ، ولذلك فإنه يلحق بها كل ما كان في معناها أو زاد عليها ، كالإيدز وما شابهه من الأمراض التي تفوق بعض ما ذكر .
وفی الدر المختار (3/ 95)
أمرته بتزويجها ولم تعين فزوجها غير كفء لم يجز اتفاقا.
وفی حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 95)
(قوله لم يجز اتفاقا) لأن الكفاءة معتبرة في حقها فلو كان كفؤا إلا أنه أعمى أو مقعد أو صبي أو معتوه، فهو جائز وكذا لو كان خصيا أو عنينا، وإن كان لها التفريق بعد ذلك بحر.
الشرح الكبير للشيخ الدردير وحاشية الدسوقي (2/ 280)
(و) الخيار ثابت (بغيرها أي بغير العيوب المتقدمة) من سواد وقرع وعمى وعور وعرج وشلل وقطع وكثرة
أكل من كل ما يعد عيبا عرفا (إن شرط السلامة) منه سواء عين ما شرطه أو قال من كل عيب أو من العيوب فإن لم يشترط السلامة فلا خيار.
الشرح الكبير للشيخ الدردير وحاشية الدسوقي (4/ 162)
ولما كان القاضي له الحكم على الغائب وكانت الغيبة ثلاثة أقسام قريبة وبعيدة ومتوسطة ذكرها على هذا الترتيب فقال (و) الغائب (القريب) الغيبة كاليومين والثلاثة مع الأمن حكمه (كالحاضر) في سماع الدعوى عليه والبينة وتزكيتها، ثم يكتب إليه بالإعذار فيها وأنه إما قدم أو وكل فإن لم يقدم ولا وكل حكم عليه في كل شيء، ويباع عقاره ونحوه في الدين ويعجزه إلا في دم وحبس إلى آخر ما تقدم.وأشار للثانية بقوله (و) الغيبة (البعيدة كإفريقية) من مكة ونحوها (قضي عليه) في كل شيء بعد سماع البينة وتزكيتها (بيمين القضاء) من المدعي أنه ما أبرأه ولا أحاله الغائب به ولا وكل من يقضيه عنه في الكل ولا البعض وهي واجبة لا يتم الحكم إلا بها على المذهب وهذه اليمين تتوجه في الحكم على الغائب والميت واليتيم والمساكين والأحباس ونحو ذلك.... وأشار للثالثة بقوله (والعشرة) من الأيام مع الأمن (أو اليومان مع الخوف يقضى عليه معها) أي مع يمين القضاء (في غير استحقاق العقار) أي عقاره فلا تسمع دعوى ممن ادعى أنه يستحق عقاره لكثرة المشاحة فيه فتؤخر الدعوى عليه فيه حتى يقدم، وإنما سمعت في بعيد الغيبة لضرورة مشقة الصبر واحترز باستحقاق العقار عن بيعه في دين، أو نفقة زوجة فإنه يحكم به، ثم ما قارب كلا من مسافة الغيبة في الأقسام الثلاثة له حكمه.
درر الحكام شرح غرر الأحكام (2/ 410)
(قوله وأما إذا قضى على غائب فقيل ينفذ وقيل لا) قدم المصنف - رحمه الله تعالى - في باب خيار العيب أن القضاء على الغائب من غير خصم ينفذ في أظهر الروايتين عن أصحابنا اهـ.
وقال الكمال بعد حكاية الخلاف في النفاذ والذي يقتضيه النظر أن نفاذ القضاء على الغائب موقوف على إمضاء قاض لأن نفس القضاء هو المجتهد فيه فهو كقضاء المحدود في قذف ونحوه وحيث قضى على غائب فلا يكون عن إقرار عليه اهـ
شرح مختصر خليل للخرشي (3/ 236)
وحاصل العيوب في الرجل والمرأة ثلاثة عشر، أربعة يشترك فيها الرجل والمرأة؛ وهي: الجنون والجذام، والبرص، والعذيوطة. وأربعة خاصة بالرجل؛ وهي: الخصاء، والجب، والعنة، والاعتراض. وخمسة خاصة بالمرأة؛ وهي: القرن، والرتق، والبخر، والعفل والإفضاء، وأضاف ما هو مختص بالرجل لضميره، وما هو مختص بالمرأة لضميرها، وما هو مشترك لم يضفه.
مغني المحتاج إلى معرفة معاني ألفاظ المنهاج (4/ 339)
وجد أحد الزوجين بالآخر جنونا أو جذاما أو برصا، أو وجدها رتقاء أو قرناء.أو وجدته عنينا أو مجنونا ثبت الخيار في فسخ النكاح. وقيل إن وجد به مثل عيبه فلا.ولو وجده خنثى واضحا فلا في الأظهر. ولو حدث به عيب تخيرت إلا عنة بعد دخول، أو بها تخير في الجديد.
المغني المطبوع مع الشرح الكبير 7/ 582 ط الكتب العلمية
الْفَصْلُ الثَّانِي : فِي عَدَدِ الْعُيُوبِ الْمُجَوِّزَةِ لِلْفَسْخِ , وَهِيَ فِيمَا ذَكَرَ الْخِرَقِيِّ ثَمَانِيَةٌ : ثَلاثَةٌ يَشْتَرِكُ فِيهَا الزَّوْجَانِ ; وَهِيَ : الْجُنُونُ , وَالْجُذَامُ , وَالْبَرَصُ . وَاثْنَانِ يَخْتَصَّانِ الرَّجُلَ ; وَهُمَا الْجَبُّ , وَالْعُنَّةُ . وَثَلاثَةٍ تَخْتَصُّ بِالْمَرْأَةِ ; وَهِيَ الْفَتْقُ , وَالْقَرْنُ , وَالْعَفَلُ وَقَالَ الْقَاضِي : هِيَ سَبْعَةٌ . جَعَلَ الْقَرْنَ وَالْعَفَلَ شَيْئًا وَاحِدًا , وَهُوَ الرَّتْقُ أَيْضًا , وَذَلِكَ لَحْمٌ يَنْبُتُ فِي الْفَرْجِ .
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 327)
وأما خلو الزوج عما سوى هذه العيوب الخمسة من الجب، والعنة والتأخذ والخصاء والخنوثة، فهل هو شرط لزوم النكاح؟ قال أبو حنيفة، وأبو يوسف ليس بشرط، ولا يفسخ النكاح به.وقال محمد: خلوه من كل عيب لا يمكنها المقام معه إلا بضرر كالجنون والجذام والبرص، شرط لزوم النكاح حتى يفسخ به النكاح، وخلوه عما سوى ذلك ليس بشرط، وهو مذهب الشافعي.(وجه) قول محمد أن الخيار في العيوب الخمسة إنما ثبت لدفع الضرر عن المرأة وهذه العيوب في إلحاق الضرر بها فوق تلك؛ لأنها من الأدواء المتعدية عادة، فلما ثبت الخيار بتلك، فلأن يثبت بهذه أولى بخلاف ما إذا كانت هذه العيوب في جانب المرأة؛ لأن الزوج، وإن كان يتضرر بها لكن يمكنه دفع الضرر عن نفسه بالطلاق، فإن الطلاق بيده، والمرأة لا يمكنها ذلك؛ لأنها لا تملك الطلاق، فتعين الفسخ طريقا لدفع الضرر، ولهما أن الخيار في تلك العيوب ثبت لدفع ضرر فوات حقها المستحق بالعقد، وهو الوطء مرة واحدة، وهذا الحق لم يفت بهذه العيوب؛ لأن الوطء يتحقق من الزوج مع هذه العيوب، فلا يثبت الخيار هذا في جانب الزوج.