021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
مسجد کے لیے وقف کردہ زمین کا بدلنا
71394نماز کا بیانجمعہ و عیدین کے مسائل

سوال

عبد اللہ نے ایک زمین مسجد کے نام وقف کی اور اس کی نشاندہی بھی کردی، اس کے بعد اس کے بیٹوں نے وہاں موجود نشانات کو اکھاڑ پھینک دیا۔ واضح رہے کہ عبد اللہ عاقل، دماغ کے لحاظ سے صحیح شخص ہے اور اس کے پاس اس زمین کے علاوہ بھی بہت جائیداد ہے اپ پوچھنا یہ ہے کہ(۱) عبد اللہ کا وقف صحیح ہوا یا نہیں؟ اور(۲) اگر صحیح ہوا تو پھر اس کے بدلے دوسری جگہ مسجد کے لیے دے سکتا ہے؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب زمین متعین کرکے اس کے بارے میں وقف کی تصریح کردی تویہ وقف صحیح ہوچکا، اب اس سے رجوع یا اس کے بدلے دوسری زمین مسجد کے لیے دینا درست نہیں۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 355)
 (فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن) فبطل شرط واقف الكتب،
 (ويزول ملكه عن المسجدوالمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه)بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية.
(قوله: وشرط محمد والإمام الصلاة فيه) أي مع الإفراز كما علمته واعلم أن الوقف إنما احتيج في لزومه إلى القضاء عند الإمام؛ لأن لفظه لا ينبئ عن الإخراج عن الملك، بل عن الإبقاء فيه، لتحصل الغلة على ملكه، فيتصدق بها بخلاف قوله: جعلته مسجدا، فإنه لا ينبئ عن ذلك ليحتاج إلى القضاء بزواله، فإذا أذن بالصلاة فيه، قضى العرف بزواله عن ملكه، ومقتضى هذا أنه لا يحتاج إلى قوله وقفت ونحوه وهو كذلك وأنه لو قال وقفته مسجدا، ولم يأذن بالصلاة فيه ولم يصل فيه أحد أنه لا يصير مسجدا بلا حكم وهو بعيد كذا في الفتح ملخصا.۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔وفي الدر المنتقى وقدم في التنوير والدرر والوقاية وغيرها قول أبي يوسف وعلمت أرجحيته في الوقف والقضاء. اهـ.واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۱جمادی الثانیۃ ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / محمد حسین خلیل خیل صاحب