021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
یاد کرنے کے بعد قرآن مجید بھول جانا
78100جائز و ناجائزامور کا بیانجائز و ناجائز کے متفرق مسائل

سوال

مفتی صاحب!میں نےسناہےکہ"قرآن مجیدکاکوئی حصہ حفظ کرنےکےبعداگرکوئی شخص بھول جائےتواسےبڑا گناہ اورشدیدعذاب دیاجائےگا۔" کہتےہیں کہ سورہ طہ میں ہے کہ وہ اندھااٹھایاجائے گا۔صحیح حدیثوں میں ہے کہ کوڑھی اٹھے گااوریہ کہ یہ سب سےبڑا گناہ ہے۔

کیابھولنے اوریاد نہ رہنےپر بھی شریعت میں پکڑ ہوتی ہے،آج کل کےتو 80 فیصد حفاظ بھی بھول جاتے ہیں تو عام لوگوں کا کیا پوچھنا۔ کیا ایسے حفاظ کاحفظ کی کوشش نہ کرنا ہی بہتر تھا؟ لوگ کہتے ہیں کہ یاد ہی نہ کرو تاکہ گناہ سے بچے رہو۔

اس بارےمیں امام ابوحنیفہ اوردیگربڑے بڑے علمائے احناف کا کیا کہنا ہے؟حوالہ بھی نقل کر دیں۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

قرآن مجید یاد کرنے کے بعد بھول جانا گناہ کبیرہ ہے، اس بارے میں قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں ،البتہ بھولنے کی حد میں اختلاف ہے شوافع کے نزدیک ظاہر معنی مراد ہے کہ ایسا بھول جائے کہ زبانی(بغیر دیکھے) نہ پڑھ سکے،جبکہ احناف کے نزدیک بھولنے سے مراد یہ ہے کہ دیکھ کر بھی نہ پڑھ سکے، نیز اس وعید کا مستحق بھی وہ شخص ہے جو محض غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے قرآن مجید بھول گیا ہو۔(مرقات شرح مشکوۃ از ملا علی قاری وفتاوی عثمانی ج۱،ص۱۹۹، وہندیہ :ج۵،ص۳۱۷)

حوالہ جات
مشكاة المصابيح مع شرح مرقاة المفاتيح (4/ 1502)
وعن سعد ابن عبادة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - " «ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه إلا لقي الله يوم القيامة أجذم» ". رواه أبو داود، والدارمي.
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (4/ 1502)
(وعن سعد بن عبادة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - " ما من امرئ يقرأ القرآن ثم ينساه "، أي بالنظر عندنا، وبالغيب عند الشافعي، أو المعنى ثم يترك قراءته نسي أو ما نسي (إلا لقي الله يوم القيامة أجذم) ، أي: ساقط الأسنان، أو على هيئة المجذوم، أو ليست له يد، أو لا يجد شيئا يتمسك به في عذر النسيان، أو ينكس رأسه بين يدي الله حياء وخجالة من نسيان كلامه الكريم وكتابه العظيم، وقال الطيبي: أي: مقطوع اليد من الجذم وهو القطع: وقيل: مقطوع الأعضاء، يقال: رجل أجذم إذا تساقطت أعضاؤه من الجذام، وقيل: أجذم الحجة، أي: لا حجة له ولا لسان يتكلم به، وقيل: خالي اليد عن الخير (رواه أبو داود، والدارمي) وروى أبو داود والترمذي أنه - صلى الله عليه وسلم - قال: ( «عرضت علي أجور أمتي حتى القذاة يخرجها الرجل من المسجد، وعرضت علي ذنوب أمتي فلم أر ذنبا أعظم من سورة من القرآن، أو آية أوتيها رجل ثم نسيها» )
الفتاوى الهندية (5/ 317)
إذا حفظ الإنسان القرآن ثم نسيه فإنه يأثم، وتفسير النسيان أن لا يمكنه القراءة من المصحف،

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۷ربیع الثانی۱۴۴۴ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین

مفتیان

سیّد عابد شاہ صاحب / سعید احمد حسن صاحب