021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
متعددمرتبہ مشکوک خلع حاصل کرنے والی عورت سے نکاح کے بعد طلاق کا حکم
78096طلاق کے احکامخلع اور اس کے احکام

سوال

جب میری سابقہ بیوی نےمیرےنہ چاہتےہوئےبھی مجھ سے2012میں خلع لیکرکہیں اورشادی کرلی،تومیں نےبھی بعدمیں ایک خاتون سےجس نےاپنےسابقہ دو(2)شوہروں سےخلع لی ہوئی تھی،شادی کرلی اورخاتون کی ایک اولاداس کےپہلےشوہرسےتھی،مجھ سےشادی نومبر2015میں ہوئی،میرےاس خاتون سےایک بیٹااوردو بیٹیاں ہیں۔ شادی کرتےوقت خاتون نےمجھے بتایاتھا کہ" میرے گھروالوں نےمیری شادی 2005 میں جس سے کی،اسکی پہلےسےایک بیوی تھی اوراس کی صرف بیٹیاں تھیں جومجھ سےبڑی تھیں، پہلےشوہرنے مجھ سےبیٹے کےلیےشادی کی تھی اورجب میری بھی اس سےایک بیٹی ہوئی اوربعد میں بھی اس نے دو بارابارشن کروایا کہ بیٹیاں نہیں چاہیے پھر وہ مجھے چھوڑکرجاب کرنے جرمنی چلاگیا تو میں نے اپنے پہلے شوہر کو بولا کہ مجھے بھی بلاؤ یا مجھے طلاق دے دو، لیکن اس نے میری کوئی بات نہیں مانی،وہ خرچہ ضرور بھیجتا رہا، میں نے اس (اپنے پہلے شوہر)کو بتاکر خلع لے لی۔یہ شادی میری چھ سال چلی جس میں، میں اپنے شوہر کے بغیر ڈھائی سال سے زیادہ عرصے تک اس کے باہر جانے کی وجہ سے علیحدہ رہی ہوں اورخلع لینے میں بھی ایک سال لگ گیا۔ بعد میں میرے گھر والوں نے میرے اپنے کزن(چچا کے بیٹے، جس کی بہن میرے بڑے بھائی کے پاس بیوی ہے) اس سے دوسری شادی کروادی۔ دوسری شادی کے کچھ مہینوں بعد میری ساس، نندوں اور شوہر نے مجھ کوطعنے اور خرچے سے تنگ کرنا شروع کردیا،روز جھگڑا ہونے لگا اورکہیں سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوا تو میں نے تنگ آکر اپنے گھروالوں اورشوہر کو بتا کر خلع لے لی۔" یہ شادی میری ایک سال بھی نہیں چلی۔ میں (عبدالوحید)نے شادی کرنے سے پہلے یونین کونسل کے اس کے دونوں اوریجنل خلع نامے دیکھ کر شادی کی تھی کہ کوئی بعد میں مسئلہ نہ ہو اور نکاح نامے میں بھی خاتون کے دونوں مرتبہ خلع کا اندراج ہے کہ اب تیسری شادی مجھ سے ہے۔ سر، مجھے کویڈ 19کے دوران اسلام کے حوالے سے پڑھنا نصیب ہوا توخلع کےبارے میں بھی پتہ چلا کہ خلع لینے کاطریقہ کیاہوتا ہے،میں نے اپنی موجودہ بیوی سے جب خلع کےحوالے سے ڈسکس کیا تو وہ بھی بہت پریشان ہوئی اورجب میں نےاس(اپنی بیوی) کوبولا کہ مجھےدوبارہ اپنےتمام ماضی کےپیپرز خلع نامے وغیرہ دو تاکہ میں مفتی صاحبان سے اس مسئلے کا حل معلوم کرلوں کہ کہیں جانےانجانےمیں ہم گناہگارتو نہیں ہورہے،لیکن اس(خاتون)نےمیراساتھ دینے کی بجائے اورمجھے بتائے بغیر مجھ سے بھی خلع لے لیا،لیکن سمجھ نہیں آیا کہ اس خاتون نے تین بچوں کے ہوتے ہوئے بھی ایسا کیوں کیا؟ جب کہ زندگی کے معاملات سب صحیح چل رہے تھے،پچھلے معاملات کے حوالے سے بات کرنے کی وجہ سے شاید میرے اندر کی تلخی کی وجہ سے بات خراب ہوئی ہواوراس نے خلع لے لی۔میری طرف سے کوئی علیحدگی کی بات نہیں ہوئی۔ مجھے ان تما م باتوں کی روشنی میں درج ذیل مسائل بتائیں کہ:

1.  کیا میری شادی اس خاتون کے ساتھ ٹھیک تھی؟جس سے میرا ایک بیٹا اوردوبیٹیا ں ہیں؟ اگر نہیں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟کیا اس بھول چوک گناہ کا کفارہ ہے،جوکہ انجانے میں مجھ سے ہوا؟ اس خاتون نے جو پہلے خلع لیا اورجو اب مجھ سے لیا ہے،سب غلط ہیں یا سب صحیح ہیں؟برائےمہربانی مزیدگناہ سےبچنےکےلئےبتائیں کہ اب کیا کریں؟

2. بچے بھی چھوٹے ہیں،بہت پریشانی میں ہوں،حل بتاکرمجھ پراحسان فرمائیں؟

3.  کیاہمارااب بھی ساتھ رہنےکاکوئی سبب بن سکتا ہے؟جواب کاانتہائی ممنون رہوں گا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

1،3. اس سؤال  میں پوچھے گئے طلاق اور خلع اوردوبارہ نکاح کا حکم سابق خلع ناموں کی تحریر پڑھنے کے بعد ہی دیا جاسکتا ہے۔واضح رہے کہ شوہر کی اجازت اور مرضی کے بغیر یک طرفہ عدالتی خلع  شرعا معتبر نہیں۔

خلع کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ میاں بیوی آپس کی رضامندی سے اپنی صوابدید کے مطابق عوض متعین کرکے معاملہ کرسکتے ہیں،اس کےلیےعدالت جانےکی ضرورت نہیں اورخلع سے ایک طلاق بائن ہوجائے،جس کےبعد عدت( تین حیض یا حیض نہ آنے کی صورت میں تین ماہ) گزارکر عورت دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

2. جب تک سابق نکاح کی صورت حال واضح نہیں ہوجاتی، اس وقت تک والدہ کوبچہ کو سات سال تک اور بچی کونو سال تک اپنی پرورش اور تربیت میں رکھنےکا حق ہے۔اس کے بعد والد بچے کو اپنی تحویل میں لے سکتا ہے،البتہ اگر  حالات وقرائن سے اس بات کا ظن غالب ہوجائے کہ اگر ان کو ماں کے یا سسرال کے پاس رہنے دیا گیا تو اس سے بچوں کی دینی حالت وتربیت یا جسمانی صحت واضح طور پر متاثرہوگی تو ایسی صورت میں آپ  عدالت کاسہارالے کران کواپنی تحویل میں لے سکتے ہیں،اوراس صورت حال میں  تحویل میں لینے کے لیے دباؤ  کے طور پربچوں کا نفقہ روکنا بھی شرعا درست ہوگا،جبکہ اس سے مقصد حاصل ہونے کی امید ہو ورنہ نفقہ روکنا جائز نہ ہوگا۔اسی طرح والدہ کی ناحق دخل اندازی روکنے کے لیے بھی عدالت کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 556)
(إلا أن تكون مرتدة) فحتى تسلم لأنها تحبس (أو فاجرة) فجورا يضيع الولد به كزنا وغناء وسرقة ونياحة كما في البحر والنهر بحثا.
قال المصنف: والذي يظهر العمل بإطلاقهم كما هو مذهب الشافعي أن الفاسقة بترك الصلاة لا حضانة لها. وفي القنية: الأم أحق بالولد ولو سيئة السيرة معروفة بالفجور ما لم يعقل ذلك (أو غير مأمونة) .
 (قوله: ما لم يعقل ذلك) أي ما لم يعقل الولد حالها، وحينئذ يجب تقييد الفجور بأن لا يلزم منه ضياع الولد كما لا يخفى. وفي النهر: ما لم تفعل ذلك، وفسره بقوله أي ما لم يثبت فعله عنها وهو صحيح أيضا اهـ ح. وفيه أن قول القنية " معروفة بالفجور " يقتضي فعلها له ط فالمناسب الأول وتكون الفاجرة بمنزلة الكتابية، فإن الولد يبقى عندها إلى أن يعقل الأديان كما سيأتي خوفا عليه من تعلمه منها ما تفعله فكذا الفاجرة. وقد جزم الرملي بأن ما في النهر تصحيف.
والحاصل أن الحاضنة إن كانت فاسقة فسقا يلزم منه ضياع الولد عندها سقط حقها وإلا فهي أحق به إلى أن يعقل فينزع منها كالكتابية.

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

07ربیع الثانی1444ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب