021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
عورتوں کے بال کٹوانے کا شرعی حکم احادیث کی روشنی میں(مفصل فتوی)
383/43جائز و ناجائزامور کا بیانلباس اور زیب و زینت کے مسائل

سوال

کیا فرماتے ہیں حضرات مفتیان کرام و حاملان دین اسلام مسئلہ ذیل میں:

حال میں جنوبی افریقہ میں ایک فتنہ کھڑا ہو گیا اور اس فتنہ کا منبع و موجد ایک فاضل دیوبند بنام  محمد طہ کراں ہے ۔ یہ مولوی صاحب جو آجکل شیخ  محمد طہ  کراں سے معروف ہے، دارالعلوم دیوبند سےسند و اول نمبر پاس حاصل کرنے کے بعد انھوں نے مصر جاکر اپنے علماءدیوبند کا مسلک ومشرب کو فراموش کیا، چنانچہ جو فتنہ انھوں نے  شروع کیا وہ علماء دیوبند کے مسلک و مشرب سے جدا گانہ و منفرد ہے ۔ شیخ موصوف کہتا ہے کہ عورتوں کے لیے بال کتروانا جائز ہے۔ ذیل میں راقم السطور نے شیخ طہ کی تحریرات اس سلسلہ میں انگریزی زبان سے نقل کئےہیں   اور آپ حضرات مفتیان کرام کی خدمت میں پیش کر کے جواب شافی ازروئے نقل و عقل  خواستگار ہے  ؟

سوال عورتوں کے بال کٹوانے کا شرعی حکم کیا ہے ؟

الجواب:عورت کے بال کٹوانے کے  مسئلہ میں آراء مختلف رہے ہیں، بعض علماء کا موقف  یہ ہے کہ یہ بالکل ممنوع [ حرام]  ہے دوسرے اس کے بالمقابل رائے رکھتے ہیں کہ یہ روا [جائز ومباح ] ہے ۔ جبکہ ان کے علاوہ دیگر حضرات کا موقف یہ ہے  کہ یہ ناپسندیدہ اور شنیع[ مکروہ] ہے ۔ عبارت ذیل میں ان مختلف  مواقف کی شرعی حجتیں زیر بحث ونظر آئیں گی۔

 عدم جواز کے دلائل: قائلین عدم جواز استدلال کرتے ہیں، چند احادیث یا حدیث کی طرف منسوب کردہ باتوں سےجو مندرجہ ذیل ہیں :

  1. آنحضرت ﷺ نے عورت کو سر منڈانے سے منع فرمایا ہے ۔

  2. قیامت کے دن عورت اپنے بالوں سے ڈھانپی ہوئی ہوں  گی۔

  3.  آنحضرت ﷺ نے آزاد عورتوں کے لیے جمہ اور کنیزوں کے لیے عقصہ منع فرمایا ہے ۔

 جمہ ان بالوں کو کہتے ہیں جو کندھوں پر لٹکے رہتے ہیں ، اور عقصہ یہ ہے کہ بالوں کا گھچا بناکر سر پر باندھ لیا جائے۔

  1. فرشتوں کی ایک  مخصوص جماعت ہے  جن کی تسبیح یہ ہے:(سبحان من زين الرجال باللحى والنساء بالذوائب)

  1. رواه الحاكم عن عائشة رضي الله عنها. كشف الخفاء ومزيل الألباس للجراحي (1/ 444)

یعنی پاک ہے وہ ذات جس نے مردوں کو ڈاڑھی اور عورتوں کو گیسوں کے ساتھ زینت بخشی۔

  1.  آنحضرت ﷺ نے مردوں کو عورتوں کی اور عورتوں کو مردوں کی مشابھت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے۔

  2.   آنحضرت ﷺ نے  کفار کے ساتھ مشابہت اختیار کرنے کو منع فرمایا ہے ۔

 کراہت کے دلائل :گو یہ رائے نظر سے گزری ہے لیکن اس کا  مستدل  میرے سامنے نہیں آیا شاید اس کی بنا اس پر ہے کہ عورت کی خوبصورتی بال کٹوانے سے بگڑ جاتی ہے اور یہ منشاء ہے کراہت کا ۔

جواز کے دلائل : بال کٹوانے کا جواز ان دلائل سے مئوید ہے:

  1. ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن سے  مروی ہے کہ انھوں نےاپنے بال کٹوائے ہیں ، یہاں تک کہ  وہ وفرہ سے جیسے معلوم ہونے لگے۔

كان أزواج النبي صلى الله عليه و سلم يأخذن من رؤوسهن حتى تكون كالوفرة. صحيح مسلم (1/ 256)

وفرہ: ان بالوں کو کہتے ہیں جو کانوں کی لو تک پہنچتے ہیں ۔

  1. قاعدہ شرعیہ ہے کہ چیزوں میں اصل اباحت ہوتی ہے تا وقتیکہ کوئی دلیل اس کے خلاف نہ ہو۔

تنقیدی نظر: مقصود سے پہلے یہ عرض کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے ، کہ نقلی دلائل میں اصل صحت ہے۔

کلام سابق میں ساتنقلی دلائل مذکور ہوئے ہیں جن میں چارمعیار صحت پرپورے نہیں اترتے ہیں وہ چار یہ ہیں :

  1. عورت اپنے بالوں سے ڈھانپی ہوئی ہوگی قیامت کے روز ۔

  2. فرشتوں کی تسبیح کرنے والی جماعت کی حدیث ۔

  3. کنیزوں کے لیے عقصہ اور حرائر کے لیے جمہ کے ممنوع ہونے والی حدیث ۔

  4. عورت کے سر منڈانے کی حرمت والی حدیث ۔

  1. حدیث اول کی تحقیق

 حدیث کے مراجع جو میرے پاس موجود ہیں،ان میں کہیں بھی اس حدیث کا نام و نشان نہیں آیا کہ عورت قیامت کے دن اپنے بالوں میں ڈھاپی ہوئی ہوگی۔ حدیث کی  طرف منسوب کردہ قول کی عدم موجودگی  اتنے ذخیرہ میں جن کی طرف رجوع کیا گیا فی نفسہ دلالت کرتی ہے  اس حدیث کے جعلی ہونے پر ۔

 مزید براں یہ دیگر احادیث سے بھی متعارض معلوم ہوتی ہے ، صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے [6527] کہ جس وقت آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا  کہ قیامت کے دن لوگ ننگے مبعوث ہوں گے تو انھوں

 نے دریافت کیا کہ پھر تو لو گ ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھنے لگیں گے؟ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا، کہ اس دن کی ہولناکیاں ان چیزوں سے مانع ہوں گی۔ جامع ترمذی [3322]میں روایت کیا گیا ہے ، کہ پھر آپ ﷺ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ.

 ترجمہ :ہر آدمی اس روز ایسی بات سے مشغول ہو گا کہ جو اس کو کسی دوسری چیز کی طرف بے فکر چھوڑ کر رکھ دے گی(80/37)

عائشة  رضي الله عنها - : قالت : سمعتُ رسولَ الله -صلى الله عليه وسلم- يقول : «يُحْشَر الناسُ حفاة عراة غُرْلا »، قالت عائشةُ ، فقلت : الرجالُ والنساء جميعا ينظر بعضهم إلى بعض ؟ قال : الأمرُ أشد من أن يُهِمَّهم ذلك.

وفي رواية :« مْنِ أن ينظر بعضهم إلى بعض » أخرجه البخاري ومسلم والنسائي وللنسائي في أخرى قال : « لكل امرئ منهم يومئذ شأن يُغْنيه ». جامع الأصول من أحاديث الرسول (ص: 8045)

  1. حدیث دوم  کی تحقیق

تسبیح  ملائکہ والی حدیث منسوب کی جاتی ہے العجلونی کے کشف الخفاء[1447] میں الحاکم کی طرف ،نیز ابن حجرکی تخریج مسندالفردوس للدیلمی کی طرف۔

 مستدرک للحاکم میں نہیں آئی۔ تو العجلونی کا انتساب اگر ہم صحیح مان لیں تو لا محالہ کسی دوسری  تالیف میں ہوگی ، جیسے ان کی تاریخ نیشاپور میں ، جس طرح بھی ہو یہ سب دلیل نہیں بن سکتی کسی حدیث کے صحیح ہونے کی۔ صحیح ہونے کا مدار کڑی شرائط کے تحت کسی حدیث بتمامہ کو پرکھنا ہے۔ محض انتساب کرنا مجہول مراجع کی طرف اس سے کام نہیں چلتا۔

 مجیب صاحب  اپنی دوسری تحریر میں لکھتے ہیں[ اس حدیث کے صحیح نہ ہونے کی وجہ یہ نہیں کہ المستدرک میں نہیں ملتی بلکہ اس لیے کہ بالکل ملتی ہی نہیں۔ اس کے مصادر ومراجع جس کی طرف اس کی نسبت کی گئی ہے، ہم سے نایاب ہیں اور صحت حدیث کی صحیح تحقیق کے لیے ضروری ہے ،کہ حدیث بتمامہ ہمارے سامنے موجود ہو ۔(بتمامہ سے مراد سند مع متن کے )

تاریخ نیشاپور غیر مطبوع ہے، وجہ اس کی یہی ہے کہ کوئی نسخہ اس کا دنیا میں نہیں رہا۔

 دوسری کتاب [ مسند الفردوس للدیلمی ] بقول شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے ایسی ہے کہ اس میں  جو حدیثیں آئی ہیں وہ زیادہ سے زیادہ ضعیف ہیں اور کم سے کم موضوع و مصنوع ہیں ۔حجۃ اللہ البالغہ 1 /135

 اصل بات یہی ہے کہ فرشتوں کی تسبیح والی حدیث  صحیح حدیث  ہےہی نہیں۔

 اور جو  لوگ اب بھی نہیں مانتے ہیں تو ان حضرات کے لیے میں مولانا عبد الحی  لکھنوی  صاحب رحمه الله تعالي  کا ارشاد دوبارہ نقل کردیتا ہوں، اس استدلال پر  کہ ناقلین سے نقل کرناہی کافی ہے اعتماد کے لیے  بوجہ ان کے مقام اور ان کی شہرت کے  ،تو ہم کہتے ہیں کہ ہر گز نہیں؛ کوئی حدیث بدوں اسناد کے قابل قبول ہی نہ ہوگی ،چاہے کسی معتبر آدمی سے بھی نقل کی گئی ہو بالخصوص جب کہ راوی محدث نہ ہو[ بحواله :الاجوبة الفاضلة نقلا عن رد الاخوان عما احدثوه في آخر  جمعة من رمضان]

 اگر اس کو تسلیم بھی کیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تب بھی  یہ ثابت نہیں کرتی ہے کہ بال کٹوانا ممنوع ہے ،

 با وجودیکہ  اللہ تعالی نے مردوں کوڈاڑھی کے ساتھ زینت بخشی ہے ابن عمر اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی  علیہم اجمعین  نے اپنی ڈاڑھیاں ایک مشت تک کم کیا ہے۔ ٹھیک اسی طریقہ سے عورتوں کا گیسوں کے ساتھ مزین ہونا منافی نہیں ہے اس بات کے کہ اس میں سے کچھ کتروانا نا جائز بھی ہو۔

حدیث سوم کی تحقیق :آزاد عورتوں کے حق میں جمہ کی ممانعت والی حدیث الطبرانی  کی المعجم الصغیر میں محفوظ ہے صفحہ 363۔الہیثمی نے مجمع الزوائد [جلد 5 صفحہ169] میں بالکل ٹھیک فرمایا ہے کہ اسکے رواۃ سب ثقہ ہیں ، لیکن صحیح کے شرائط پر نہ اترنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی اسناد میں اشکال ہے ۔

 [ اپنی دوسری تحریر میں مجیب صا حب لکھتے ہیں] حدیث کی اسناد پراشکال کی وجہ تدلیس ہے ، ،صرف ایک نہیں بلکہ اس حدیث میں دگنی تدلیس پائی جاتی ہے ، پہلی تدلیس ابن جریج کی ہے ، جو عنعنہ کے ساتھ روایت کرتا ہے۔ امام دارقطنی نے ابن جریج کی تدلیس کے بارے  میں کہا کہ ابن جریج کی تدلیس کو چھوڑ دو کیوں کے  اسکی تدلیس بُری  ہے وہ تدلیس کیا کرتے ہیں ان احادیث میں کہ جن کی  سماعت انھوں نے کی ہے  ایسے رواۃ  سے جو مجروح ہیں۔[  تہذیب الکمال صفحہ 354، جلد 18]

تدلیس کا دوسرا نمونہ شامی راوی بقیۃبن الولید کا ہے ، ان کی تدلیس اونچی قسم کی تدلیس تھی جس کو تدلیس التسویہ کہتے ہیں اور اکثر خفیہ طریقہ سے غیر ثقہ  رواۃ حذ ف کرنے سے تھی سند سے ۔ [تہذیب الکمال جلد 4 صفحہ 200 وتحریر تقریب التہذیب صفحہ 179 جلد1]

 اس قسم کی تدلیس کی تائید نہیں ہوتی اس بات سے کہ انھوں نے اس حدیث  کو مروی  عنہ سے واضح صیغہ  سے بیا ن کیا ہے۔

الہیثمی کا قول کہ اس کے سب رواۃ ثقہ ہیں ، دو امر میں ہے فقط: یعنی عدالت اور ضبط میں۔ حالانکہ صحت کی پانچ شرطیں ہوتی ہیں ، بقیہ تین کا انھوں نے کچھ ذکر نہیں کیا ، پس اس سے تصحیح کامل نہیں ہوتی ۔

اور اگر اس حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے تو تب بھی اس میں کوئی دلیل نہیں کہ بال کتروانا فی نفسہ نا جائز ہے ۔ اس حدیث میں بال کی طول اور یا کتروانے کا مسئلہ کا کوئی ذکر نہیں ۔ البتہ اس میں بال رکھنے کی کیفیت کا ذکر ہے ۔ کنیزوں کو اس اس بات سے روکا گیا کہ وہ اپنے بال کا گچھا بنائے یا بال گوندھائے ۔ کہ یہ طریقے حرائر میں رائج تھے، آزاد عورتوں کو پھر اس سے منع کیا گیا کہ  اپنے بال کندھوں پر  کھلے چھوڑ دیں یا لٹکائے رکھیں  کہ یہ خاص لوندیوں کے بال رکھنے کا طریقہ تھا ۔ اور اس کا منشأیہ تھا کہ وضع میں امتیاز باقی رہے ،اور یہ مقصود قرآن و حدیث کے بہت سے دوسرے مواقع میں بھی مفہوم ہوتا ہے،  المناوی نے فیض القدیر( 6/312)میں اس حدیث کے یہ معنی بیان کیے ہیں ۔

  1. حدیث چہارم کی تحقیق :

عن عائشة رضي الله عنها: أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى أن تحلق المرأة رأسها.

الجامع الصحيح سنن الترمذي رقم الحديث:917 (3/ 104)

عن علي كرم الله وجهه:نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تحلق المرأة رأسها.

 سنن النسائي رقم الحديث:5064 (8/ 505)

امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی اس کی علت بھی بیان فرماتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ صحت کے معیار پر نہیں اترتی۔

[ مجیب صاحب اپنے دوسرے رسالے میں لکھتے ہیں] بہرحال میں صاف دل سے اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے  تیار ہوں، کہ یہ حدیث عند الحنفیہ عورت کے بال منڈانے کی ممانعت میں مقبول ہے ۔]

 تاہم منڈانے کی ممانعت کا حکم کتروانے پر عائد کرنا بظاہر مشکل ہے ۔

ہمارے سامنے اب تین حدیثیں باقی رہ گئیں ہیں :

  1. عورتوں کے مردوں سے مشابھت اختیار کرنے اور اس کے بر عکس والی حدیث:

لَعَنَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بالنِّساءِ والمُتَشَبِّهاتِ مِنَ النِّسَاءِ بالرِّجالِ .

أخرجه : البخاري 7/205 (5885) من حديث ابن عباس .

  1.  کافروں کے ساتھ تشبہہ کی ممانعت کی حدیث:

عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " ليس منا من تشبه بغيرنا لاتشبهوا باليهودولا بالنصارى .سنن الترمذي (4/ 159)

أبو ثابت يعلى بن شداد بن أوس عن أبيه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : خالفوا اليهود والنصارى. صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان لمحمد التميمي (5/ 561)

قال رسول الله صلى الله عليه و سلم :من تشبه بقوم فهو منهم (أبو داود عن ابن عمر . النسائى

عن أبى عبيدة بن حذيفة عن أبيه) جمع الجوامع أو الجامع الكبير للسيوطي (ص: 22408)

  1. ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن کے بال کتروانے کی روایت :

كان أزواج النبي صلى الله عليه و سلم يأخذن من رؤوسهن حتى تكون كالوفرة. صحيح مسلم (1/ 256)

تشبه بالرجال: بلا شبہہ دوسری جنس کی مشابہت اختیار کرنا اللہ کی غضب اور لعنت کو نازل کرتا ہے ، لیکن یوں سمجھنا  کہ جبھی عورت  اپنے بال کتروانے لگتی ہے تو مردوں سے تشبہ اختیار کر رہی ہے ، یہ بات تحکم ہے ۔

تشبہ بالرجال کا حکم صرف اس وقت لگایا جائےگا جبکہتشبہ مرد کا نیت وارادہ بھی ہو ، یا اس بال کی وضع اول نظر سے پہچانی جاتی ہو کہ مردوں کی خاص وضع ہے بال رکھنے کی ۔ پس بال کتروانا مردوں کا کوئی ذاتی فعل نہیں ہے ،البتہ

عورت کا اس نیت سے بال کتروانا کہ مردوں سے مشابھت پیدا ہو ۔ یا اس قدر کتروانا کہ بالکل مردوں جیسے کا ہو جائے ،تو بیشک ایسا تشبہ ہےجو حدیث کی رو سے مذموم ہے ۔

 تشبه بالكفار: اسی تشبہ  بالکفار کے متعلق کہا جا سکتا ہے  کہ کتروانا کافروں کی امتیازی شان نہیں ، پس کافروں کے ساتھ تشبہ کا سوال صرف اس وقت پیدا ہوتا ہے، کہ جب اس کے ساتھ نیت تشبہ بھی  مقارن ہو ، یا یہ کہ وہ وضع بال رکھنے کی انہیں کی  امتیازی  وضع پہچانی جاتی ہو ۔  جب یہ دو باتیں کتروانے کے ساتھ ملحق نہ ہوں تو تشبہ بالکفار کا حکم نہیں لگایا جا سکتا  اور  عورت کو بال کتروانے سے منع نہیں کیا جا سکتا ۔ مجیب صاحب  مزید تشبہ کی  بابت لکھتے ہیں ،[ تشبہ کے حکم لگانے والے یوں نہیں سمجھتے ہیں  کہ اگر چہ تشبہ کی اصل نص پر مبنی ہے  لیکن اس کی پہچان اور حکم جزئیات میں نص پر مبنی نہیں ہے ۔ بلکہ عرف پر ہے، بذیل حدیث’’ اللہ تعالی لعنت فرماتے ہیں ایسی عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیا رکرتیں ہیں ، اور ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں‘‘ ۔

فيض القدر لزيد المناوي (14/ 332)

(لعن الله المتشبهات من النساء بالرجال) فيما يختص به من نحو لباس وزينة وكلام وغير ذلك (والمتشبهين من الرجال بالنساء) كذلك قال ابن جرير فيحرم على الرجل لبس المقانع والخلاخل والقلائد ونحوها والتخنث في الكلام والتأنث فيه وما أشبهه قال : ويحرم على الرجل لبس النعال الرقاق التي يقال لها الحذو والمشي بها في المحافل والأسواق اه.

وما ذكره في النعال الرقيقة لعله كان عرف زمنه من اختصاصها بالنساء أما اليوم فالعرف كما ترى أنه لا اختصاص.علامہ عبدالرؤف المناوی  رحمہ اللہ تعالی امام ابن  جریر الطبری  رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں  کہ مردوں کے لیے ایسے باریک چپل پہننا جس کو ’’   حَذو  ‘‘کہتے ہیں حرام ہے ، اور اس کو پہن کر عام جگہوں  اور بازاروں میں جانا ۔

اس پر المناوی کہتے ہیں  کہ باریک چپلوں کے متعلق  جو وہ کہتے ہیں شاید ان کے زمانہ کے عرف پر مبنی ہے   کہ  ایسے چپل  عورتوں کے ساتھ مخصوص تھے۔ لیکن آج تو جیسے آپ دیکھتے ہیں کہ عرف اس پر ہے  کہ یہ خصوصیت اب نہیں رہی  [فیض القدیر  جلد 5 صفحہ271 ]

احیاء علوم الدین کی شرح میں  علامہ محمد مرتضی الزبیدی تحریر فرماتے ہیں  کہ سوائے نسک [حج وعمرہ] کے موقع پر رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں ہے  کہ آپ نے اپنا سر مبارک منڈوایا ہو، اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ  علیہم اجمعین اور تابعین رحمہم اللہ کا حال ہے ۔ بلکہ بال بڑھنے دینا اسلام کا شعار تھا ۔ اور  منڈوانا خوارج کا امتیاز تھا ۔پھر ایک  زمانہ آیا کہ ملک فارس فتح ہو گئی انھوں نے [یعنی مسلمانوں] نے اپنے سر منڈوانا شروع کیا ۔ اور یہ سنت متروک ہوگئی ، بال بڑھانا علوی ، ترک اور متصوفہ کا شعار بن گیا ۔ اور سر منڈوانا وہ سنت بن گئی جس کی پیروی کی گئی ۔ سر منڈانے میں

بات دراصل یہ ہے ، کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے آج کل صفائی کی غرض سے ۔[ اتحاف السادۃ المتقین جلد2 صفحہ 407]

 علی ہذا اگر کسی قوم میں یہ عرف قرار پائے کہ عورتوں کے لیے چھوٹے چھوٹے بال کو بد صورتی اور بگاڑ نا شمار نہ کیا جانے لگے ، تو ان فقہاء کی  ناپسندیدگی جنہوں نے اس کو ناپسند فرمایا ہے بے سود ہے ۔یہ اس وجہ سے نہیں  ،کہ یہ فقہاء خود قابل نہ تھے ،(العیاذ باللہ) بلکہ محض اس لے کہ عرف کا قاعدہ اسی طرح جاری ہوتا ہے۔

ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن کا عمل :

 ابو سلمہ بن عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  کہ رسول اللہ ﷺ کے ازواج مطہرات اپنے بالوں کو کترواتیں تھیں[ لغوی حیثیت سے: لیتی تھیں ]یہانتک کہ ان کے بال وفرہ کی طرح معلوم ہوتے تھے ۔ وفرہ جیسے گزر چکا ان بالوں کا نام ہے  جو کانوں کی لو تک پہنچتے ہیں ۔ اس روایت کی صحت میں کوئی کلام نہیں، امام مسلم نے  اسکی تخریج اپنی صحیح میں کی ہے ۔ [5/4 مع  شرحہ للنووی ] البتہ اس حدیث کے متعلق چند اشکال کیے گئے ہیں :

حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ  نے ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن کے بال کیسے دیکھے جب کہ وہ نامحرم تھے ؟  یہ اشکال لچر معلوم ہو جاتا ہے ،جب یہ دیکھا جاتا ہے، کہ  ابو سلمہ جن کی پیدائش  رسول اللہ ﷺ کے وصال سے تقریبا دس سال بعد ہوئی ، انھوں نے  اپنی زندگی اور خصوصیت سے اپنے بچپن کو مدینہ میں گزارا جہاں  بچپن میں وہ ازواج مطہرات  رضوان اللہ علیہن کے گھروں میں داخل ہوتے تھے،  اور ان میں  اکثر سن 50 ہجری کے بہت بعد تک زندہ  رہیں ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ  علیہن بکثرت عمرہ کیا کرتی تھیں اس واسطے ان کے بال کم معلوم ہو تے تھے۔ اس قول کا ضعف عدم ثبوت  ہے ۔

پھر یہ کہاجاتا ہے کہ حدیث میں کتروانے کا ذکر نہیں بلکہ اس میں بالوں کو سر پراس طریقہ سے باندھے جانےکا ذکر ہے کہ کم اور چھوٹے معلوم ہونے لگے۔یہ توجیہحدیث کے الفاظ اپنے ظاہر پرنہیں چھوڑتی ۔ اس قسم کی توجیہکی طرفرجوع صرف اسوقت کیا جائےگا کہ جب قطعی حجت قائم ہو کہ ظاہری معنی مراد نہیں ۔ حدیث مذکور میں کوئی وجہ ہی نہیں بصورت دلیل ظاہری کے کہ یہ خیال کیا جائے کہ ابو سلمہ کی مراد ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن کے با ل کتروانے سے کوئی دوسرا معنی سوائےرسمی کاٹنےکے مراد ہو ۔[ مجیب صاحباپنے رسالے میں رقم طراز ہیں] میں نے پہلے ذکر کیا اور دوبارہ ذکر کرتا ہوں کہ امام نووی کی شرح ہی سے میں اس نتیجہ پر پہنچ گیا تھا اپنے جواب میں۔ اگر ان جیسےامام نہ ہوتےجنہوں نے میرے لیے راستہ کھول دیا تو میں اس راستہ میں قدم نہ رکھتا لیکن جب وہ فقہ اور حدیث کے امام ہیں اور مذہب شافعی کے وہ محقق ہیںجن کا فضلسب مانتے ہیں ۔ مخالف اور موافق، تو میں نے ان کی پیروی کی ہے ۔

اور امام نووی جیسے اماممیرے رہبرہوتے ہوئے بس میں کچھ پرواہ ہینہیں کرتا ہوں طیش کی چیخ و پکار سے جو معترضصاحب کے رسالہ سے نکلتی ہے ۔

 دونوں قاضی عیاض اور امام النووی  خوب جانتے تھے کہ ازواج مطہرات کے زمانے کا عرف یہ تھا کہ  عورت کے گیسوں  کے اتار دینے پر نکیر ہوتا تھا ، ان کو یہ بات معلوم تھی  اس لیے  کہ ان کے زمانہ میں یہ عرف بدستور تھا ،ان کو یہ بھی معلوم تھا کہ ازواج مطہرات  رضوان اللہ علیہن اپنے گیسوں کو آپ ﷺ کی حیات میں  نہ کٹوا سکتیں تھیں ،کہ یہ تو  آپ ﷺ کا ایک حق جو ان پر تھا مٹادینا ہوتا ۔بنا بریں قاضی عیاض صاحب نے یہ احتیاطی فیصلہ کیا ہے  کہ شاید کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن نے آپ ﷺ کے وصال کے بعد اس لیے کیا ہے  کہ انکو زینت اختیار کرنے اورلمبے بال رکھنے کی ضرورت نہ تھی اور اس کے رکھنے رکھانے میں دشواری نہ ہو۔ امام نووی رحمہ اللہ نے قاضی عیاض کے اس احتیاطی فیصلہ کی تصدیق فرمائی ہے 

عورت کی زینت :

صورت اور زینت کے باب میں بعض  چیزیں ایسی ہیں کہ  قرآن و سنت میں ان کے حدود متعین کے گئے ہیں، جیسے ڈاڑھی اور سونے اور حریر کا  استعمال مردوں کے لیے۔ اور بعض دوسری چیزیں ایسی ہیں کہ جن کی کوئی حد مقرر نہ ہوئی ۔

 عورتوں کے بال کٹوانے کے مسئلہ میں جو احادیث ہیں ان میں تنقیدی جائزہ لینے کے بعد میرا خیال ہے کہ بلا خطرہ حکم کیا جا سکتا ہے  کہ یہ  از قبیل ثانی ہے(یعنی کہ جن کی کوئی حد مقرر نہ ہوئی) ۔ اس قسم کے  احکام میں  بوجہ تعیینات  نصوص کے نہ ہونے کے اعتبار دوسری چیزوں کا ہوگا ، جیسے عرف یا رواج  کا قاعدہ، جو ایک قوم  یا زمانہ سے دوسری قوم یازمانہ میں بدلتا رہتا ہے ، چونکہ ان صورتوں میں شریعت کا حکم عرف پر مبنی ہوتا ہے ،تو اقوام و ازمنہ سے وہ حکم بدلتا رہتا ہے ۔ بنا بریں اگر  کسی قوم خاص میں بال کٹوانا سبب ہے زینت اور خوبصورتی کی تخریب کاری کا، تو شریعت کی رو سے غیر پسندیدہ ہو گا ، اور جہاں بال کٹوانا ایسی نظر سے نہ دیکھا جاتا ہو تو یہ فعل مکروہ نہ رہےگا ۔

 میری رائے میں  ہمارے ہاں عورت کے بال کٹوانے کو زینت بگاڑنے کےنظر سے نہیں  دیکھا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں  جو حضرات اس کو منع کرتے  ہیں  اس واسطے اس کو منع نہیں کرتے ہیں کہ اس کو زینت بگاڑنے میں کچھ دخل  ہے بلکہ ان احادیث کی بنا پر جو ہم نے بیان کیا ہے ۔ بسا اوقات  عرف پر مبنی  جواز کا حکم دیگر وجوہات کی بناپر منتفی ہوسکتا ہے ، اس بناپر اگر کسی قوم میں عام طور سے عورت کے بال کٹوانے کو تخریبِ زینت میں  شمار نہ کیا جاتا ہو لیکن ہو سکتا ہے کہ عورت کا زوج  اس کو نا پسند کر تا ہے اس صورت میں زوج کی پسند کردہ بات عرف پر مقدم ہو گی بوجہ اس کے کہ  عورت کے ذمہ واجب ہے کہ زوج کی اطاعت کرے اور اس کو خوش رکھے ۔

[ مجیب صاحب نے مذاہب   اربعہ در مسئلہ مذکورہ سے بھی استدلال کیا ہے ]

چنانچہ اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں :

مذاہب کیا کہتے ہیں ؟

مذہب شافعی :

امام نووی نے شافعی مذہب کا قول اپنی شرح صحیح مسلم میں ظاہر کیا ہے  جہاں وہ فرماتے ہیں ابو سلمہ کی حدیث کے متعلق کہ اس حدیث میں دلیل ہے  عورت کا اپنے بال   ہلکا کرنے کی، واضح ہو کہ مذہب شافعی میں امام  نووی رحمہ اللہ تعالی کی  شرح علی صحیح مسلم معتبر مانی جاتی ہے  اس مذہب کے احکام کے لیے ۔ ملاحظہ ہو ترشیح المستفیدین  اور الفوائد المکیہ صفحہ 105۔ من المجیب ]ان کی اقتداء کرتے ہوئے  متأخرین کے دو محقق ابن حجر الہیثمی، اور شمس الدین الرملی نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔ شمس الدین الرملی تحریر فرما تے ہیں کہ عورت کے لیے دوسرے طریقہ سے بال دور کرنا ، جیسے جھلسنا    بذریعہ نورہ کے  یا اکھیڑنا علاوہ مرد کے یعنی عورت اور خنثی کے لئےمکروہ ہے  کیونکہ ان کے حق میں یہ صورت بگاڑنا ہے۔

نهاية المحتاج إلى شرح المنهاج (10/ 405)

وكره الحلق ونحوه من إحراق أو إزالة بنورة أو نتف لغير ذكر من أنثى وخنثى ؛ لأنه لهما مثلة ، ومن ثم لو نذره أحدهما لم ينعقد بخلاف التقصير ، ومراده بالمرأة الأنثى فيشمل الصغيرة ؛ لأنها إذا أطلقت فيمقابلةالرجل كما هنا تناولتها وهو الأوفق لكلامهم ، وإن بحث الإسنوي واعتمده غيره استثناء الصغيرة التي لم تنته إلى زمن يترك فيه شعرها .

مذہب مالکی: مذہب مالکی  میں  مجھے کوئی تصریح نہیں ملی کہ کیاحکم ہے حرام ہے یانہیں ؟لیکن جبکہ قاضی عیاض  رحمہ اللہ تعالی  جوکہ مالکیہ کے اجل فقہاء میں سے ہیں نے حدیث کے ظاہری معنی کااعتراف کرلیاہےکہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن اجمعین نے رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد بالوں کوکٹوایاہوگا۔اس سے قرینہ  اور دلالت لیاجاسکتاہےکہ مالکیہ عورت کے بال کٹوانے کے حرمت کے قائل نہیں ہیں ۔

شرح صحيح مسلم للنووي (12/ 49)

 قوله: (وكان أزواج رسول الله صلى الله عليه وسلم يأخذن من رؤوسهن حتى تكون كالوفرة) الوفرة أشبع وأكثر من اللمة واللمة ما يلم بالمنكبين من الشعر قاله الأصمعي. وقال غيره: الوفرة أقل من اللمة وهي ما لا يجاوز الأذنين. وقال أبو حاتم: الوفرة ما على الأذنين من الشعر. قال القاضي عياض رحمه الله تعالى: المعروف أن نساء العرب إنما كن يتخذن القرون والذوائب، ولعل أزواج النبيّ صلى الله عليه وسلم فعلن هذا بعد وفاته صلى الله عليه وسلم لتركهن التزين واستغنائهن عن تطويل الشعر وتخفيفاً لمؤنة رؤوسهن. وهذا الذي ذكره القاضي عياض من كونهن فعلنه بعد وفاته صلى الله عليه وسلم لا في حياته، كذا قاله أيضاً غيره وهو متعين ولا يظن بهن فعله في حياته صلى الله عليه وسلم، وفيه دليل على جواز تخفيف الشعور للنساء والله أعلم.

مذہب حنبلی: مذہب حنبلی میں  بال منڈانے اور کتروانے کا فعل حرام نہیں سمجھاجاتا ہے بلکہ مکروہ ہے  ملاحظہ ہو المغنی لابن قدامہ صفحہ 74 جلد 1، کشف القناع للبحوطی صفحہ 78 جلد 1 جو صاحبان اصول فقہ سے واقفیت رکھتے ہیں وہ سمجھ لیں گے کہ حنبلی مذہب میں اور اسی طرح مالکی  و شافعی مذہب میں مکروہ کے معنی وہی ہیں جو علماء احناف  مکروہ تنزیہی  کو کہتے  ہیں۔ان مذاہب میں مکروہ کے معنی عام طور سے یہ بیان کیے جاتے  ہیں کہ جس سے اجتناب موجب اجر ہو گا اور اس سے اجتناب گناہ یا قابل سزانہیں  ہے ۔ 

مذہب حنفی :جن  مذاہب  میں مسئلہ قص شعر  المرأۃ میں سخت ترین موقف ہے   وہ مذہب حنفی ہے ۔ اس میں عام طور سےعلامہ  الحصکفی کے الدرالمختار سے حکم نقل کیا جاتا ہے  جس میں  نجم الدین الزاہدی صاحب ِمجتبی سے  روایت کیا جاتا ہے  کہ جو عورت اپنے بال کترواتی ہے تو گناہ گار اور ملعون ہو گئی۔ مسئلہ زیر بحث میں جہاں تک مجھے معلوم ہے [میں شکر گزار ہوں گا اگر اس مسئلہ کا حوالہ اوروجود  حنفیہ کی کتب ظاہرالروایۃ میں بتایا جاسکتاہے۔ من المجیب]  کوئی دلیل ہی نہیں اس بات کی کہ  عورت کے بال کٹوانے کی حرمت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کی جا سکتی ہو ، بلکہ الدرالمختار میں علاءالدین الحصکفی  کی [ المتوفی1088 ھ] نے ا س کو المجتبی کی طرف منسوب کیا جو کہ قدوری کی مختصر کی شرح ہے۔ مختار بن محمود الزاہدی کی[ المتوفی658 ھ]، لیکن نہ تو  صاحب مجتبی کی شخصیت، نہ ان کی کتاب ہی اس پایہ کی ہے کہ اس قول کی  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف  نسبت کی جا سکتی ہو۔علامہ  عبدالحی  اللکھنوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں  کہ علامہ   الزاہدی    حنفی تھے معتزلی خیال کے، اور ان کی کتاب المجتبی میں بہت سی عجیب مسائل تھے ۔ (الفوائدالبھیۃ ص 212)۔ الزاہدی کے ناقابل اعتبار ہونے کے متعلق مزید ملاحظہ فرمائیے[ النافع الکبیرص12من المجیب ] اس پر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس مسئلہ میں قابل اعتماد کتابوں جیسے الہدایہ میں اس کا کوئی حوالہ نہیں۔

حاصل جواب بوجہ:

  1. حرمت کے قول کا کوئی معتبر صحیح دلیل نہ ہونے کے۔

  2. صحیح و معتبر دلیل ہونا کہ ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن اپنے بال کترواتی تھیں۔

  3.  ہمارے ہاں عورت کا بال کتروانا زینت بگاڑنے میں شمار نہ ہونا۔

 میں اسی فیصلہ پر پہنچتا ہوں کہ عورت کا  اپنے بال کتروانا قاعدہ سے جائز ہے  بشرطیکہ شوہر انکار نہ کرے، اور یہ کتروانا تشبہہ بالرجال یا تشبہہ بالکفار کے طور پر نہ کیا جاتا ہو ارادتاً یا مآلاً ، ایسی صورت کے حصول سے۔

                                                                   واللہ سبحانہ  وتعالی اعلم

   شیخ طہٓ کران( مجلہ الصراط المستقیم)

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

عورتوں کے  بال کٹوانے کے جواز وعدم جواز کے متعلق تین احادیث قابل غور ہیں ، اس کے بعد ہی اس مسئلے کا صحیح حکم معلوم ہو سکتاہے ۔

 پہلی حدیث سے بظاہر اس کا جواز ثابت ہوتا ہے ، اور اسی سے منسلکہ فتوی میں استدلال کیا گیا ہے ۔

باقی دو حدیثوں سے صراحتاً عدم جواز ثابت ہوتا ہے ، ان دونوں پر منسلکہ فتوی میں کلام کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے ہم شیخ طہٓ کی مستدل پہلی حدیث کے بارے میں عرض کریں گے، بعد میں ان دو احادیث پر کیے گئے اشکالات کا جواب دیا جائےگا جن سے عدم جواز  معلوم ہوتا ہے ۔

پہلی حدیث :

كان أزواج النبي صلى الله عليه و سلم يأخذن من رؤوسهن حتى تكون كالوفرة. صحيح مسلم (1/ 256)

منسلکہ فتوی میں جس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے ، وہ سند کے اعتبار سے صحیح ہے ، امام مسلم رحمہ اللہ نےصحیح مسلم میں اس کو نقل کیا ہے  لیکن  اس حدیث  کا  جو مفہوم و معنی جناب طہ صاحب نے بیان کیا ہے  کہ اس سے مطلقا عورتوں کے لیے بال کٹوانے[ جیسا کہ آجکل رائج ہے ] کی اجازت ثابت ہے تو یہ بات صحیح نہیں ،اس کی کئی وجوہ ہیں :

 حضرت حکیم الامۃ تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ اس وضع مسئول عنہ [یعنی قطع الشعور للنساء] کی حرمت  پر دلائل صحیحہ قائم ہیں اور جواز کی دلیل میں چند احتما  لات ہیں، اس لیے حرمت ثابت اور اور جواز پر استدلال فاسد ہے ،امر اول کا بیان یہ ہے    کہ مبنی علیہ اس وضع کا تشبہ بنساء الکفار ہے  جو اہل وضع کو مقصود بھی ہے ، اور اس میں تشبہ بالرجال بھی ہے   ۔ گو ان کو مقصود نہو اور اطلاق دلائل سے  یہ تشبہ ہر حال میں حرام ہے ،        خواہ اس کا  قصد ہو یا نہ ہو ۔     اور علاوہ تشبہ کے اس کے  منع پر اور بھی دلائل قائم ہیں  ، کما فی الدر عن المجتبیٰ الدر المختار للحصفكي (6/ 727):قطعت شعر رأسها أثمت ولعنت.

الأشباه والنظائر – حنفي أحكام الأنثى (ص: 357):وتمنع عن حلق رأسه .

غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (6/ 315):

والظاهر أن المراد بحلق شعر رأسها إزالته سواء كان بحلق أو قص أو نتف أو نورة . فليحرر ، والمراد بعدم الجواز كراهية التحريم.

اور امر ثانی کا بیان یہ ہے کہ  اولًا :راوی نے اپنا مشاہدہ بیان نہیں کیااور گو  راوی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے محرم ہیں ، مگر نہ الفاظ حدیث  شمول لعائشة میں نص ہیں،  نہ راوی  دوسری ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن  کے محرم ہیں ، کہ’’ شعور‘‘  کا مشاہدہ کیا ہو ، نہ کسی صاحب مشاہدہ کا نام لیا ہے ،     نہ صاحب مشاہدہ کا ثقہ غیر ثقہ ہونا معلوم ہے ، نہ یہ معلوم ہے کہ انھوں نے تحقیق سے کہا ہے یا تخمین سے ۔       بعض اوقات عورتیں بالوں کو ایسا متداخل کردیتی ہیں ،     کہ دیکھنے والے کو شبہ تخفیف شعو رکا ہوتا ہے ۔

  ثانیاً:  وفرہ بقول اصمعی لمہ سے اشبع ہے اور لمہ وہ ہے کہ منکبین سے لگتا ہو، نقلہ النووی رحمہ اللہ تعالی۔

 پس وفرہ منکبین سے بھی نیچے ہوا، پھر ان شعور کو    وفرہ نہیں کہا گیا بلکہ’’ کالوفرہ ‘‘ کہا گیا، تو اس میں یہ بھی احتمال ہو گیا کہ وفرہ سے بھی نیچے ہوں ، بلکہ غور کرنے کے بعد یہ احتمال راجح بلکہ ، مثلِ متعین کے ہے ،       کیونکہ اگروفرہ سے کم ہوتے  ،تو اس کے لیے لغت موضوع ہے یعنی لمہ، تو لمہ سے تعبیر کیا جاتا      کالوفرہ کہنے کی کیا

ضرورت تھی ؟ اور وفرہ سے زائد چونکہ لغت نہ تھی، اس لیے کالوفرہ سے تعبیر کیا گیا ۔ اور اس حالت میں یقینا ذوائب و قرون بن سکتے ہیں ،غایۃ  ما فی الباب اس حدیث سے عورتوں کے لیے قرون و ذوائب  میں قدرے تخفیف کی گنجائش ہوگی ، تو حدیث کا مدلول نفی قرون نہیں ہوا، بلکہ تخفیف شعور ہوا، چنانچہ علامہ نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے ، منہ دلیل علی جواز تخفیف الشعور للنساء[ امدادالفتاوی جلد 4صفحہ 227،228]

 دوسری حدیث:

 عورتوں کے بال کاٹنے کی ممانعت کے متعلق بنیادی دلیل تو حضرت  ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، جس میں منع النساء عن التشبه بالرجال وارد ہے، روی البخاری عن ابن عباس رضی الله تعالی عنهما     انه قال لعن رسول الله ﷺ المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساءبالرجال [ بخاری مع الفتح جلد 1 صفحه 332]

منسلکہ فتوی میں اس حدیث کا یہ جواب  دیا گیا ہے کہ چونکہ اس زمانے میں قص الشعور میں تشبہ  مقصود نہیں، اورنہی کا مدار قصد تشبہ پر ہے ۔

 جواب:پہلا جواب تو اس کا علی سبیل المنع ہے، کیونکہ ظاہر یہی ہے کہ جو عورتیں یہ کام کرتی ہیں، ان کا مقصود تشبہ بالرجال وبنساء الکفار ہی ہے  کیونکہ زیب و زینت کا یہ انداز فی الواقع مغرب سے مستعار لیا گیا ہے کہ مرد عورت بنتے جائیں اور عورتیں مردوں کی صورت اختیار کریں۔

 دوسری بات یہ کہ اگر مان بھی لیا جائے   کہ تشبہ مقصود نہیں تب بھی اس سے قطع الشعور کا جواز معلوم نہیں ہوتا، کیوں کہ یہاں دو چیزیں ہیں، ایک تشبہ کی وجہ سے تأثم کا حکم ہے  اور ایک اس فعل کا  فی نفسہ نا جائز ہونا، اور ان دونوں میں فرق ہے  قتل خطاء میں قاتل گناہگار نہیں ہے، لیکن اس کا یہ فعل ممنوع اور موجب ضمان ہے ۔ اس طرح عورتوں کا مردوں کے ساتھ مشابہت  اختیار کرنے کا مسئلہ بھی ہے ۔ مثلا ً عورتوں کی ڈاڑھی  اور مونچھیں نکل آنے کی صورت میں  اس کا ازالہ لازم ہے حالانکہ اس میں قصد مشابہت نہ ہونا ظاہر ہے ، بلکہ یہ ایک خلقی اور قدرتی وصف ہے ۔ اب آجکل کے وضع مخصوص فی قطع الشعور میں مشابہت بالرجال وبنساء الکفار تو بہر حال موجود ہے ، کیونکہ ان  کی غالب زینت اور وضع قطع اس طرز پر ہے ،لہذا اس فعل سے مطلقا  منع کیا جائےگا ۔ اور مشابہت اس لیے موجود ہے کہ مشابہت کی جو اساس و معیار ہے وہ یہاں پایا جاتا ہے ۔ حضرت حکیم الامۃ رحمہ اللہ تعالی اصلاح خواتین[385] میں فرماتے ہیں : ’’  اس [مشابہت] کا معیار یہ ہے  کہ جن چیزوں کے دیکھنے سے عام لوگوں کے ذہن میں یہ معلوم ہوتا ہو کہ یہ بات کفار کی ہے ، اور کفار کی

خصوصیت کی طرف ذہن جاتا ہو ، تو تشبہ ہوگا ورنہ نہیں۔مگر جب تک دل میں کھٹک ہے اس وقت تک تشبہ کی وجہ سے ناجائز ہوگا‘‘۔ اور یہی بات  علامہ قرطبی  رحمہ اللہ کے اس قول سے معلوم ہو رہی ہے ۔

  الموسوعة الفقهية الكويتية (13/ 8، بترقيم الشاملة آليا)

 قال القرطبيّ : لو خصّ أهل الفسوق والمجون بلباس منع لبسه لغيرهم ، فقد يظنّ به من لا يعرفه أنّه منهم ، فيظنّ به ظنّ السّوء فيأثم الظّانّ والمظنون فيه بسبب العون عليه .

الموسوعة الفقهية الكويتية (12/ 274، بترقيم الشاملة آليا)

وضبط ابن دقيق العيد ما يحرم التّشبّه بهنّ فيه : بأنّه ما كان مخصوصاً بهنّ في جنسه وهيئته أو غالباً في زيّهنّ ، وكذا يقال عكسه . اس مشابہت کے ممنوع ہونے کی وجہ سے ان چیزوں  میں جو خلقی طور پر ہوں ان میں قصد کا دخل نہ ہو اور ان میں مشابہت لازم آتی ہو کا حکم یہ ہے کہ اس کے ازالے یا بقدرِ ممکن تقلیل کی کوشش لازم ہے ۔ اگر یہ کوشش نہ کی جائے تو مبتلی بہ گناہگار ہوگا ۔ فقال فی الفتح :

فتح الباري شرح صحيح البخاري (24/ 46)

وأما ذم التشبه بالكلام والمشي فمختص بمن تعمد ذلك وأما من كان ذلك من أصل خلقته فإنمايؤمر بتكلف تركه والادمان على ذلك بالتدريج فإن لم يفعل وتمادى دخله الذم (الي) متى كان ترك ذلك(اي التخنث الخلقي) ممكنا ولو بالتدريج فتركه بغير عذر لحقه اللوم.

الموسوعة الفقهية الكويتية - (ج 12 / ص 278)

إن نبت شعر غليظ للمرأة في وجهها ، كشعر الشّارب واللّحية ، فيجب عليها نتفه لئلاّ تتشبّه بالرّجال ، فقد روت امرأة بن أبي الصّقر - وهي العالية بنت أيفع - رضي الله عنها ، أنّها كانت عند عائشة رضي الله عنها فسألتها امرأة فقالت : يا أمّ المؤمنين إنّ في وجهي شعرات أفأنتفهنّ : أتزيّن بذلك لزوجي ؟ فقالت عائشة :" أميطي عنك الأذى ، وتصنّعي لزوجك كما تصنعين للزّيارة .

 اور اسی  وجہ سے کہ بلا قصد مشابہت بالکفار اختیار کرنا بھی ممنوع ہے ۔ فقہائے کرام نے یوم النیروز والمہرجان[ آجکل کا کرسمس سمجھ لیں ] میں ایک دوسرے کو  ہدیہ دینا گناہ قرار دیا ہے، کیونکہ اس دن غیر مسلموں کی عادت  ہدیہ دینے کی ہے  سو اگر چہ قصد انکی مشابہت کا نہ ہو تب بھی ممنوع ہے  ۔کما فی البزازیۃ عن الہندیۃ ( الموسوعۃ الفقہیہ12/11)

 نیز از خود  یہ بات ہی مسلم نہیں کہ آجکل یہ فیشن مسلمانوں میں  عام ہو چکا ہے ، اور اس میں مشابہت نہیں ۔ کیونکہ  ایک تو مشابہت کا جو معیار ہے[ اس ذکر پہلے آچکا ] یہاں پایا جاتا ہے ، دوسری بات یہ کہ مسلمانوں میں اس وضع کو اختیار

کرنے کی بنیادی وجہ ہی  مشابہت  کفار ہے ۔ تو اس کے  شائع ہونے سے مشابہت اور بھی زیادہ قوی ہوگی، کیونکہ آجکل          عام  مسلمانوں کی عام ذہنیت کے مطابق کفار کی وضع اور ترجیحات و میلانات اختیار کرنا ہی  ترقی کا راز سمجھا جاتا ہے ۔

 النعال السبتية [جس سے مستدل نے استدلال کیا ہے ] کے مسلمانوں میں عام رائج ہونے سے اس کی مشابہت اس لیے  ختم سمجھی گئی کہ وہ طویل اور پر مشقت اسفار کےلیے ایک عام ضرورت کی چیز تھی ، اور مسلمانوں نے اسے ایک اشد  ضروری اور محتاج الیہ چیز سمجھ کر اختیار کیا۔

 آجکل کےاس  فیشن (بال کٹوانا)میں کیا ضرورت ہے ؟ اور اس کا داعیہ کفار کی زیب و زینت اور فیشن اختیار کرنے کے علاوہ اور کیا ہے ؟ ظاہر ہےکہ  اور کوئی بھی وجہ نہیں ، لہذا اس کے پھیلنے سے مشابہت  ختم نہ ہوگی ،خصوصًا جبکہ یہ صرف  مغرب زدہ اور آزاد خیال لوگوں میں پھیلاہے، دین دار  گھرانے اسے سخت عیب سمجھتے ہیں ۔

 تیسری حدیث :

 منع کے متعلق تیسری حدیث وہ طبرانی کی جامع صغیر و کبیر کی  روایت ہے اور مجمع الزوائد   میں بھی مروی ہے۔

مجمع الزوائد للهيثمي (11/ 342)

عن عبد الله بن عمرو قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الجمة للحرة والقصة (2) للامة . رواه الطبراني في الكبير والصغير ورجال الصغير ثقات .

 اس حدیث کی سند معجم صغیر کی روایت میں یہ ہے :

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ فِيلٍ فَيْدٍ الأَنْطَاكِيُّ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو السَّكُونِيُّ الْحِمْصِيُّ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجُمَّةِ لِلْحُرَّةِ وَالْعَقِيصَةِ لِلأَمَةِ.

لَمْ يَرْوِهِ عَنِ الزُّهْرِيِّ ، إِلَّاابْنُ جُرَيْجٍ تَفَرَّدَ بِهِ مُعْتَمِرٌ ، وَلاَ رَوَى عَنِ مُعْتَمِرٍ ، إِلَّابَقِيَّةُ .

صحيح البخاري (3/ 1414)

الجمة وهي ما سقط على المنكبين من شعر الرأس .

  اس روایت میں شیخ صاحب نے دو جگہ تدلیس کی نشاندہی  کرتے ہوئے اسے مسترد کیاہے ، اگر چہ مجمع الزوائد میں  اس کی تو ثیق ہوئی ہے۔

  اس اعتراض کا جواب یہ ہے ،کہ اس حدیث میں بقیۃ بن الولید معتمر بن سلیمان سے حدثنا کے صیغہ سے روایت کرتے ہیں، معتمر بن سلیمان خود ثقہ راوی ہیں۔

تهذيب الكمال لجمال الدين المزي (41/ 472)

قال إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين: ثقة. وقال أبو حاتمثقة صدوق. وقال عمرو بن علي  عن معاذ بن معاذ: سمعت قرةبن خالد يقول: ما معتمر عندنا دون سليمان التيمي. (الي) روى له الجماعة.

 بقیہ پر تدلیس کا الزام ہے، لیکن دوسری طرف ان کے بارے میں محدثین کا واضح فیصلہ موجود ہے  :

تهذيب التهذيب لأبن حجر (12/ 319)

 وقال بن سعد كان ثقة في روايته عن الثقات ضعيفا في روايته عن غير الثقات وقال العجلي ثقة فيما يروي عن المعروفين وما روى عن المجهولين فليس بشيء .

الجرح والتعديل (12/ 436)

سئل يحيى بن معين عن بقية بن الوليد قال: إذا حدث عن الثقات مثل صفوان بن عمرو وغيره (اي فيعتبر ويقبل حديثه) فاما إذا حدث عن اولئك المجهولين فلا، وإذا كنى ولم يسم اسم الرجل فليس يساوى شيئا.

معجم  صغیر کی مذکورہ روایت میں بقیۃ بن الولید معتمر بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں جوکہ ثقہ ہیں، اور ثقات سے  چونکہ ان کی روایت مقبول ہے  ،لہذا اس روایت پر بھی بقیۃ  کے مدلس ہونے کی وجہ سے قدغن صحیح نہیں، اور اس تدلیس کا روایت پر کچھ اثر نہیں پڑتا ۔

نیز تدلیس التسویہ کے بارے میں جس کا بقیہ پر اتہام ہے، محدثین کا قاعدہ ہے :

مقدمة شرح النووي على صحيح مسلم (ص: 54)

ثم قال فريق من العلماء من عرف منه هذا التدليس صار مجروحا لا يقبل له رواية فى شىء أبدا وان بين السماع والصحيح ما قاله الجماهير من الطوائف أن ما رواه بلفظ محتمل لم يبين فيه السماع فهو مرسل وما بينه فيه كسمعت وحدثنا وأخبرنا وشبهها فهو صحيح مقبول يحتج به وفى الصحيحين وغيرهما من كتب الأصول من هذا الضرب كثير لا يحصى كقتادة والاعمش والسفيانين وهشيم وغيرهم ودليل هذا أن التدليس ليس كذبا واذا لم يكن كذبا وقد قال الجماهير أنه ليس محرما والراوى عدل ضابط وقد بين سماعه وجب الحكم بصحته والله أعلم.

بقیہ کی طرح تو ولید بن مسلم  بھی تدلیس التسویہ کرتے تھے لیکن تحدیث کی تصریح کے ساتھ ان کی روایات صحیحین میں موجود ہیں .راجع تدریب الراوی.

تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي لامام جلال الدين السيوطي (2/ 167)

الثاني : تدليسُ الشُّيُوخِ بأنْ يُسَمِّى شيْخَهُ أَوْ يَكْنِيهِ أَوْ يَنْسبهُ أَوْ يَصِفهُ بِما لا يُعْرَف ؛ أَما الأولُ فَمكْرُوهٌ جِداً ، ذَمهُ أَكثَرُ العُلماءِ ، ثمَّ قالَ فَرِيقٌ منهُمْ : منْ عُرفَ بِهِ صارَ مُجرُوحاً مَرْدودَ الرِّوايةِ وإنْ

بيَّنَالسَّماعَ ، والصَّحيحُ التَّفصِيلُ ، مَمَّا رَوَاهُ بِلْفظٍ مُحتَمل لَمْ يُبيِّنْ فِيهِ السَّماعَ فَمُرسلٌ ، ومَا بَيَّنهُ فِيهِ ، كَسَمعْتُ وحدَّثنا ، وأَخبرَنا وشِبهها فَمْقبُولٌ مُحتجٌ بِهِ ، وفي الصَّحيحين وغيْرِهما منْ هذَا الضّرْبِ كثيرٌ ، كقَتادَةَ ، والسُّفيانَيْن وغيْرهمْ (وفي الهامش: كعبد الرزاق والوليد بن مسلم).

  اس حدیث میں دوسرے  متکلم فیہ  راوی ابن جریج ہیں جن کا پورا نام  عبد الملک بن عبدالعزیز بن جریج ہے۔ ان کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کا کلام ملاحظہ ہو:

ميزان الأعتدال للذهبي (4/ 64)

 عبدالملك بن عبد العزيز [ ع ] بن جريج ، أبو خالد المكى ، أحد الاعلام الثقات ، يدلس ، وهو في نفسه مجمع على ثقته مع كونه قد تزوج نحوا من سبعين امرأة نكاح المتعة ، كان يرى الرخصة في ذلك . وكان فقيه أهل مكة في زمانه . قال عبدالله بن أحمد بن حنبل : قال أبى : بعض هذه الاحاديث التى كان يرسلها ابن جريج أحاديث موضوعة .

تقريب التهذيب لأحمد العسقلاني (2/ 115)

عبد الملك بن عبد العزيز بن جريج الأموي مولاهم المكي ثقة فقيه فاضل وكان يدلس ويرسل من السادسة .

حاصل یہ کہ  موصوف فی نفسہ ایک ثقہ راوی ہیں ،لیکن تدلیس کی صورت میں ان کی روایات متروک ہیں ۔ لیکن یہ بات محقق ہونی چاہیے کہ اس روایت میں ابن جریج نے تدلیس کا  ارتکاب کیا ہے یا ارسال کا ؟ اگر ارسال کا ارتکاب کیا ہے تو کیا  ان کی مرسل روایات مقبول ہیں یا نہیں ؟

 امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے مقدمہ مسلم میں اور اسی طرح اصول  حدیث کی مشہور کتاب توجیہ التظر میں قاعدہ بیان کیاہے ، کہ اگر راوی ایسے مروی عنہ سے واسطہ چھوڑ کر روایت کرے جس کے ساتھ اس کی معاصرت ہو لیکن لقاء یا عدم لقاء کا علم نہ ہو تو یہ تدلیس ہے ، اور اگر عدم لقاء کا علم ہو تو اس صورت میں واسطہ چھوڑنا ارسال ہے تدلیس نہیں ۔

مقدمة شرح النووي على صحيح مسلم (ص: 52)

الاسناد المعنعن وهو فلان عن فلان قال بعض العلماء هو مرسل والصحيح الذى عليه العمل وقاله الجماهير من أصحاب الحديث والفقه والأصول انه متصل بشرط أن يكون مدلس وبشرط امكان لقاء من أضيفت العنعنة اليهم بعضهم بعضا وفى اشتراط ثبوت اللقاء وطول الصحبة ومعرفته بالرواية عنه خلاف منهم من لم يشترط شيئا من ذلك وهو مذهب مسلم ادعى الاجماع عليه وسيأتى الكلام عليه حيث أذكره فى أواخر مقدمة الكتاب ان شاء الله تعالى ومنهم من شرط ثبوت اللقاء وحده وهو مذهب على بن المدينى

والبخارى وأبى بكر الصيرفى الشافعى والمحققين وهو الصحيح ومنهم من شرط طول الصحبة وهو قول أبى المظفر السمعانى الفقيه الشافعى ومنهم من شرط ان يكون معروفا بالرواية عنه وبه قال أبو عمرو المقرى وأما اذا قال حدثنا الزهرى أن ابن المسيب قال كذا أو حدث بكذا أو فعل أو ذكر أو روى أو نحو ذلك فقال الإمام أحمد بن حنبل رحمه الله وجماعة لا يلتحق ذلك بعن بل يكون منقطعا حتى يبين السماع وقال الجماهير هو كعن محمول على السماع بالشرط المقدم وهذا هو الصحيح.

توجيه النظر إلى أصول الأثر (2/ 557)

وقال ابن القطان في بيان الوهم والإيهام إن الإرسال رواية الراوي عمن لم يسمع منه

 وعليه فتكون رواية من روى عمن سمع منه ما لم يسمع منه بأن يكون بينهما واسطة فيها ليست من قبيل الإرسال بل من قبيل التدليس.

 عدم لقاء کا ایک مطلب تو یہ کہ ملاقات ہی  نہیں ہوئی ہولیکن اگر نفس ملاقات ثابت ہو، اور یہ بھی ثابت ہو کہ اس نے فلاں  سے روایت بالکل نہیں کی تو اس جسدی ملاقات کے با وجود بھی اس روایت کو ہم مرسل ہی کہیں گے، کیونکہ ارسال کا مدار تیقن ترک واسطہ پر ہے ، ،جوکہ یہاں موجود ہے ۔ اب ابن جریج کی زبانی  یہ ثابت ہے کہ  انہوں

نے  امام زہری سے[ جوکہ  حدیث البحث میں بھی ان کا مروی عنہ ہے ] براہ  راست روایات نہیں سنیں ، بلکہ انہوں نےاپنی  ایک کتاب دی تھی جس کو ابن جریج نے لکھا، اور پھر اس کی روایت کی اجازت بھی امام زہری  سے حاصل کی تھی .

تهذيب التهذيب (21/ 406)

قال قريش بن أنس عن ابن جريج لم أسمع من الزهري شيئا إنما أعطاني جزء فكتبته  وأجاز له وذكره ابن حبان في الثقات وقال :كان من فقهاء أهل الحجاز وقرائهم ومتقنيهم وكان يدلس وقال الذهلي: وابن جريج إذا قال حدثني وسمعت فهو محتج بحديثه داخل في الطبقة الأولى من أصحاب الزهري .

زیر بحث  روایت میں  صورتحال ان دو حال سے خالی نہیں ، یا یہ  روایت ابن جریج نے زہری کی اس کتاب سے نقل کی ہے  ، جس کا ذکر ہواتو پھر  یہ روایت معتبر ہے ۔

 جرح و تعدیل کے مشہور امام ابن معین  رحمہ اللہ فر ماتے ہیں  :

تهذيب الكمال مع حواشيه ليوسف المزي (18/ 350)

وَقَال أحمد بن سعد بن أَبي مريم ، عن يحيى بن مَعِين : ثقة في كل ماروى عنه من الكتاب.

اگر انہوں یہ روایت کتاب سے نہیں لی بلکہ ارسال کی ہو تو پھر بھی احناف کے مشہور قاعدہ کے مطابق یہ روایت معتبر ہے ۔

اصول السرخسي ـ محمد بن أحمد السرخسي (1/ 359)

 ولا خلاف بين العلماء في مراسيل الصحابة رضي الله عنهم أنها حجة لأنهم صحبوا رسول الله صلى الله عليه و سلم فما يروونه عن رسول الله عليه السلام مطلقا يحمل على أنهم سمعوه منه أو من أمثالهم وهم كانوا أهل الصدق والعدالة وإلى هذا أشار البراء بن عازب رضي الله عنهما بقوله ما كل ما نحدثكم به سمعناه من رسول الله صلى الله عليه و سلم وإنما كان يحدث بعضنا بعضا ولكنا لا نكذب فأما مراسيل القرن الثاني والثالث حجة في قول علمائنا رحمهم الله

ابن جریج چونکہ قرن ثانی کے ائمہ  فقہ و حدیث  میں تھے ، انکی وفات سن 150 ہجری میں ہوئی کما فی عامۃ کتب الجرح والتعدیل اس لیے اس قاعدے کے تحت داخل ہیں .

باقی شیخ صاحب کا یہ کہنا کہ اس کو صحیح ماننے کے بعد بھی اس سے قطع الشعور پر  استدلال کرنا صحیح نہیں الخ ۔

 تو یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ان کی ذکر کردہ تشریح سے  ہمارے مقصود پر فرق نہیں پڑتا، اس اس لیے کہ مجمع الزوائد او ر جامع صغیر کے حوالہ سے اس حدیث کی تشریح میں جمۃ کا معنی کا ذکر ہوا:

معجم صغیر( 1 /133) :

الجمة من شعر الرأس ما سقط علی المنکبین.

 لغت میں بھی اس کے  یہ معنی بیان ہوئے ہیں ، لہذا اس حدیث سے ثابت ہے کہ عورت کے لیے  اتنے بال رکھنا جس میں ضفائر بن سکیں ضروری ہے ، کیونکہ جمۃ سے منع اس لیے ہے کہ  اس میں عورتوں کا وضع  مخصوص یعنی ضفائر نہیں بن سکتیں ، اور مردوں کے ساتھ مشاہت لازم آتی ہے  اور آجکل کے فیشنی بالوں میں اور قطع شعور کے جو طریقے رائج ہیں  ان میں بھی ضفائر نہیں بن سکتیں  تو یہ بھی جمۃ کی طرح منہی  عنہ ہے ۔باقی فقہ حنفی کی رو سے قطع الشعور للنساء  اور خصوصا آجکل کا فیشنی قطع بہر حال ناجائز ہے ۔ یہ صرف زاہدی کا قول نہیں بلکہ علامہ شامی کا نقل کرنا بھی اس کی تائید ہے  فقہاء احناف میں سے کسی نے اس کے خلاف نہیں کہا، تو یہی فقہ حنفی  کا قول شمار ہوگا،اس کے علاوہ الاشباہ میں بھی یہ مسئلہ مذکور ہے کما مر ، لہذا زاہدی کے اس قول پر جو باقی  فقہاءکی تائید سے مؤید ہے ۔فقہ حنفی میں عورت کے لیے بال کاٹنے کی  خرمت کا حکم لگایا جائےگا ، علامہ زاہدی پر اعتزال کی تہمت کا پورا ثبوت چاہئے، اگر ہو بھی  تو ضروری نہیں کہ ان کا ہر قول مطروح ہو ،   علماء  معتزلہ میں بعض ایسے تھے جو فروع میں  احناف کے مذہب پر تھے ، اور احناف کے اصول پر  انہوں نے مسائل کی تخریج کی ہے ۔ اور علماء احناف نے ان کے اقوال و تشریحات کو مان بھی لیاہے ، جیسا کہ  علامہ ابو بکر الجصاص وغیرہ علامہ زاہدی کے متعلق علامہ شامی نے ایک جگہ تحریر فرمایا ہے ، کہ محض اعتزال کی وجہ سے  ان کا قول رد نہیں کیا جا سکتا، بلکہ  جب تک ان کے معارض اقوال ان

سے دلیل کے اعتبار اقوی نہ ہوں ، اور دیگر  اقوال ا ن کی تائید کر رہے ہوں تو ان کے  قول پر عمل کرنا صحیح ہے، اس کے علاوہ شیخ صاحب نے  جو احادیث  اور ان پر کلام پیش کیا ہے ، ان کے جواب  اور تحقیق کی ضرورت نہیں  سمجھی گئی۔ کیونہ مسئلہ کا مدار انہی روایات پر ہے ، جن کی تحقیق پیش کردی گئی۔ اس پر فتن دور میں ایسے مسائل اٹھانا جن سے لوگ شکوک و شبھات کا شکار ہوں، دانشمندی نہیں۔ اللہ تعالی سب کو فہم سلیم نصیب فرمائے  آمین ۔

حوالہ جات
.....................

محمد حسین

دار الافتاء والارشاد کراچی پاکستان

  24/ربیع الاول 1425ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

محمد حسین خلیل خیل

مفتیان

ابولبابہ شاہ منصور صاحب / مفتی محمد صاحب