021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
انجینیر علی مرزا کی یوٹیوب پر غلط بیانی{حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو گالی دینے سے متعلق آل مروان کا کیا نظریہ تھا؟}
70948تاریخ،جہاد اور مناقب کا بیانمتفرّق مسائل

سوال

صحیح مسلم میں صحابہ کے فضائل والے باب میں آخری روایت میں ہے کہ مروان کی اولادمیں سے کوئی گورنر مدینہ بنا تو اس نےحضرت سہل کو حکم دیا کہ وہ ابو تراب کولعنت کریں تو حضرت سہل نے انکار کر دیا۔

مروان کی اولاد میں سے جو گورنر بنا وہ میرے علم کے مطابق حضرت امیر معاویہ کےدور میں کوئی بھی نہیں بنا۔حضرت سہل 91ہجری میں وفات پائے اور شہادت حسین 61ہجری کو ہوئی اور صحیح بخاری میں جس گورنر مدینہ کا حضرت علی کو ابو تراب کہنےکا ذکر ملتا ہےوہ بھی ہو سکتا ہے یہ ہی شخص ہے۔

پاکستان میں انجینیر علی مرزا نامی ایک لڑکا ہے جو پیشہ سے انجینیر ہے،علماءاہل حدیث بھی اسے کذاب کہتے ہیں اور وہ دجل بیانی اور جھوٹ بولنے کا ماہر ہے،مولانااشرف علی تھانوی پر اشرف علی رسول اللہ کاجھوٹا الزام لگایاجو کہ ایک خواب کی تعبیر تھی۔مذکورہ شخص نے یو ٹیوب چینل بنا رکھا ہےجس پر گمراہی بڑی تیزی سے بلکہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے اور اس کو سننےوالوں کی تعداد جو روز اس کے بیانات سنتی ہے،تقریبا 13 لاکھ افراد پر جا پہنچ ہے،مذکورہ شخص یو ٹیوب پر اپنی دجل بیانی سےلاکھوں روپے کما رہاہے،علما پر اپنی کذب بیانی کے ذریعہ عوام کو تاثر دینا کہ وہ علما پر اعتبار نہ کریں، اس شخص کے واضح اوصاف ہیں۔علماء کا بھی رویہ اگرچہ عوام کے ساتھ علم دوستی میں اچھا نہیں ہے،لیکن اس کذاب سے بہرحال بہترہیں.یہ آدمی باتوں کو اس طرح توڑ مروڑ کرپیش کرتا ہے کہ سننے والا اس کے سحر میں مبتلا ہو جاتا ہے اور کم علم آدمی جو کہ علمی شعور نہ رکھتا ہو اس کی باتوں میں آجاتا ہے،بالخصوص بریلوی عوام اس سے متاثر ہوئےبغیر نہیں رہتی اور اس کی گرویدہ ہو جاتی ہے،دیو بندی علماء نے محنت کرنی چھوڑ دی ہےاور اہل حق ہونےکے عجب میں مبتلا کچھ سرکاری سطح پر سرسید احمد خان کے گرویدہ لوگوں کا اثر اور بریلوی افسران کی اکثریت اور انکے شیعہ سے اچھے روابط دیوبند حضرات کوسچ بات کہنے سے روکتی ہے،انجینیرعلی مرزا نے مفتی تقی عثمانی پر اعتراض لگایاہے کہ ان کا مطالعہ کمزور ہے اور انہوں نےحدیث پر درست توجہ نہیں دی ہے اور اس کی دلیل اس نے مفتی تقی کی کتاب حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق کے صفحہ نمبر 45 سے دیاہے کہ ال مروان کی حضرت علی کو گالیان دینے والی روایت ذخیرہ احادیث سے صرف ایک ملی ہے وہ بھی بخاری سے،جبکہ صحیح مسلم میں ایسی ایک روایت ہے جس میں حضرت سہل کو آل مروان میں سے کسی نےعلی کو گالی دینا کا کہا تو انہوں نے انکار کردیا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

اس دور میں سستی شہرت کا آسان طریقہ یہی ہے کہ کسی علمی مسئلہ میں بحث کا آغاز کیا جائے یا کسی مسلمہ معروف علمی شخصیت پر تنقید کا سہارا لیاجائے،علماء حق چونکہ شہرت ومنصب کے ایسے پیاسوں کی رگ اور روگ دونوں سے واقف ہوتے ہیں،نیزعلماءحق  کو دیگراہم اور ضروری کاموں سے فرصت  بھی نہیں،لہذا وہ اپنا اور قوم کا قیمتی وقت اس قسم کے لایعنی اور فضول بحثوں میں پڑ کرضائع نہیں کرتے جن کے جاننے میں دین ودنیا کا معتد بہ کوئی فائدہ  بھی نہیں،اور علماء حق کا اس قسم کے نادانوں کی طرف توجہ کرنا خود ان نادانوں کے مقاصد کے تکمیل کے مترادف ہے،نیزچودہ سو سال کے بعداب تاریخی واقعات میں کوئی بھی ایک فیصلہ یقینی نہیں، بلکہ قرائن اور دلائل کی روشنی میں ہی کوئی فیصلہ ہوسکتا ہے جو کہ حقیقت کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔

 نیزاس قسم کی روایات کی تحقیق اور تطبیق میں چودہ سوسالہ تحقیقات کو یا جمہور کے موقف کونظر انداز کرنا  بجائےخود نفسانیت  اور بے راہ روی ہونےکی ایک مضبوط دلیل اور نشانی ہے۔

علم محض ذاتی مطالعہ  وفہم اوراس سے حاصل تحقیق کا نام نہیں ،بلکہ علم ایک نقل مسلسل کا نام ہے،چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  اساتذہ سے تلمذ(شاگردی) کو علم کی شرط اول قرار دیا ہے ارشاد نبوی ہے:وإنما العلم بالتعلم (صحيح البخاري 1/ 25)لہذا جو لوگ ذاتی مطالعہ پر علمی اور دینی مسائل میں بحث کرتے ہیں نتیجۃ ان کے حصے میں گمراہی ہی آتی ہےجس کی بہت ساری مثالیں اس دور میں بھی پائی جاتی ہیں۔

 رہی یہ بات کہ حضرت  علی رضی اللہ تعالی عنہ کو گالی دینے سے متعلق  حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ وآل مروان کا کیا نظریہ تھا تو اس بارے میں حضرت مفتی تقی صاحب  حفظہ اللہ تعالی کا اپنا نظریہ وہی ہے جو کہ جمہور اہل سنت علماء کا ہے، حضرت مفتی تقی صاحب حفظہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق میں صرف مودودی کے موقف(بحوالہ البدایہ والنہایہ) کہ "مروان  جب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدینہ کا گورنر تھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بر سر منبر گالیاں دیا کرتا تھا "پر تنقید کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ  اول تو یہ روایت ہی مشکوک ہے،( اول اس لیے کہ مصری نسخوں میں خود یہ روایت ہی دستیاب نہیں،دوسرے اس لئے کہ روایت کے آخر میں مذکور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب الفاظ  بھی مشکوک ہیں۔) دوسری بات یہ کہ اس بات کا کسی طرح بھی قطعی ثبوت نہیں کہ  وہ نازیبا الفاظ کیا تھے؟ البتہ بخاری کی ایک روایت کے الفاظ میں امیر مدینہ کا ذکر آتا ہے  اور اس روایت میں امیر مدینہ سےاگر مراد مروان ہی ہو جیساکہ ظاہر یہی ہے توپھر اس سے اس سب وشتم کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے کہ وہ انہیں ابو تراب کہتے تھے اورجو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عطاء فرمودہ ایک محبت کا لقب تھا ،البتہ مروان اس کو زیادہ سے زیادہ حقیق معنی میں استعمال کرتا ہوگا، لہذا اس سے نہ تو معاویہ رضی اللہ عنہ کا انہیں یہ حکم دینا معلوم ہوتا ہے۔اور نہ ہی اسے سب وشتم کے عمومی وکلی عنوان سے تعبیر کرنا درست ہے۔ لہذا اس مقام پر بخاری کی روایت کو ذکر کرنے سے مقصد مودودی کی  ذکرکردہ تاریخی روایت کا امکانی حد تک حقیقی محمل بیان کرنا تھا، ورنہ اصل روایت کے مشکوک ہونے کی حضرت پہلے ہی تصریح فرماچکے ہیں۔نیزصحیح مسلم کی روایت بھی حضرت شیخ الاسلام کے نظر کے سامنےتھی، لیکن ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں ،اس لیے کہ بخاری کی روایت میں کسی  غیر معین فردکا حضرت سہل بن سعدرضی اللہ عنہ کے سامنے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے کی کسی امیر مدینہ کے حوالے سےشکایت کا ذکر ہے،جبکہ مسلم کی روایت میں آل مروان  میں ایک امیر کے خود سہل بن سعد سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو برا بہلا کہلانے کے مطالبہ کا ذکر ہے جس کو حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے رد فرمادیا،جیساکہ اسی روایت کے تحت فتح الملہم شرح صحیح مسلم میں شیخ الاسلام صاحب نے لکھا بھی ہے اور وہاں بخاری کی اس روایت کا حوالہ بھی دیا ہے، اورمسلم کی روایت کے تحت تصریح فرمائی ہے کہ یہ بعض امراءبنوامیہ کا عمل تھا(تکملۃفتح الملہم:ج۵،ص۱۱۵)لہذاحضرت شیخ الاسلام حفظہ اللہ کی عبارات سےواضح طور ثابت ہوتا ہے کہ بخاری کی روایت میں امیر مدینہ سے بظاہرمرادمروان ہے،(جیساکہ قسطلانی نے بھی بحوالہ مقدمہ فتح الباری مروان بن حکم کا مراد ہونا لکھا ہے۔)جبکہ مسلم کی روایت میں آل مروان میں سے کوئی ایک  امیرتھا کما فی تکملۃفتح الملہم،لہذاایسی صورت میں دونوں جگہ سب( برا  کہنے) کا معنی الگ الگ ہونا واضح ہے،جبکہ اگر دونوں سے مراد آل مروان کا کوئی ایک فرد ہو(جیساکہ شیخ الاسلام کی تعبیر"جیساکہ ظاہریہی ہے۔"سےدوسرے احتمال کی بھی گنجائش نکلتی ہے اورخودعلامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے بھی امیر مذکور کے واقفیت سے لاعملی کا اظہار فرمایا ہے)تو ایسی صورت میں پہلی روایت میں برا کہنا اجمالی و ضمنی طور پرہوگایعنی لفظی معنی لے کر ابو تراب کہنا،جبکہ دوسری روایت میں تفصلیلاوصراحۃ لعن مرادہوگا،جیساکہ طبرانی کی روایت سے اس کی تایید بھی ہوتی ہے،لہذادونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں ۔

حوالہ جات
فتح الباري لابن حجر (7/ 72)
قوله عن أبيه هو أبو حازم سلمة بن دينار قوله إن رجلا جاء إلى سهل بن سعد لم أقف على اسمه قوله هذا فلان لأمير المدينة أي عنى أمير المدينة وفلان المذكور لم أقف على اسمه صريحا ووقع عند الإسماعيلي هذا فكان فلان بن فلان قوله يدعو عليا عند المنبر قال فيقول ماذا في رواية الطبراني من وجه آخر عن عبد العزيز بن أبي حازم يدعوك لتسب عليا قوله والله ما سماه إلا النبي صلى الله عليه وسلم يعني أبا تراب
شرح القسطلاني = إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري (6/ 116)
(أن رجلا) لم يقف الحافظ ابن حجر -رحمه الله- على اسمه (جاء إلى سهل بن سعد) بسكون الهاء والعين الساعدي (فقال: هذا فلان لأمير المدينة) أي عنی أمير المدينة قال في المقدمة: هو مروان بن الحكم (يدعو عليا عند المنبر) أي يذكره بشيء غير مرضي، وفي رواية الطبراني من وجه آخر عن عبد العزيز بن أبي حازم يدعوك لتسب عليا۔

نواب الدین

دار الافتاء جامعۃ الرشید کراچی

۲۰جمادی الاولی ۱۴۴۲ھ

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

نواب الدین صاحب

مفتیان

آفتاب احمد صاحب / سعید احمد حسن صاحب