021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
نکاح میں مالداری میں برابری کا شرعی معیار
77301نکاح کا بیانولی اور کفاء ت ) برابری (کا بیان

سوال

اگر لڑکا پڑھتا ہے اور وہ کماتا نہیں ہے،لیکن وہ کاروبار سنبھالنے میں اپنے والد کی مدد کرتا ہےاور اس کے والد لڑکی کے والد سے زیادہ مالدار ہےتو کیا وہ مال کے لحاظ سے لڑکی کے کفو میں شمار ہوگا؟اوراگران کا نکاح ولی کی اجازت کےبغیر ہو جائے تو کیا وہ نکاح کفو میں ہو گا؟

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اگریہ لڑکا اپنی ملکیت میں بقدر مہر اور نان نفقہ مال رکھتا ہو تو اس لڑکے کامالدار والد کی بیٹی کے کفو بننے  میں کوئی اشکال نہیں اور اگر یہ  خود صاحب حیثیت نہ ہو تواگر اس لڑکے کا نکاح اس کے والد کرارہے ہوں اور اس کے شادی اور تعلیم سے فراغت کے تمام اخراجات کی ذمہ داری بھی والد لےرہے ہوں تو ایسی صورت میں یہ لڑکا عرف کی وجہ سے والد کی سرپرستی اورشادی اور تعلیم کے حصول تک ذمہ داری سنبھالنے کی وجہ سے لڑکی کا کفو قرار دیا جائے گا اوراگر یہ لڑکا اپنا یہ رشتہ خود طے کرارہا ہو تو ایسی صورت میں عرف کے مطابق مہر معجل کی مقدار کی ادائیگی اور نان نفقہ پر کسی بھی  طرح دسترس حاصل کرسکتا ہومثلا قرض لے کر ادائیگی کے بعد کما کر قرض اتار سکتا ہو تو بھی یہ اس لڑکی کا کفو بن جائے۔

البتہ نکاح جیسا خاندانی  نظام ولی اور سرپرست کی اجازت اور سرپرستی ہی میں سرانجام دینا چاہئے ،اس لیے کہ نکاح کے معاملے میں بعد میں پیدا ہونے والے بہت سارے مسائل اور پیچیدگیوں کا تدارک یا حل اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے۔

حوالہ جات
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 319)
والمعتبر فيه القدرة على مهر مثلها، والنفقة، ولا تعتبر الزيادة على ذلك حتى أن الزوج إذا كان قادرا على مهر مثلها، ونفقتها يكون كفئا لها، وإن كان لا يساويها في المال هكذا روي عن أبي حنيفة وأبي يوسف، ومحمد في ظاهر الروايات
وذكر في غير رواية الأصول أن تساويهما في الغنى شرط تحقق الكفاءة في قول أبي حنيفة، ومحمد خلافا لأبي يوسف؛ لأن التفاخر يقع في الغنى عادة، والصحيح هو الأول؛ لأن الغنى لا ثبات له؛ لأن المال غاد ورائح، فلا تعتبر المساواة في الغنى.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 6)
قلت: ومقتضاه الكراهة أيضا عند عدم ملك المهر والنفقة لأنهما حق عبد أيضا، وإن خاف الزنا لكن يأتي أنه يندب الاستدانة له قال في البحر: فإن الله ضامن له الأداء فلا يخاف الفقر إذا كان من نيته التحصين والتعفف. اهـ. ومقتضاه أنه يجب إذا خاف الزنا، وإن لم يملك المهر إذا قدر على استدانته وهذا مناف للاشتراط المذكور إلا أن يقال الشرط ملك كل من المهر والنفقة ولو بالاستدانة أو يقال هذا في العاجز عن الكسب الخ

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۳ذی الحجہ۱۴۴۳ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب