021-36880325,0321-2560445

بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

ask@almuftionline.com
AlmuftiName
فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ
ALmufti12
صریح تین طلاقوں کاحکم
75790طلاق کے احکامصریح طلاق کابیان

سوال

جناب مفتی صاحب :میرانام دانیہ شوکت ہے،اورمیرےشوہرکانام شامیرارشدہے،میں ایک مسئلہ میں آپ کے دارالافتاءسےشریعت کی راہنمائی چاہتی ہوں اورمیں اپناپوراواقعہ آپ کےعلم میں لاناچاہتی ہوں تاکہ سوال سمجھنےمیں کوئی ابہام نہ رہے،وہ یہ کہ مجھ سےبشری غلطی کےتحت ایک لڑکےکےساتھ LOVE MARRIAGEہوئی جس میں میرے والدین کی رضامندی شامل نہیں تھی اورتقریباسال ہونےکوہےمیرےوالدین،میرےاس فیصلہ سےبہت زیادہ ناراض ہیں اب مسئلہ پیش کرناچاہتی ہوں کہ جس لڑکےکےساتھ میں نےبھاگ کرشادی کی ،شادی کےکچھ وقت بعدسےاس کی اور میری نہیں بن پائی،میں اپنےوالدین کی رضامندی حاصل کرناچاہتی تھی اور بارباراپنےشوہرکو والدین سےملاقات کرنےکاکہتی تھی ،اس کےعلاوہ کچھ اورگھریلوباتوں کی وجہ سےبھی ہماری آپس میں بلک نہیں بن پائی۔جس کانتیجہ یہ ہواکہ ہماری آپس میں ہمیشہ لڑائی رہتی ہےاورمیرےشوہرکا میرےساتھ ہرآئےدن جھگڑاہوتا رہتاہےبلکہ کئی دفعہ لڑائی ہوئی ہےاورمجھےسروغیرہ پرزخم بھی ہوئے،دوسری طرف وہ بات بات پرمجھےطلاق دیتے ہیں،کئ دفعہ طلاق دی ہے،وہ سب صورتیں بھی میں آپ کےعلم میں لاناچاہتی ہوں ،سب سےپہلےجب میرےاپنے گھروالوں سےملنے کےحوالےسےبات ہوئی تواس نےکہاکہ تم میرےساتھ نہیں رہناچاہتی میں تمہیں طلاق دیتاہو ۔میں نےدارالافتاء سےمعلوم کروایا،تو انہوں نےکہاکہ اس سےطلاق نہیں ہوتی کیونکہ اس نےدی نہیں ہےصرف دینےکا کہاہے، دوسری مرتبہ جب ہماری لڑائی ہوئی تومیں نےاسے کہامجھےطلاق دےدو،تب اس نےکہامیں نےتمہیں طلاق دے دی ۔پھرتیسری مرتبہ ہماری لڑائی ہوئی جس میں وہ دس منٹ کےلئےباہرچلےگئےپھراس کے بعد آئےاس کی ماں اور پھوپھی بھی بیٹھی تھیں اورکہامیں تمہیں طلاق دیتاہوں،طلاق دیتاہوں،طلاق دیتاہوں، اس کےساتھ یہ الفاظ بھی کہے کہ میں نےتمہیں طلاق دےدی ۔اب اٹھوجاؤاورخوش ہوجاؤ۔

پہلی طلاق جیساکہ مفتی صاحب نےبتایاواقع نہیں ہوئی،دوسری اورپھرتیسری مرتبہ  جواکھٹی تین طلاقیں دی ہیں،اس کےبارےمیں ان کی والدہ کہتی ہےکہ تین طلاقیں ایک مجلس میں ایک طلاق ہوتی ہے،لہذا تمہیں طلاق نہیں ہوئی جبکہ میں دیوبندفرقہ سےہوں اورمیں جانتی ہوں کہ ہمارےنزدیک ایک مجلس میں تین طلاقوں سےایک نہیں،پوری تین طلاقیں ہوجاتی ہیں اورمردعورت کاتعلق ختم ہوجاتاہے،مزیدیہ کہ میں نے دار العلوم کراچی کاایک فتوی بھی پڑھااوران کوبتایاتوانہوں نےکہایہ توصحابہ کاقول ہےجبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں تین طلاقوں کاایک طلاق کہاہے۔

آپ سےدرخواست ہےکہ ہمارےدارلافتاؤں میں اس بارےمیں کیافتوی ہےاورمجھےتین طلاقیں ہوئیں یانہیں ؟جبکہ میں نےپوری صورت بیان کردی ہےاوریہ کہ اب میں کسی بھی طرح اپنےشوہرکےساتھ نہیں رہناچاہتی ،میں اپنےوالدین کےپاس جاناچاہتی ہوں اورمیں چاہتی ہوں کہ اپنےوالدین کی رضااورخوشی حاصل کروں۔امیدکرتی ہوں کہ آپ حضرات مجھےدین کی صحیح راہنمائی فرماکرشکریہ اوردعاوں کاموقع عطاءفرمائیں گے۔ جزاکم اللہ خیرا۔

اَلجَوَابْ بِاسْمِ مُلْہِمِ الصَّوَابْ

جب آپ کوشوہرنےپہلےیہ کہاتھاکہ" آپ میرےساتھ نہیں رہناچاہتی میں آپ کوطلاق دیتاہوں "تواس میں انشاء طلاق کا احتمال موجودہے،جس کامطلب یہ ہےکہ اگران الفاظ سےشوہرکی نیت طلاق کی تھی،یاکوئی نیت نہیں تھی تو ان سےایک طلاق واقع ہوگئی ہے،اوراگرشوہرکی نیت ارادہ طلاق کااظہارتھا(جیساکہ اس جملےسےاس کابھی احتمال موجودہے)توایسےمیں پھرکوئی طلاق نہیں ہوئی،لیکن پھرجب دوبارہ آپ کےشوہرنےیہ الفاظ کہےکہ"میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتاہوں،اورساتھ یہ بھی کہامیں نےتمہیں طلاق دےدی"۔ ان جملوں سے تین طلاقیں خلاف سنت واقع ہوچکی ہیں،لہذا آپ دونوں میاں بیوی کانکاح اب باقی نہیں رہا، آپ اپنےسابق شوہر سےفوراعلیحدگی اختیار کرلیں ۔

حوالہ جات
«فتح القدير للكمال ابن الهمام وتكملته ط الحلبي» (3/ 472):
ولنا أيضا ما قدمناه من قول ابن عباس - رضي الله عنهما - للذي ‌طلق ‌ثلاثا وجاء يسأل: عصيت ربك. وما قدمناه من مسند عبد الرزاق في حديث عبادة بن الصامت حيث قال - صلى الله عليه وسلم - «بانت بثلاث في معصية الله تعالى» وكذا ما حدث الطحاوي عن ابن مرزوق عن أبي حذيفة عن سفيان عن الأعمش عن مالك بن الحارث قال: جاء رجل إلى ابن عباس فقال: إن عمي طلق امرأته ثلاثا، فقال: إن عمك عصى الله فأثم، وأطاع الشيطان فلم يجعل له مخرجا،
 وما روى النسائي عن محمود بن لبيد قال «أخبر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن رجل طلق امرأته ثلاثا جميعا فقام غضبان فقال: أيلعب بكتاب الله عز وجل وأنا بين أظهركم حتى قام رجل فقال: يا رسول الله ألا أقتله» وأما ما في بعض الشروح من نسبة الطلاق المذكور إلى محمود بن لبيد فغير معروف، وحينئذ فيجب حمل ما روي عن بعض الصحابة من الطلاق ثلاثا أنهم قالوا ثلاثا للسنة، وأيضا لنا ما ذكر المصنف من أن الأصل في الطلاق هو الحظر لما فيه من قطع المصالح الدينية والدنيوية والأدلة السمعية التي ذكرناها، وإنما يباح للحاجة إلى الخلاص من المفاسد التي قد تعرض في الدين والدنيا فيعود على موضوعه بالنقض، ولا حاجة إلى الجمع بين الثلاث بخلاف تفريقها على الأطهار فإنها ثابتة نظرا إلى دليلها
«البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري» (3/ 258):
وقد صرح ابن عباس - رضي الله عنهما - للسائل الذي جاء يسأله عن الذي طلق ثلاثا بقوله: عصيت ربك وروى عبد الرزاق مرفوعا عنه - عليه السلام -: «بانت بثلاث في معصية الله تعالى» فقد أفاد الوقوع، والعصيان ولأن الأصل في الطلاق الحظر وإنما أبيح للحاجة إلى الخلاص هو يحصل بالواحدة فلا حاجة إلى ما زاد عليها.

عبدالقدوس

دارالافتاء،جامعۃ الرشیدکراچی

۴رجب المرجب ۱۴۴۳

واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

مجیب

عبدالقدوس بن محمد حنیف

مفتیان

محمد حسین خلیل خیل صاحب / سعید احمد حسن صاحب